ہماری مسلم یونیورسٹی پھر نرغے میں

مہاراشٹر کے حالیہ بلدیاتی انتخابات نے بھی مودی کی اس مقبول عام ہیرو کی شبیہ کو سخت دھکا لگا ہے جو 2014کے پارلیمانی الیکشن میں بن گئی تھی۔ان میں بھاجپا چوتھے مقام پر آئی ہے جب کہ کانگریس اس سے چارگنی سیٹ لیکر پہلے مقام پر اوراین سی پی دوسرے مقام پر ہے۔چنانچہ ڈولپمنٹ اورخوشحالی کا جو مایا جال انہوں نے بنا تھا وہ بکھر چکا ہے۔ اب پھر ضرورت ہوگی کی مذہبی اورطبقاتی جنون کو جگایا جائے۔ اسی لئے اجودھیا میں رام مندرکے مسئلہ کو پھر زندہ کرنے کے لئے سبرامنیم سوامی کو کھڑا کیا گیا ہے ۔انہوں نے ’تین مساجد ہمیں دیدو‘‘ کا پرانا راگ الاپنا شروع کردیا ہے۔ہرچند کہ وزیراعظم ’’سب کا ساتھ اورسب کا وکاس‘‘ کا نعرہ لگاتے ہیں، لیکن ان کی سرکار کو یہ بات پسندنہیں مسلم یونیورسٹی میں چند مسلم طلباکوترجیحی بنیاد پرداخلوں کی سہولت جاری رہے۔ مسلم یونیورسٹی کے بارے میں سرکار کے اس موقف سے ظاہر ہوگیا ہے کہ وہ اقلیتوں کے باب میں عدم تحمل اورثقافتی فسطائیت کی پالیسی پر قدم بڑھارہی ہے اور نہیں چاہتی کہ ملک کی اقلیت سکون کے ساتھ رہ سکے اورہردم وہ اپنے آپ کو اوراپنے اداروں کو غیرمحفوظ سمجھتی رہے۔ 
کئی سال کے وقفے کے بعد جب 11 جنوری کو اس کیس میں سماعت پھر شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل مکل روہتگی نے سرکار کی ہدایت کے مطابق آنریبل جسٹس جے ایس کہر، جسٹس ایم وائی اقبال اورجسٹس سی ناگپم کی بنچ کو بتایا کہ ’’مرکزی حکومت کا موقف یہ ہے کہ مسلم یونیورسٹی اقلیتی ادارہ نہیں ہے۔ مرکز میں کار پرداز حکومت ایک سیکولرریاست میں اقلیتی ادارہ قائم نہیں کرسکتی۔‘‘
("It is the stand of the Union of India that AMU is not a minority university. As the executive govement at the Centre

«
»

تارکین وطن کا بحران

ہماری خامیوں کا ذمہ دار کون ؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے