مسلم نوجوانوں کی گرفتاریوں کا نیا سلسلہ

ادھر وزیراعظم نریندرمودی اوروزیرداخلہ راجناتھ سنگھ نے بھی کئی بار کہا کہ ہندستان کو آئی ایس سے کوئی خطرہ نہیں۔ جس سے کافی اطمینان ہوا تھا۔کروڑوں کی آبادی میں اگرچند نوجوان بہک بھی گئے تو ان کی اصلاح کی جاسکتی ہے۔ دنیا بھر میں اب اسی نظریہ کو تسلیم کیاجاتا ہے کہ پہلی خطا کے بعد نوجوانوں کو سزاکے عذاب میں مبتلا کرنے کے بجائے اصلاح کی تدبیراختیارکی جائے۔ ان کو عادی مجرموں کے ساتھ جیل میں نہ رکھا جائے۔ ضرورت ہوتواصلاح گھروں (Corrective Homes) میں رکھا جائے۔ پولیس کی تحویل میں مار پیٹ علاج نہیں۔چنانچہ ہم نے اپنے کسی کالم میں مرکز کی اس صائب پالیسی کا خیر مقدم بھی کیا تھا۔ 
لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پیرس واقعہ بعد مسٹر مودی کا جوش میں آنا اوریہ کہنا کہ آئی ایس کے خطرے سے سب کو مل کر لڑنا چاہئے ، مرکز ی پالیسی میں کچھ تبدیلی کا سبب بنا ہے تاکہ دنیا کو دکھادیا جائے ہم بھی ہیں۔ چنانچہ پولیس پھراسی ڈھرے پر چل پڑی ہے جس پر سابق وزیرداخلہ لال کرشن آڈوانی نے اس کو ڈال دیا تھا۔یہی وجہ معلوم دیتی ہے کہ آئی ایس اورآئی کیو کے نام پر گرفتاریوں کا سلسہ پھر شروع ہوگیا ہے۔ 
داخلہ سکریٹریوں کی مذکورہ میٹنگ 26ستمبر کو دہلی میں ہوئی تھی۔ اس کے بعد اچانک یکم اگست کویہ خبرآئی کی مسٹرگوئل کی جگہ مسٹرمہیشوری کو ہوم سیکریٹری بنادیا گیا ، حالانکہ مسٹرگوئل کی دوسالہ مقررہ مدت میں ابھی ایک سال پانچ ماہ باقی تھے۔اس وقت مسٹرمہیشوری فائننس سیکریٹری تھے ۔ ان کا ریٹائرمنٹ دو تین دن میں ہونے والا تھا۔ لیکن وہ جیٹلی کے قریبی تھے۔ مسٹرگوئل کواس کلیدی منصب سے ہٹا کر انڈیا ٹریڈ پروموشن آرگنائزیشن کا چیرمین بنادیا گیا ۔ہرچند کہ یہ واضح نہیں ہو سکا کہ مسٹرگوئل کی اس اہم منصب سے رخصتی کی وجہ کیا ہوئی لیکن اب یہ شک ہوتا ہے کہ اقلیتی فرقہ کے نوجوانوں کو جیلوں میں ٹھونسے سے گریز کا ان کا مشورہ بھی پی ایم او کو اچھا نہیں لگا ہوگا۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ جس سرکار کے مکھیا اوراکثروزراء سیوم سیوک ہوں ،اس میں ’پی ایم او ‘کا رجحان کیا ہو گا؟ یہ کہنا تو زیادتی ہوگا کہ افسران کہیں باہر سے ہدایت لیتے ہیں، لیکن یہ بات قرین قیاس ہے کہ ہوا کے رخ کو وہ سمجھتے ہیں اورعام طور سے بیوروکریسی میں اہم مناصب پر وہی افسران ترجیح پاتے ہیں جو سرکار کی سیاسی قیادت کے نظریہ سے قریب ہوں۔
اب11؍دسمبرکو یہ خبرآئی کہ جے پورمیں کرناٹک کا ایک نوجوان سراج الدین ’آئی ایس‘ سے رشتوں کی بدولت گرفتار کرلیا گیا ہے۔ 30سالہ سراج الدین انڈین آئل کارپوریشن کا ریجنل منیجر تھا۔ یہ ایک اعلا سرکاری منصب ہے جس پر کام کرتے ہوئے اس کے دماغ میں اگرآئی ایس کی خون آشام حرکتوں کے لئے نرم گوشہ پیدا ہوا تو یہ حیرت اورافسوس کی بات ہے۔ خفیہ ایجنسیاں کچھ عرصہ سے الیکٹرانک میڈیا پر اس کی دلچسپیوں پر نظر رکھے ہوئے تھیں۔ اس نے کئی وہاٹس ایپ گروپ بنا رکھے تھے اورمختلف طریقوں سے ’آئی ایس ‘کے ترغیبی مواد کی تشہیرکررہا تھا۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس نے اپنی ان سرگرمیوں سے انکار نہیں کیا ہے۔ یہ بات ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ ہمارے نوجوان شاید یہ سمجھتے ہیں کہ بند کمرے میں بیٹھ کر وہ اپنے لیپ ٹاپ اوراسمارٹ فون سے جو پیغام رسانی کرتے ہیں ،اس کا کسی کو پتہ نہیں چلتا۔ یہ بڑی بھاری نادانی ہے۔ یہ سہولتیں مفت میں اس لئے دی جاتی ہیں کہ آپ کے ذہن میں جو چل رہا ہے اس پر نظررکھی جائے۔ یہ ایک بہت بڑا جاسوسی نیٹ ورک ہے جو ہمہ وقت آپ کے ساتھ چلتا ہے۔ اس پر اچھا براجوکچھ کیا جاتاہے،اس کے لئے کسی گواہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ساراڈاٹا مل جاتا ہے۔ تاہم اگرعدالت میں جرم ثابت نہ ہو تب بھی یہ سزا کیا کچھ کم ہے کہ اعلادرجہ کی سرکاری ملازمت جاتی رہی جو مسلم نوجوانوں کو مشکل سے ملتی ہے۔اور نجانے کب جیل سے نجات ملے۔ ہم سرکار کو لعنت ملامت کرتے رہتے ہیں، اپنے نوجوانوں کو بھی سمجھائیں کہ ان کی زراسی لغزش ان کی زندگی تباہ کرسکتی ہے۔
گزشتہ ہفتہ دہلی پولیس کے اسپیشل سیل نے مغربی اترپردیش کے مسلم اکثریتی قصبہ سنبھل کے دوباشندوں آصف اورظفرمسعودکو گرفتارکیا ہے ۔ کہا یہ گیا ہے کہ سنبھل کا ہی ایک شخص ثناء اللہ ہندستان میں القاعدہ کا سرغنہ ہے۔آصف اس کا مدد گار ہے۔ آصف دسویں تک پڑھا ہے اوردہلی میں اے سی کی مرمت کا چھوٹا موٹا کام کرتا تھا ۔ اس کو 14دسمبر کو دہلی کے سیلم پورعلاقے سے گرفتارکیا گیا۔اس کی نشاندہی پر ظفر مسعود کو 18؍دسمبرکو سنبھل سے گرفتار کیا گیا۔ اس پر آصف کی مالی امداد کا الزام ہے۔حالانکہ یہ دونوں اوران کے خاندان مالی اعتبار سے کمزور ہیں۔ان کے لئے اپنا گزارہ ہی مشکل ہے ،وہ دہشت گردی کے لئے فنڈ کیا فراہم کریں گے؟ وہ اتنے سیدھے سادے اور پریشان حال لوگ ہیں کہ ان کی سمجھ میں یہ نہیں آرہا کہ مقدمہ کی پیروی کیسے ہوگی؟ اسپیشل سیل نے سنبھل کے ہی دواورافراد22سالہ سید اخترقاسم اور 41سالہ شرجیل کو بھی دہشت گرد سازش کا شریک بتایا ہے، لیکن وہ فی الحال پاکستان میں ہیں۔ ایک اورشخص عبدالرحمٰن کو کٹک (اڑیسہ) سے گرفتارکیا گیاہے جو کسی مدرسہ میں پڑھاتا ہے۔ 
دہلی پولیس کے اسپیشل سیل کا بیان کس حد تک درست ہے اوراس کو جوسراغ ملے ہیں ،ان میں کتنی سچائی ہے اور وہ عدالت میں کیا ثبوت پیش کرسکیں گے، یہ توآنے والا وقت ہی بتائے گا ، البتہ دہشت گردی کے معاملات میں اس سیل کی گرفتاریوں اور عدالتوں کے ان پر فیصلوں کا ریکارڈ اچھا نہیں ہے۔جامعہ ٹیچرس سالڈیرٹی ایسو سی ایشن نے ایک کتاب "Framed

«
»

کرسمس اور تحفۂ کرسمس اور مسلمان! ایک لمۂ فکریہ۔۔

ربیع الاول کی تقریبات بامقصد اور تعمیری بنایا جائے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے