کاش ۲۰۰۲ پر بھی جذباتی ہو جاتے

وہ تو اپنے حساب سے معاملات کو دیکھتے ہیں۔ ابھی جب حیدرآباد یونیورسٹی کے ایک دلت طالب علم روہت ویمولا نے خود کشی کر لی اور اس پر پورے ملک میں ہنگامہ ہونے لگا اور ان کی منہ بولی بہن اسمرتی ایرانی اور ان کی وزارت پر الزامات کے چھینٹے پڑنے لگے تو انھوں نے لکھنؤ میں بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر یونیورسٹی کے ایک پروگرام کے دوران انتہائی جذباتیت کا مظاہرہ کیا۔ وہ جب بولنے کھڑے ہوئے تو نعرے بازی بھی ہوئی۔ نعرہ باز طلبہ کو باہر نکال دیا گیا۔ بعد میں ان طبا نے ایک بیان میں کہا اور بجا کہا کہ وہ اگر مسلمان ہوتے تو انھیں دہشت گرد قرار دے دیا گیا ہوتا۔ بہر حال وزیر اعظم بولنے کھڑے ہوئے اور چونکہ وہ بابا صاحب کے نام سے معنون یونیورسٹی میں بولنے کھڑے ہوئے تھے جو کہ خود دلت رہے ہیں اور دلت ہونے کی وجہ سے انھوں نے زندگی میں بارہا تذلیل آمیز سلوک کا مشاہدہ کیا تھا، تو چند سیکنڈ تک ان کی آواز ہی نہیں نکلی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ان کا گلا رندھ گیا ہے۔ وہ بولنا تو چاہتے ہیں لیکن آواز نہیں نکل رہی ہے۔ زبان ساتھ نہیں دے رہی ہے۔ کیوں ساتھ دیتی کہ ان کی چہیتی بہن کی وزارت سے وابستہ ایک یونیورسٹی میں ایک ایسا حادثہ پیش آیا تھا جس پر ہنگامہ جاری تھا۔ بہر حال دو تین بار کی کوشش کے بعد وہ کامیاب ہو گئے اور انھوں نے کہا کہ ’’ماں بھارتی نے اپنا بیٹا کھویا ہے اس پر کیا گزر رہی ہوگی‘‘۔ ان کی اس درد انگیز بات پر کچھ لوگ بھی جذباتی ہو گئے اور انھوں نے وزیر اعظم کا ساتھ دیا۔ ان کی تعریف بھی کی اور ان کی انسانیت نوازی کی داد بھی دی۔
ملک کے کسی بھی شہری کی موت دردناک انداز میں ہو تو تکلیف دہ بات تو ہے ہی۔ وہ چونکہ وزیر اعظم ہیں اس لیے ان کا تکلیف میں مبتلا ہونا فطری ہے۔ لہٰذا انھوں نے ایک ایسے نوجوان کی ماں کو ’’مدر انڈیا‘‘ کہا جس کو بی جے پی اور آر ایس ایس کے لوگ دیش دروہی بتا رہے تھے، ملک کا غدار بتا رہے تھے۔ وہ اس کو دیش دروہی کیوں کہہ رہے تھے اس لیے کہ اس نے آر ایس ایس کی طلبہ شاخ اے بی وی پی کے خلاف تحریک چلائی تھی۔ اس حکومت میں تو وہی ہو رہا ہے یعنی اگر تم ہمارے ساتھ ہو تو دیش بھگت ہو اور اگر ہمارے خلاف کھڑے ہو تو دیش دروہی ہو۔ بیچ کی کوئی لائن نہیں، کوئی علاقہ نہیں۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا ہے وزیر اعظم جانتے ہیں کہ کب کیا انداز اپنایا جانا چاہیے، چنانچہ انھوں نے وقت کی ضرورت کے تحت جذباتی رنگ اختیار کیا اور ایک نام نہاد دیش دروہی کی ماں کو مدر انڈیا کا خطاب دیا۔ اس کی معقول وجہ ہے جس پر روشنی ڈالنے کی ضرورت نہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ وہ ایسے اور اس سے بھی بھیانک واقعات پر جذباتی کیوں نہیں ہوتے۔ روہت ویمولا پہلا نوجوان نہیں ہے جس نے خود کشی کی ہے۔ اس واقعہ کے چند روز کے بعد ہی تین طالبات نے بھی خود کشی کی اور اس کی وجہ انھوں نے فیس کی زیادتی اور دوسرے ایسے معاملات کو بتایا تھا جو ان کے کالج سے تعلق رکھتے ہیں۔ لیکن نہ تو اسمرتی کا کوئی بیان سامنے آیا نہ ہی مودی جی گلوگیر ہوئے۔ شائد ان تینوں طالبات کی مائیں ’’ماں بھارتی‘‘ نہیں ہیں۔ جبھی تو انھوں نے ان تین خود کشیوں کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیا۔ اس سے قبل دہلی سے قریب اتر پردیش کے دادری میں ایک شخص محمد اخلاق کو بیف رکھنے اور کھانے کے شبہے میں پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس معاملے نے بہت طول کھینچا۔ اپوزیشن نے حکومت کو خوب خوب آڑے ہاتھوں لیا اور آر ایس ایس اور اس سے وابستہ تنظیموں اور بی جے پی لیڈروں اور کارکنوں کو خوب لعن طعن کی لیکن وزیر اعظم کے جذبات کے سمندر میں کوئی طغیانی نہیں آئی۔ ان کا گلا رندھ نہیں سکا۔ وہ تقریریں بھی کرتے رہے، بیانات بھی جاری کرتے رہے۔ ٹویٹر پر بھی سرگرم رہے اور دوسرے میڈیمس پر بھی۔ لیکن انھیں یہ دکھائی نہیں دیا کہ کس طرح کچھ لوگوں نے ایک بے قصور شخص کو مار مار کر ختم کر دیا۔ شائد وہ کسی ’’ماں بھارتی‘‘ کا بیٹا نہیں تھا۔ اس کے قتل پر اس کی ماں کو کوئی تکلیف نہیں ہوئی ہوگی۔ وہ تو شائد چاہتی ہی تھی کہ اس کے بیٹے کو اس طرح پیٹ پیٹ کر ختم کر دیا جائے۔ اس لیے مودی جی کو کیا ضرورت تھی کہ وہ خواہ مخواہ اپنے قیمتی آنسو خرچ کرتے اور اپنے گلے کو تکلیف دیتے۔ اس سے قبل ملک میں اور جانے کتنے ایسے واقعات ہوئے جن پر ان کو اپنے ہونٹوں پر لگے قفل کو کھولنا تھا لیکن وہ قفل کھلا نہیں اور ان کی زبان سے ایک بھی لفظ ادا نہیں ہوا۔
چلیے ان واقعات کو جانے دیجیے، یہ تو معمولی واقعات تھے۔ ایسے واقعات تو ہوتے رہتے ہیں۔ اگر کسی شخص کو گائے کا گوشت لے جانے کے الزام میں زد و کوب کرکے ختم کر دیا گیا تو کیا ہوا۔ اگر کسی ٹرک ڈرائیور کو مشتعل ہجوم نے درخت یا ستون سے باندھ کر اتنا پیٹا کہ وہ مر گیا تو کیا ہوا۔ وزیر اعظم کے پاس کرنے کو بہت سے کام ہیں۔ اگر وہ ان واقعات پر آنسو بہاتے چلیں گے تو کوئی کام نہیں کر پائیں گے۔ لیکن ۲۰۰۲ کو وہ کیسے بھول گئے۔ اس وقت وہ وزیر اعظم نہیں تھے تو کیا ہوا، وزیر اعلی تو تھے۔ ایک پوری ریاست کے مالک تو تھے۔ اس ریاست میں ان کی مرضی کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا تھا۔ لیکن انھی کی ریاست میں اتنے بڑے پیمانے پر انسانیت کش وارداتیں ہوئیں کہ دنیا لرز کر رہ گئی۔ آج تک ان وارداتوں سے متعلق معاملات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ کچھ لوگوں کو سزائیں بھی ہوئی ہیں اور کچھ بری بھی کیے جا چکے ہیں۔ ان وارداتوں کی وجہ سے جن کو مسلم نسل کشی قرار دیا گیا تھا اور کم از کم دو ہزار مسلمان مارے گئے تھے، ان پر امریکہ نے پابندی عائد کر دی تھی۔ ان کو اپنے ملک میں داخل ہونے سے روک دیا تھا۔ برسوں تک ان پر پابندی لگی رہی۔ وہ تو جب وہ وزیر اعظم ہو گئے تب امریکہ نے پابندی اٹھائی۔ کیا گجرات میں ہونے والے بدترین فسادات میں ایک بھی ایسا واقعہ نہیں تھا جس نے ان کے ضمیر کو جھنجھوڑا ہو۔ معصوم بچوں کو نیزوں پر اچھالنا، حاملہ خواتین کے شکم چاک کرکے نامولود بچوں کو نکالنا اور قتل کرنا، بے سہارا اور بھاگ کر جانے بچانے کی کوشش کرنے والی عورتوں کی عصمتیں تار تار کرنا، ان کی اجتماعی عصمت دری کرنا، ہاتھ جوڑ کر رحم و کرم کی بھیک مانگتے افراد کو تشدد کا نشانہ بنانا اور قتل کر دینا، پوری کی پوری کالونی کا محاصرہ کرکے زندہ انسانو ں کو بھون کر رکھ دینا اور ایسے جانے کتنے واقعات ہوئے تھے جو گجرات کی تاریخ کے دامن پر بدترین داغ کی مانند موجود ہیں۔ کیا ان واقعات سے انھیں کوئی تکلیف نہیں پہنچی۔ آخر ان کی آنکھوں میں آنسو کیوں نہیں آئے۔ کہاں ۲۰۰۲ اور کہاں ۲۰۱۶، اتنے طویل وقفے میں ایک بار بھی ان کا دل نہیں پسیجا۔ تنہائی میں بھی ان کے ضمیر نے انھیں نہیں للکارا۔ ضرور للکارا ہوگا، ضرور کچوکے لگائے ہوں گے۔ اگر ان کے اندر ذرا بھی انسانیت ہے تو ان کا دل کبھی نہ کبھی ضرور رویا ہوگا۔ لیکن وہ ان واقعات پر اظہار افسوس نہیں کر سکتے، آنسووں کے چند قطرے نہیں گرا سکتے۔ ہاں متاثرین کو کتے کا پلا ضرور کہہ سکتے ہیں۔ کیوں؟ اس لیے ان کا یہ رویہ ان کی سیاست کو سوٹ نہیں کرے گا۔ جیسا کہ شروع میں ذکر کیا گیا وہ ایک تجربہ کار سیاست داں ہیں اور جانتے ہیں کہ کب کیسا رد عمل ظاہر کیا جانا چاہیے اور کیسا نہیں۔

«
»

عوامی مسائل اور ان سے بے حسی کا رویہ

قول و فعل کے فرق سے ملک میں پھیلتا عدم تحفظ کا احساس

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے