آزادی کے پچہتر سال

ساجد حسین ندوی  (نیوکالج،چنئی)

ہمارا ملک ہندوستان 15اگست 1947کو انگریزوں کے چنگل سے آزاد ہوا اور آج ہندوستان کو آزاد ہوئے تقریبا پچہتر سال گذرچکے ہیں۔ انگریز اس ملک میں تاجر بن کر آئے تھے، اپنی تجارت کو فروغ دیتے دیتے اس ملک پر قابض ہو گئے اور یہاں کے باشندوں کواپنا غلام اور محکوم بنالیا۔ 
غوری سلطنت سے لیکر مغلیہ سلطنت تک اس ملک میں مسلمانوں کی حکمرانی رہی۔ گویا 1193سے لیکر 1837تک مسلمانوں نے اس ملک کی باگ ڈور سنبھالی اور ترقی کے بام عروج تک پہونچایا۔ اسی دور میں اس ملک کو سونے کی چڑیا سے تعبیر کیاجاتا تھا۔
    انگریز تاجر بن کر اس ملک میں آئے اوراپنی تجارت کو مضبوط ومستحکم کرنے کے لیے ایسٹ انڈیا کمپنی کی بنیاد رکھی اوراس پر قابض ہوکر1858سے لیکر 1947 تک اس ملک میں حکمرانی کرتے رہے۔ اس دوران انہوں نے یہاں کے باشندوں پر بڑی ظلم وزیادتی کی۔ یہاں کے علماء اور عوام نے انگریزوں کو ملک سے باہرنکالنے کی انتھک کوشش کی، اور 1857کی جنگ آزادی میں اپنی جانوں کو قربان کیا۔ لیکن افسوس اپنوں کی غداری کی وجہ سے وہ کامیاب نہ ہوسکے۔ اس کے بعد منظم طریقہ پر تحریکیں چلائیں گئیں، حضرت مولانا قاسم نانوتوی علیہ الرحمہ نے دارالعلوم دیوبند کی بنیاد رکھی اور وہاں سے آزادی کے متوالوں کو تیار کیا۔شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن دیوبندی رحمۃ اللہ علیہ نے عالمی پیمانہ پر انگریزوں کے خلاف یلغار کی اور ان کو وطن سے بے دخل کرنے کے لئے عالمی تحریک، تحریک ریشمی رومال کا آغاز کیا۔وہ قومی یکجہتی اور پر امن بقائے باہم کے علم بردار تھے، وہ یہاں کی مشترکہ تہذیبی قدروں پر یقین رکھتے تھے اور ایک عظیم متحدہ ہندوستان کی تشکیل دینا چاہتے تھے۔ جس میں ہندو مسلم دونوں پیار و محبت کے ساتھ اپنے اپنے مذہب پر عمل کرنے میں آزاد ہوں اور مشترکہ قومی فرائض میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ چلیں۔ انہوں نے 1919میں جمعیۃ علماء ہند کو آگے بڑھانے میں اہم رول ادا کیا، جس نے تحریک آزادی میں سرگرم حصہ لیا۔ 
مولانا محمد علی جوہر ؒ نے جلیاں والا باغ کے عظیم سانحہ کے بعد تحریک خلافت کی بنیاد رکھی اور ہندومسلم کو ایک پلیٹ میں فارم میں جمع کیا۔ اس تحریک کو لیکر مولانا محمد علی جوہر اورگاندھی جی و دیگر لیڈران نے مسلمانوں کے ساتھ ملکر ملک کے خطہ خطہ کا دورہ کیا آزادی کی خاطر عوام کو متحد ہونے کی دعوت دی، لہذا اس تحریک کے نتیجہ میں ہندو مسلم اتحاد ہوااور اس اتحاد کے نتیجہ میں یہاں کے باشندوں کو انگریزوں کے چنگل سے آزادی نصیب ہوئی اور 15/ اگست 1947کو ہمارا ملک ہندوستان انگریزوں سے آزاد ہوا۔
    یہ ملک انگریزوں سے آزاد ہوا، آزاد ہوتے ہی ملک کو تقسیم کرنے کی باتیں کی جانے لگیں۔ بالا ٓخر اپنوں اور غیروں کے تعاون سے ملک کو دوحصوں میں تقسیم کردیا گیا۔ ایک کا نام پاکستان رکھا گیا جس کی قیادت محمدعلی جناح نے کی اور دوسرے کانام ہندوستان رکھا گیا جس کی قیادت مہاتما گاندھی نے کی۔ فرقہ پرست عناصر نے دونوں ملکوں کو مذہب کا نام دیکر الگ کرکے ہندومسلم اتحاد کو پارہ پارہ کردیا۔ پھر جو ہوا تاریخ کے صفحات میں موجود ہے۔ تقسیم کے نتیجہ میں لوگ مارے گئے، ٹرینیں جلائی گئیں، ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر ہجرت کرنے والو ں کو نشانہ بناکر ان کے مال ودولت کو لوٹا گیا،عورتوں کی عزتیں نیلام کی گئیں، بچوں کو یتیم اور عورتوں کو بیوہ کردیاگیا۔ گویا اس ملک کا نقشہ ہی بدل گیااور لوگ ہندوستان اور پاکستان کے نام پر آپس میں ہی ایک دوسرے کا سر کاٹنے لگے۔
    برطانوی حکومت سے آزاد ی ملنے کے بعد ہندوستان کاآئین اور دستور جمہوری بنا،تاکہ ہرایک دین و مذہب پر عمل کرنے میں آزاد ہو، کیونکہ دین ومذہب کی آزادی انسان کے ان بنیادی حقوق میں سے ایک ہے جسے انسان کا فطری خاصہ ماناجاتاہے، یہی وجہ ہے کہ حکومت نے ہرمذہب کے اس فطری حق کاپاس و لحاظ رکھا، خود ہمارے ملک ہندوستان کی قدیم تاریخ میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔”انگریزی راج“ کے مصنف پنڈت سندر لال الہ آبادی نے عہد مغلیہ پر گفتگو کرتے ہوئے تحریر فرمایا۔
    ”اکبر، جہانگیر، شاہجہاں، اور ان کے بعد اورنگ زیب کے تمام جانشینوں کے زمانہ میں ہندومسلم یکساں رہتے تھے، دونوں مذاہب کی یکساں توقیر کی جاتی تھی، اور مذہب کے لیے کسی کے ساتھ جانب داری نہ کی جاتی تھی“۔ (روشن مستقبل،ص/۴۲)۔
انگریزوں کے چنگل سے ہندوستان کو آزاد ہوئے پچھتر سال ہونے کو ہے، لیکن ان پچہتر سالوں میں ہم نے کیا کھویا کیا پایا؟ اس پر بھی غور وخوض کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے ملک ہندوستان کی یہ خوبصورتی ہے کہ یہاں ہر قوم،ہر نسل اور ہر زبان کے افراد آپس مل جل کر بھائی چارے کے ساتھ ایک زمانے سے رہتے چلے آرہے ہیں، گنگاجمنی تہذیب اور سیکولرازم اس ملک کی علامت ہے۔یہاں کا آئین اور دستور جمہوری ہے جس میں ہر ایک قوم کو برابری حق دیا گیا ہے، ہر مذہب اپنی شریعت مطابق زندگی گذارنے آزادی یہاں کے دستور میں شامل ہے۔سب کا ساتھ سب کا وکاس اس کی روح ہے۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے بزرگوں نیاس ملک کے جو خواب دیکھے تھے آج وہ سارے خواب چکنا چور ہوگئے ہیں، مہاتما گاندھی کا نظریہ ''ہندومسلم اتحاد'' کو ختم کردیا گیا ہے۔ 
 آج ملک بھر میں ''اکھنڈ بھارت'' اور ''ہندو راشٹریہ ''یا ہندوتوا جیسی آوازیں بلند کی جارہی ہیں، اقلیتوں پر ظلم و ستم کئے جارہے ہیں، ان کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا جارہاہے،مذہبی امور پر پابندیوں کو مطالبہ کیا جارہاہے،مسلم تنظیموں کو بند کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ سب کچھ اس آزاد بھارت میں ہورہاہے جس کا دستور جمہوری ہے۔
اس پچھترویں جشن آزادی کے موقع پر پورے ملک میں ''آزادی کا امرت مہوتسو'' منایا جارہاہے۔ جو قابل تعریف ہے، لیکن کاش یہ جشن اس معنی میں ہوتا، کہ اس ملک سے مہنگائی ختم ہوجاتی، غربت کا نشان مٹ جاتا، آپسی بھائی چارہ قائم ہوتا، تعلیم یافتہ لوگوں کو روزگار ملتا اور'' سب کا ساتھ سب کا وکاس'' پر صحیح معنوں میں عمل ہوتا تو یہ خوشی دوبالاہوجاتی اور ہم فخر سے کہتے کہ ہم اس آزاد بھارت میں آزادنہ طور پر پرسکون زندگی گذار رہے ہیں۔ کا ش وہ دن لوٹ کر آجائیں جسے پھر سونے کی چڑیا کہا جائے اور ہمیں ہندوستانی ہونے پر فخر ہو۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 

14؍ اگست 2022

«
»

مولانا سیّد محمود حسنی رحمة الله عليه

یوم عاشوراء کی اہمیت و فضیلت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے