کیا دونوں صرف کشمیر پر بات نہیں کرسکتے؟

کشمیر کے مسئلہ کے ہندوستان اور پاکستان تو فریق ہیں لیکن جو گذرتی ہے اسے کشمیری ہی جانتے ہیں۔ انگریزوں نے جب ملک چھوڑکر جانا چاہا تو بندر کا کردار ادا کیا۔ انہوں نے جب ہندوستان پر قبضہ کیا تھا تو خون کے دریا بہائے تھے اس وقت کے بادشاہ کے بیٹوں کے سر بادشاہ کو نذر میں پیش کئے تھے دہلی، میرٹھ، مراد آباد، الہ آباد وغیرہ وغیرہ میں ہزاروں ہندوستانی مسلمانوں اور کچھ ہندوؤں کو پھانسی دینے کے لئے پیڑوں میں لٹکا دیا تھا۔ لیکن جب اپنا منھ کالا کرکے جانے لگے تو ہمیں شرم آتی ہے کہ ہمارے بڑوں نے ان سے یہ کیوں نہیں کہا کہ آپ جایئے ہم آپس میں تقسیم کرلیں گے۔ یہ ثبوت ہے اس کا کہ ہم ایک دوسرے پر بھروسہ نہیں کرسکتے۔ ماؤنٹ بیٹن نے ملک کو تو جناح اور پٹیل، نہرو اور لیاقت کی ضد پر تقسیم کردیا لیکن ریاستوں کو یوں ہی چھوڑ دیا تھا۔ جبکہ یہ ضروری تھا کہ نقشہ کو سامنے رکھ کر ریاستیں بھی ملکوں کو دے دی جاتیں۔
ایک اصول بنادیا گیا تھا کہ جس ریاست کی سرحد یں جس ملک سے مل رہی ہوں اور وہاں کے عوام اس ملک کے ساتھ شریک ہونا چاہیں ہوجائیں۔ ہر ریاست اپنے طور پر آزاد چھوڑ دی گئی تھی یہ سردار پٹیل نے کیا تھا کہ کوئی ریاست الگ نہیں رہے گی۔ اس میں حیدر آباد کے ساتھ انگریزوں کا خصوصی معاہدہ تھا اسے بھی وہ اسی طرح چھوڑکر چلے گئے اور سردار پٹیل نے دشمن ملک کی طرح اس پر اس سے دس گنا زیادہ کیا جتنا اندرا گاندھی نے آپریشن بلیو اسٹار میں کیا تھا کہ ایک انتہائی مثالی ریاست ایک منفرد تہذیب ایک قابل رشک حکومت کو سر سے پا تک خون میں نہلا دیا یہ صرف وہ فطرت تھی جو آج بھی قابل نفرت ہے۔
کشمیر کے عوام میں اختلاف تھا مسٹر غلام حسین کشمیری لیڈر پاکستان سے الحاق چاہتے تھے ان کے انتہائی پیارے دوست شیخ عبداللہ آزاد ملک چاہتے تھے۔ کشمیر کا راجہ ہندو تھا اور عوام مسلمان۔ تقسیم کے فارمولے میں راجہ کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ اہم بات یہ ہے کہ شیخ محمد عبداللہ کو کشمیری قوم شیر کشمیر کہتی ہی اس لئے تھی کہ وہ اُن کے لئے ہر وقت راجہ سے لڑنے پر تیار رہتے تھے لیکن خود نیشنلسٹ تھے پاکستان کے مخالف تھے اس لئے راجہ کے ساتھ مل کر نہرو کے پاس آئے کہ کشمیر کو اپنی حفاظت میں لے لو۔ پاکستانی فوجی چلے جائیں گے تو واپس کردینا۔ اس وقت جو معاہدۂ دہلی ہوا تھا وہ ایسی حالت میں ہوا تھا جیسی حالت میں اسلام نے حرام کھانے کی بھی اجازت دی ہے اور جھوٹ بولنے کی بھی۔ شیخ عبداللہ کے سامنے موت منڈلا رہی تھی وہ پاکستان کے ساتھ الحاق نہیں چاہتے تھے اور الحاق ہندوستان سے بھی نہیں وہ ہندوستان کی سرپرستی میں خودمختار ریاست کی طرح رہنا چاہتے تھے۔
دفعہ 370 کی تفصیلات کہ کشمیر کا دستور الگ ہوگا جھنڈا الگ ہوگا اس کا صدر بھی الگ ہوگا اور وزیر اعظم بھی الگ ہوگا۔ اسی لئے تھیں کہ وہ ہندوستان کی حفاظت اور سرپرستی میں ایک خوبصورت جنت نظیر ہوگی لیکن تقسیم کے بعد شری شیاما پرساد مکھرجی جو سرکاری آدمی نہیں تھے مخالفت میں کھڑے ہوگئے کہ ایک ملک میں دو صدر دو وزیر اعظم دو دستور اور دو پرچم نہیں رہیں گے پنڈت نہرو بہادر آدمی نہیں تھے۔ وہ پنت جی سے بھی ڈرے اور بابری مسجد میں سے مورتیاں نہیں نکلوائیں کہ خون خرابہ ہوگا۔ جبکہ دونوں مانتے تھے کہ رات کی تاریکی میں تالا توڑکر مورتیاں مسجد میں رکھی گئی ہیں پنڈت نہرو اگر اندرا کی طرح بہادر ہوتے تو پنت جی سے کہتے کہ آپ سے مورتیاں نہیں ہٹتیں تو آپ ہٹ جایئے میں اسے بھیج رہا ہوں جو ہٹوا سکے۔ وہ پٹیل سے بھی ڈرتے تھے انہوں نے وزیر اعظم ہوتے ہوئے حیدر آباد میں ہزاروں مسلمانوں کو قتل ہونے دیا اور شیاما پرساد مکھرجی سے ڈرکر ہی انہوں نے بدعہدی کی اور اپنے عزیز ترین دوست شیخ عبداللہ کو نہ صرف دھوکہ دیا بلکہ انہیں صرف اس جرم میں بارہ برس جیل میں رکھا کہ وہ ریاست کی خودمختاری کی بات کیوں کرتے تھے؟ جبکہ اگر شیخ عبداللہ اور غلام حسین ایک ہوجاتے تو پورا شہر پاکستان کا حصہ ہوتا۔
آج جب پاکستان کشمیر کی بات کرتا ہے تو یہی تاریخ اس کے سامنے ہوتی ہے اور اب اسے ایک بہت بڑی طاقت چین کی مل گئی ہے۔ وہ چین جس کے سامنے صرف دنیا کی سپرپاور بننا ہے اسے نہ کشمیر کے باغوں میں تفریح کرنا ہے اور نہ ڈل جھیل کے پانی سے کھیلنے کی فرصت۔ پاکستان نے اپنے چھوٹے سے حصہ میں چین کے پاؤں جما ہی دیئے ہیں اور وہ جو کچھ چاہتا ہے اسے مل جائے گا۔
ہندوستان کو دو باتوں میں سے ایک اپنانی چاہئے کہ یا تو وہ اگر قائل ہوجائے تو کشمیر پاکستان کو دینے کے لئے تیار ہوجائے جیسے معاہدۂ دہلی کے بعد کم از کم 25 مرتبہ پنڈت نہرو نے اخباروں میں ریڈیو پر جلسوں میں اقوام متحدہ میں یہ کہا تھا کہ یہ عارضی انتظام ہے۔ اس کے لئے اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب رائے کرایا جائے گا جس میں تین سوال ہوں گے کہ کیا پسند ہے؟ ۱۔ ہندوستان۔ ۲۔ پاکستان۔ ۳۔ آزاد ریاست۔ اگر یہ نہیں تو کسی طرح کے مذاکرات کی بات نہ کی جائے بس اتنے ہی تعلقات رکھے جائیں جیسے تاج پوشی میں بلا لیا، شال دے دی، ساڑی قبول کرلی، آموں کے موسم میں آموں کا تحفہ۔ رمضان اور عید کی مبارکباد جواب میں ہولی اور دیوالی کی مبارکباد اور جب کہیں سامنا ہوجائے دو قدم مسکراکر اور ہاتھ بڑھاکر مل لینا۔
ہندوستان اور پاکستان دوست کبھی نہیں ہوسکتے۔ ملک کی تقسیم کی تلخی کو نہ وہ بھولے ہیں اور نہ ہم بھولے ہیں۔ ہندوستان کا عقیدہ تھا کہ ہم ایک قوم ہیں جناح صاحب کہتے تھے کہ ہندو مسلمان دو قومیں ہیں۔ پہلا الیکشن اس پر ہی ہوا تھا اور مسلمان دو قوموں پر اَڑگئے اور آخر میں سردار پٹیل نے بھی تسلیم کرلیا کہ ہم ایک نہیں دو قومیں ہیں۔ اور پھر اس کی بنیاد پر ہی ایک ملک کے دو ملک ہوگئے۔
قرار داد پاکستان میں صراحت سے کہا گیا تھا کہ ہندوؤں سے ہماری ہر چیز الگ ہے۔ ہم ایک الگ قوم ہیں۔ ہماری تہذیب ہماری ثقافت ہمارے نام ہماری قدریں ہمارے قوانین ہمارے رسم و رواج ہمارے احساسات ہماری امنگیں ہندو قوم سے بالکل الگ ہیں۔ اسی بنیاد پر جناح نے شمالی مشرقی حصہ اور مغربی ہندوستان جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے اپنے لئے مانگا تھا۔ پاکستان والوں کے نزدیک کشمیر بھی مغربی حصہ میں شامل تھا۔ اس کے بعد یہ توقع رکھنا کہ ہندو مسلم بھائی بھائی کے نعرے پھر لگنے لگیں گے اور راستے کی رکاوٹیں دور ہوجائیں گی ایک خواب ہے۔ تاشقند میں ایوب خاں اور شاستری جی کے درمیان مذاکرات کے بعد نہ جانے کتنے مذاکرات ہوچکے ہیں اور جتنا وقت گذر رہا ہے ہندوستان بھی طاقتور ہوتا جارہا ہے اور پاکستان بھی عالم اسلام کے تعاون اور چین کی سرپرستی سے ایٹم بموں کو گودوں میں رکھے بیٹھے ہیں اور دونوں میں سے کوئی تیار نہیں کہ اپنے کو چھوٹا سمجھے اس لئے کہ دونوں کو یقین ہے کہ اگر کچھ کردیں گے تو دونوں کو زخم چاٹتے چاٹتے صدی گذر جائے گی۔ اس لئے بس تعلقات جتنے ہیں اتنے پر ہی قناعت کرنا چاہئے۔ ضرورت نہیں کہ ہر پڑوسی سر جھکاکر سلام کرے۔

«
»

جہیز کے خلاف ذہنی بیداری مہم نہایت ضروری

معتبرصحافی عارف عزیز سے ’’اُردوہلچل ‘‘ کے لئے جاوید یزدانی کی بات چیت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے