محمد سمعان خلیفہ ندوی
استاد جامعہ اسلامیہ بھٹکل
یہاں مسجد الھلال میں ہمیں ظہر کی نماز ہی میں پہنچنا تھا مگر کسی وجہ سے نہ پہنچ سکے، اس لیے عشا کی نماز میں پہنچنا طے پایا، یہ مسجد یہاں دعوت وتبلیغ کا مرکز ہے، یہاں حاضری اور اس کے ذمے دار مولانا سلیمان کتانی سے ملاقات بھی ہمارے اس سفر کا مقصد تھی۔ مولانا کو علم حدیث سے شغف ہے، اللہ نے یہاں آپ سے بہت کام لیا ہے، زبان میں تاثیر ہے، اجتماعات میں اکابر کے بیانات کا ترجمہ اکثر آپ ہی کرتے ہیں، مستقل دعوتی اسفار رہتے ہیں۔ بزنس مکتب شروع کیا ہے، جس سے تقریباً اسی تجار جڑ کر دین کا علم حاصل کررہے ہیں۔ مغربی افریقہ وتنزانیہ میں بھی دینی مکاتب کے فروغ کے لیے فکرمند رہتے ہیں، ساتھ ہی دعوت وتبلیغ کی مستقل مصروفیات بھی ہیں، ان کے ساتھ مولانا فیضل حسین بھی سرگرم ہیں، جن سے ہمارے ڈاکٹر اطہر صاحب اور مولانا خلیل صاحب رابطے میں ہیں، مولانا کتانی کے ایما پر ڈاکٹر صاحب نے فقہ مالکی پر مشتمل تقریباً سات کتابوں کا پورا نصاب تیار کیا ہے، جو اس وقت ساوتھ امریکہ اور ڈربن کے علماء و دانش وران کی نگرانی میں تصحیح اور نظر ثانی کے مراحل سے گزر رہا ہے، جلد ہی ان شاء اللہ پرتگیز اور فرنچ میں بھی اس کا ترجمہ ہوگا۔ مزید اس مقصد سے پرائمری کا نصاب بھی ڈاکٹر صاحب کے قلم سے جلد ہی تیار ہوگا۔
عشا کی نماز کے بعد نصاب اور اس پر نظر ثانی میں پیش رفت کے حوالے سے مولانا کے ساتھ مفصل گفتگو ہوئی، فقہ مالکی کا یہ نصاب نائجیریا، سینیگال، گامبیا، گھانا، بورکینہ فاسو، گنی بساؤ، گینیا کوناکری، آئیوری کوسٹ، انگولا، سیرا لیون وغیرہ دس سے زائد ممالک کے مکاتب میں پڑھایا جائے گا، جن دس ممالک کے بیس فارغین اس وقت اسی مسجد میں تین ماہ کے کورس کی تکمیل کے لیے موجود ہیں، ان سے بھی ملاقات اور گفتگو ہوئی، مولانا موسیٰ صاحب نے ان سے خطاب کیا جس میں فکر آخرت، زندگی کا مقصد، معرفت الٰہی، اسم الٰہی کی برکتیں، اعلائے کلمۃ اللہ اور اس کے لیے جدوجہد اور قربانی، باطل کے فروغ کے لیے عیسائی مشنری کی طرف سے بالخصوص افریقہ کے تناظر میں جان توڑ کوششیں، ان موضوعات پر مولانا مے روشنی ڈالی۔
یہ ملاقات بہت اہم تھی، جس سے دل میں ایک امنگ اور حوصلہ پیدا ہوا اور کام کو بڑھانے اور پوری دنیا میں اللہ کے کلمے کو سربلند کرنے کے جذبے سے نکلنے کا شوق دل میں ابھرنے لگا۔ اس میٹنگ کو ہمارے پورے سفر کا حاصل کہا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ حسن قبول نصیب فرمائے اور مزید اخلاص سے نوازے۔ یہاں پہنچ کر دل احساس مسرت سے لبریز ہوا اور اندازہ ہوا کہ ہمارے مدارس اسلامیہ کا فیض جغرافیائی حدبندیوں سے ماورا کہاں کہاں تک پہنچا ہوا ہے۔
(سفرنامہ جنوبی افریقہ ۱۱)
(سخنؔ حجازی۔ ڈربن۔ چودہ اکتوبر 2024)۔