اکثریت کے عسکریت پسند نظرنہیں آتے؟

وہ یوڈی ایف کے نائب صدر بھی ہیں چنانچہ یادو سرکار اور اس کے ایک سینئر مسلم وزیر پر گرجتے برستے رہتے ہیں۔ان کی گرفتاری پر ذکر یہ چل پڑا ہے کہ گرفتاریوں کے پس پشت سیاسی مخاصمت بھی کام کررہی ہے۔
شاہی جامع مسجددہلی کے امام سید احمد بخاری صاحب نے براہ راست وزیراعظم سے ملاقات کی۔ نصف گھنٹہ کی ملاقات میں ان گرفتاریوں پر، مسلم اداروں کے اقلیتی کردار کے مسئلے پر اوردیگر اہم موضوعات پر ملت کی تشویش سے آگاہ کیا ۔ خبر یہ ہے کہ وزیراعظم نے امام صاحب کی بات کو توجہ سے سنا اور غورکرنے کا وعدہ کیا ۔ چند روزقبل کچھ اورمسلم نمائندے وزیراعظم سے مل چکے تھے۔
دیوبند کی وضاحت:
صورت حال کی سنگینی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ دارالعلوم دیوبند کے مہتمم جناب ابوالقاسم نعمانی صاحب کو صفائی دینی پڑی کہ ہمارے یہاں نہ انتہا پسندی کی تعلیم ہوتی ہے اور نہ تربیت۔دارالعلوم کے دروازے سب کے لئے کھلے ہیں۔ خفیہ ایجنسیوں کی نظررہتی ہے۔
مشترکہ پریس کانفرنس
اس پس منظرمیں دہلی میں ہی بروز پیر،8فروری کو جمعیۃ علماء ہند، ملی کونسل، جماعت اسلامی ، مسلم مجلس مشاورت اور جمعیت اہل حدیث نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں یہ شک ظاہر کیا کہ ان گرفتاریوں کا مقصدسیاسی ہے۔ اس موقع پر جاری مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کوبدنام کرنے ، ان کی حب الوطنی کو مشکوک ٹھہرانے ، ان میں خوف وہراس پیدا کرنے اور فرقہ ورانہ تفریق پیدا کرکے سیاسی فائدے اٹھانے کی سازش ہورہی ہے ۔یاد دلایا گیا ہے گزشتہ سال مارچ میں وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے اعتراف کہا تھا کہ ہندوستانی مسلمان محب وطن ہیں۔ داعش کا مسلم نوجوانوں پر اثر برائے نام ہے۔ وزیر اعظم نے بھی امریکا میں یہی بات دہرائی تھی ۔ لیکن اب اچانک گرفتاریوں کا یہ سلسلہ شروع ہواہے۔ایجنسیاں یہ تاثر دے رہی ہیں کہ ہمارے نوجوان آئی ایس کے رابطہ میں ہیں اور یوم جمہوریہ پر دہشت گرد حملوں کا شک بھی ظاہر کیا گیا جو بے بنیاد ثابت ہوا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ہرچند کہ امید یہی ہے سابق کی طرح یہ نوجوان بھی عدالتوں سے بری ہو جائیں گے، مگرکیونکہ انصاف جلد نہیں ملتا اس لئے نوجوانوں کے کئی کئی قیمتی سال جیل میں اور ان کے اہل خاندان کے خفت اورمصیبت میں گزرتے ہیں۔ یہ بھی یاد دلایا گیا کہ سابق میں کئی دہشت گردانہ حملوں کے الزام میں گرفتاریاں تومسلمانوں کی ہوئیں مگرثابت یہ ہوا کہ حرکت ان غیرمسلم عناصرکی تھی، جن کا تعلق ہندونواز غیر مسلم تخریب کاروں سے ہے۔مثال کے طور پر درگاہ شریف اجمیر، مکہ مسجد حیدرآباد، مالیگاؤں اور سمجھوتہ ایکسپریس کاذکرکیا گیا ہے ۔
پریس بیان میں کہا گیا ہے کہ ایک طرف تو محض شک کی بنیاد پر مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں کا معاملہ ہے اوردوسری طرف دہشت گردی میں ملوّث جو غیرمسلم گرفتار ہوئے ہیں ان کے کیسوں کو ہلکا کیا جارہا ہے۔اس کا انکشاف مالیگاؤں کیس میں سینئر سرکاری وکیل محترمہ روہنی سالیان نے کیا تھا۔اب ایسے ہی ایک کیس میں غیرمسلم ملزمان کے خلاف سے مکوکا ہٹانے کا اشارہ ملا ہے، جب کہ بے قصورپکڑے گئے مسلم ملزمان کو بری کئے جانے کی مزاحمت کی جارہی ہے۔ اس پس منظر میں ان نمائندہ تنظیموں نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ حکومت ان ملزمان کے کیس کو کمزور کررہی، جن کا نظریاتی تعلق آرایس ایس سے ہے اورایک مرتبہ پھر مسلم دہشت گردی کا ہوا کھڑا کررہی ہے۔
مطالبہ کیا گیا ہے کہ یہ سلسلہ بند کیا جائے۔ جن گرفتارشدگان کے خلاف پختہ ثبوت نہیں اور محض شک کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا ہے ، انہیں رہا کیا جائے۔ جن بے قصوروں کو مدتوں جیل میں ڈال کران کی زندگی کو تباہ کیا گیا ان کو بھرپورمعاوضہ دیا جائے ۔ ان کی ملازمتوں کوبحال کیا جائے۔ جن افسران نے ذاتی فائدہ کے لئے بے قصوروں کو پھنسایا ،ان کے خلاف تادیبی کاروائی کی جائے۔ وغیرہ۔
سنی کانفرنس
اسی دن دہلی کے تال کٹورہ انڈوراسٹیڈیم میں آل انڈیا تنظیم علمائے اسلام کے زیر اہتمام’’ دہشت گردی مخالف سنی کانفرنس‘‘ کا انعقادہوا۔ اس کی جو رپورٹ ایک بڑے اردو اخبار میں بینر بنی ہے ،اس سے یہ افسوسناک تاثر پیدا ہوتا ہے کہ مقررین کرام کی نظران معاندین اسلام کی شرانگیزیوں پر نہیں گئی جو دنیا بھر میں بلا تفریق مسلک ومذہب ،اہل اسلام کو تباہ وبرباد کررہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف مشترکہ موقف اختیارکرنے کے بجائے یہ تاثردیا گیا کہ مسلمانوں کا ہی ایک طبقہ یہ سب کچھ کررہاہے ۔ یہ افسوسناک تاثر ان علماء کرام کی تقاریر سے ہوتا ہے جو ہمارے صوفیائے کرام و مشائخ عظام کے حوالے سے بات کرتے ہیں ،جن کا پیغام مخاصمت نہیں محبت ہوا کرتا تھا۔ جو مسلک ومذہب کی تفریق کے بجائے ہر مظلوم ومقہورومجبور کا آسرا بنتے تھے۔ بیشک ان کا پیغام مساوات اور محبت تھا۔ مسلکی تفرقہ پروری نہیں تھا۔ انہوں نے اپنی خانقاہوں اور اپنے دلوں کے دروازے سب کے لئے کھول رکھے تھے۔آج بھی ان کے آستانے سب کے لئے کھلے ہیں۔ ہرشخص اپنے عقیدہ کے مطابق حاضری دیتا ہے اورسکون کی دولت پاتا ہے۔ وہ حکمرانوں کی حاشیہ برداری نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے دور، دوررہتے تھے۔ 
اس کانفرنس میں صوفیا ء کی تعلیمات کو عام کرنے کا مبارک عندیہ ظاہر کیا گیا ہے۔ لیکن یہ پیغام تقریروں اورتحریروں سے نہیں اپنے عملی نمونے سے ہی عام کیا جاسکتا ہے۔صوفی کا سبق خدمت خلق میں انہماک و عبادت اور ریاضت کے وسیلے سے قلب صفا کی تلاش اوراس کے لئے مشق ومجاہدہ ہے۔ خدمت خلق کے شعبے میں ہم ساری اقوام سے پست ہیں۔ ہمارے قلوب کا حال یہ ہے کہ وہ باہمی مخاصمت ، منافقت، کدورت، نفرت اورحقارت کی نرسری بنے ہوئے ہیں۔ اپنے دلوں کو ٹٹول کردیکھئے۔ اگران میں کسی بھی عنوان کسی کے لئے زرہ بھر بھی کدورت ہے،تو اول اس کو نکال پھنکنا ہوگا۔ 
یہ مشائخ اور صوفیا ء نہ ہوتے تودیار ہند میں مسلمان چند ہی ہوتے۔ ہم ان سے عقیدت وتعلق کا دم بھرتے ہیں۔ لیکن ان کے طریقے پر نہیں چلتے۔ انہوں نے توغیروں کو دائرہ اسلام میں داخل کیا اور ہمارا پسندیدہ مشغلہ مختلف تاویلات سے اہل اسلام کو خارج ازاسلام قراردینا ہے۔ہماری عافیت اتحاد واتفاق میں ہے۔ غیروں کے اشارے پر یہ اپنے دل کی کجی سے مسلکی منافرت کے شعلے بھڑکانے میں نہیں ہے۔ ہماری تمام اہل اسلام سے مودبانہ گزارش ہے کہ مراقب ہوئیے۔ اپنے فکروکردار کامحاسبہ کیجئے۔ اپنے عمل وکردار میں محترم صوفیاء کرام کے نقوش پا کو رہنما بنائیے۔ انشاء اللہ یہ دینا ہمارے قدموں ہوگی ورنہ ہم دینا کے قدموں میں ہونگے۔
یہ دھرم سینائیں
20جنوری کے ٹائمس آف انڈیا میں سندیپ رائے اوراودے سنگھ رانا کی ایک طویل سنسی خیر رپورٹ بعنوان :
"15

«
»

غالب کی قیام گاہ آج بھی برباد و بدحال ہے

مسلم یونیورسٹی و جامعہ ملیہ اسلامیہ پر بھگوا حملہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے