اپنی ملت ، برادرانِ وطن اور حکومت سے کچھ صاف صاف باتیں

اس موقع پر یہ ضرور یاد رکھئے گاکہ اگرچہ یہ صحیح ہے کہ تو حید کی یہ تعلیم دنیا میں پہلی مرتبہ قرآن اور حضرت محمدﷺ نے نہیں دی تھی ، اللہ کے تمام پیغمبر اور سب کتابوں میں اور صحیفوں نے اپنی اپنی قوموں کو ہمیشہ یہی تعلیم دی تھی ، تاہم یہ بھی سچ ہے کہ آخری آسمانی کتاب قرآن اور آخری رسول محمدﷺ نے توحید کے مسئلہ کو جتنا صاف اور واضح کیا ، اور جس طرح ان تمام دروازوں اور کھڑکیوں کو بند کیا جن کے ذریعہ مسلمانوں میں شرک سرایت کرسکتا تھا وہ اپنی مثال آپ ہی ہے ۔ اس کی چند مثالیں یہا ں پیش کی جاتی ہیں ۔
(۱) آپ نے سنا یا پڑھا ہوگا کہ جس دن رسول اللہ ﷺ کے ایک صاحبزادے کاکم سنی میں انتقال ہوا، اسی دن اتفاق سے سورج کو گہن لگا ۔ لوگوں میں ، سماج میں پھیلے ہوئے توہم پرستانہ خیال کے مطابق یہ چرچا ہونے لگا کہ سورج کو گرہن محمد کے گھر کے حادثے کی وجہ سے لگاہے ۔ آپ نے فوراً اس خیال کی صاف لفظوں میں تردید کرتے ہوئے واضح کیا کہ سورج چاند یہ سب اللہ کی نشانیاں اور مخلوقات ہیں ، کسی کی زندگی اور موت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ۔۔۔
(۲)نماز جنازہ میں، جس میں امام کے سامنے جنازہ رکھا ہوتا ہے ،رکوع اور سجدہ جو نہیں رکھا گیا ، اس کی حکمت بھی یہی بتائی جاتی ہے کہ کوئی انجان شخص نمازیوں کو جنازے کے سامنے رکوع سجدہ کرتے ہوئے دیکھ کر یہ سمجھ سکتا ہے کہ یہ لوگ اس جنازے کے سامنے جھک رہے ہیں ، صرف اس لئے کہ کسی کو غلط فہمی نہ ہو نماز جنازہ سے رکوع سجدے کو نکال دیا گیا۔ حالانکہ یہ بھی سوچا جا سکتا تھا کہ مسلمان رکوع اور سجدے میں اللہ ہی کی نیت کرے گا ۔مگر نہیں ! توحید اور شرک کا مسئلہ اتنا اہم اور سنگین ہے کہ اس میں ذرا سا بھی خطرہ مول لینے کی گنجائش نہیں ہے ، اور دوسروں کو بھی غلط فہمی سے بچانا ضروری ہے۔
(۳) اس کی ایک اور واضح مثال ، جس سے آج کل جاری بحث میں بھی واضح رہنمائی مل سکتی وہ یہ ہے کہ حضرت محمد ﷺ نے بڑی صراحت اور سختی کے ساتھ باربار اس بات کی ہدایت دی کہ سورج نکلنے اور ڈوبنے کے وقت کوئی نماز نہ پڑھی جائے۔ بلکہ اس وقت کسی میت کو بھی دفن نہ کیا جائے ۔
(صحیح بخاری، حدیث۵۵۸،۵۶،. سنن نسائی: ۱/۲۷۷)
اس ہدایت کی حکمت یہ بتائی گئی کہ دنیا کی کئی قومیں جو سورج کو کسی نہ کسی درجہ میں خدا مانتی ہیں ، وہ خاص طور پر انہی اوقات میں سورج کی پوجا( سوریہ نمسکار) کرتی ہیں ۔ اس لئے مسلمانوں کو یہ ہدایت دی گئی کہ وہ اللہ کی عبادت بھی ان اوقات میں نہ کریں۔
غور کیجئے گا کہ مسلمان جو نماز پڑھنے کھڑا ہوتا ہے اس کے ذہن کے کسی گوشے میں بھی سورج چاند یا اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت کا خیال بھی نہیں ہوتا ۔ لیکن پھر آخر اتنی سختی کے ساتھ یہ ہدایت کیوں دی گئی ؟ یہی بات تو یہاں سمجھانا مقصود ہے ۔
اصل بات یہ ہے کہ حضرت محمدﷺ نے اپنی امت کو شرک ہی سے نہیں ، اس کے شائبہ سے بھی بچانا چاہا ہے ۔ بلکہ اس پہلو پہ بھی نظر رکھی ہے کہ ان کی کسی ادا یا عمل سے کوئی یہ نہ سمجھنے لگے کہ یہ لوگ بھی اللہ کے علاوہ کسی اور کی مثلا سورج کی پوجا کر رہے ہیں ، یا اسے نمسکار کر رہے ہیں ۔
مسلک اور فرقے کی کسی ادنیٰ سی تفریق کے بغیر میں اپنے تمام مسلماں بھائیوں اور بہنوں سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ نے کلمہ کے دوسرے جز کے ذریعہ اس بات کا عہد کیا ہے کہ آپ حضرت محمدﷺ کا ہر حکم مانیں گے اور کسی قیمت پر ان کی کسی ہدایت کی نافرمانی نہیں کریں گے ۔
اب آپ خود غور کریں ،کہ آپ کا سابقہ کچھ ایسے لوگوں سے ہے جو پچھلے سو سالوں سے اس کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ وہ آپ سے آپ کا دین آپ کی شریعت اورآپ کی تہذیب چھین لیں ، وہ آپ کے بچوں کو اسکولوں اور کالجوں میں صریح ہندوانہ عقائد اور برہمنی تہذیب سے مانوس کررہے ہیں ۔بلکہ ان کی ترویج کر رہے ہیں۔ آپ کو جو بچے اور بچیاں اعلیٰ تعلیم کے ساتھ اسلامی تہذیب اور اس کے شعائر کا احترام واہتمام کرتے ہیں ، انہیں دہشت گرد قرار دے کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل رہے ہیں ۔ یاکم از کم انہیں خوف زدہ کرنے کے لئے طرح طرح کی تدبیریں کر رہے ہیں۔ آپ کے اپنے قائم کئے ہوئے کالجوں میں نماز پڑھنے سے روک رہے ہیں ، آپ کو باربار ملک بدر کرنے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جو سب دیش واسیوں ، خصوصا مسلمانوں سے یوگا کرانے کے لئے بے چین و مضطرب نظر آرہے ہیں، کیا آپ یہ سوچ سکتے ہیں کہ ان کا یہ اضطراب اوریہ بے چینی صرف اس لئے ہے کہ انہیں آپ کی تندرستی کی بے حد فکر ہے؟؟؟
بہر حال کلمہ طیبہ کا اور آپ کے بنیادی عقیدۂ توحید ورسالت کا یہ تقاضہ ہے کہ آپ ایسے عمل میں ہر گز شریک نہ ہوں جس سے ان لوگوں کی ہمت افزائی ہو جو آپ سے آپ کے دین اور آپ کی تہذیب کو چھین لینا چاہتے ہیں ۔ اور اس موقع پر صاف صاف اعلان کردیں کہ ہم نے اس ملک میں اپنے ایمان اور اسلام پر استقامت کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کیا ہے ، اور دنیا کی کوئی طاقت ہم سے ہمارا ایمان نہیں چھین سکتی ۔۔۔۔۔۔کہیں ایسا نہ ہوکہ ہم میں سے ایک ایک کے ایمان کا امتحان لینے کا خداوندی فیصلہ ہوا ہو؟ اور فہرست تیار ہورہی ہو؟ رمضان کے بابرکت مہینہ میں جن لوگوں کا نام منافقوں اور شرک وکفر سے سمجھوتہ کرنے والوں میں لکھا جائے گا۔ اللہ! ہم میں سے کسی کو ان میں شامل نہ فرمائیے گا!
3
کہا جا رہا ہے کہ یوگا تو صرف ایک ورزش ہے اس کا کسی عقیدے ، دھرم یا تہذیب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ افسوس ہے کہ اس قدر جھوٹی بات بڑی ڈھٹائی اور بے شرمی سے وہ لوگ بھی کہہ رہے ہیں جو اچھی طرح جانتے ہیں کہ یوگا خالصۃ آرین قوم کے عقیدوں اور برہمنی رسومِ عبادت پر مبنی ایک عبادت ہے (یہ الگ بات ہے کہ کسی بھی طریقۂ عبادت کے کچھ جسمانی فوائد بھی ہو سکتے ہیں) اور یوگا اور برہمنی کلچر کے باہمی رشتے ہی کی وجہ سے کچھ لوگ اس کے لئے اس قدر پر جوش نظر آرہے ہیں ۔ میرے سامنے اس وقت اس موضوع پر مستند کتابیں ہیں ،
مثلاً
1. SURYA NAMASKAR

«
»

اے خانہ براندازِ چمن کچھ تو ادھر بھی

مودی کا اسرائیل دورہ ۔قومی مفاد میں یا نظریاتی؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے