سراج الدین ندویؔ
چیرمین ملت اکیڈمی۔بجنور
رات کی تاریکی جب بڑھ جاتی ہے۔جب اندھیرا زیادہ گہرا ہوجاتا ہے۔تب سحر قریب ہوتی ہے۔جب مشکلات میں اضافہ ہوتا ہے تب آسانیاں میسر آتی ہیں۔جب حالات پر آشوب ہوتے ہیں تب حالات خوش گوار ہوتے ہیں۔ہر اندھیرے کے بعد اجالا ہے۔اس بات کو میں نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ یہ بات قرآن مجید میں کہی گئی ہے۔ان مع العسر یسرا فان مع الیسر یسرا (بے شک مشکل کے بعد آسانی ہے،بے شک مشکل کے بعد آسانی ہے)یہ بات تکرار کے ساتھ اس لیے کہی گئی تاکہ یقین کی کیفیت مشاہدے کی حد تک پہنچ جائے۔اس لیے جب بھی حالات بہت پر خطر ہوں یا حالات ہمارے لیے تنگ کردیے جائیں،ہمارا جینا دوبھر کردیا جائے،ہم پریشان حال ہوں،مصائب و مشکلات ہمیں گھیر لیں،آزمائشیں ہمیں اپنے حصار میں لے لیں تو ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہئے۔بلکہ عزم و ثبات کے ساتھ آگے بڑھتے رہناچاہئے۔ استقلال اور ہمت کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنا چاہئے اور یہ یقین رکھنا چاہئے کہ کامیابی ہمارا مقدر ہے اور یہ جوگھٹا ٹوپ حالات ہیں جو بڑے خطرات کی گویا علامت ہیں یہی گھٹا ٹوپ حالات انشاء اللہ بہت تابناک اور روشن ہوں گے اور جلد ہی ہمیں منزل مقصود مل جائے گی۔
ذرا تصور کیجیے ان حالات کا جب اللہ کے رسول ﷺ ہجرت فرمارہے تھے،حالات اس سے زیادہ اورکیا برے ہوں گے جب ایک شخص انتہائی بے بسی کے عالم میں اپنا گھر بار، اعزہ و اقارب اور وطن چھوڑنے پر مجبور ہوجائے۔اللہ کے نبی ؐ اپنے دوست حضرت ابوبکر ؓ کے ساتھ رات کی تاریکی میں مکہ چھوڑ دیتے ہیں۔ابو جہل نے اعلان کرتا ہے کہ جو کوئی بھی ان دونوں کو یا کسی ایک کو زندہ یا مردہ گرفتار کرکے لائے گا میں اسے سو سرخ اونٹ دوں گا،اس وقت یہ انعام بھارت رتن سے بھی زیادہ اہمیت رکھتا تھا۔بہت سے بد بختوں نے آپ کا سراغ لگانا چاہا مگر کامیاب نہیں ہوئے البتہ سراقہ بن جعثم نے آپ ؐ کو جالیا۔اہل عرب اپنے اہم کام فال نکال کر کرتے تھے۔ اس نے فال نکالی کہ ہمیں تعاقب کرنا چاہئے یا نہیں تو جواب آیا کہ تعاقب نہیں کرنا چاہئے۔سراقہ نے فال کے باجود اپنا گھوڑا تیزی سے دوڑایا مگر اس کا گھوڑا اس بار بھی زمین میں ٹھوکر کھا کر گر گیا۔اس نے پھر فال نکالی اس بار بھی یہی جواب آیا کہ تعاقب نہ کیا جائے لیکن سو سرخ اونٹ کے لالچ نے اس کو پھر آمادہ کیا کہ پیچھا کیا جائے اور جیسے ہی اس نے گھوڑے کو ایڑ لگائی تو گھوڑا ٹھوکر کھا کر پھرگرگیا۔تیسری بار تو اس کا گھوڑا گھٹنوں تک زمین میں دھنس گیا۔اب اسے یقین ہوگیا کہ محمد ﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں۔ اس نے آپ ؐسے امان چاہی اور کہا کہ حضورؐ آپ مجھے لکھ کر دیجیے کہ آپ جب فتح حاصل کرلیں گے تو مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے،آپؐ نے فرمایا:”اے سراقہ میں تمہارے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن دیکھ رہا ہوں“اللہ کے رسول کے اس جملے سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ ؐ کو اپنی کامیابی کا کس قدر پختہ یقین تھا،یعنی وہ یقین کی آنکھیں ہی تھیں جو سراقہ کے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن دیکھ رہی تھیں،اس لیے ہمیں بھی اپنی کامیابی کا اسی طرح یقین ہونا چاہئے۔ظلم کی عمر بہت کم ہوتی ہے وہ صابن کے سے جھاگ کی طرح ہوتا ہے اگر اس کے مقابلے پر یقین محکم کے حاملین عمل پیہم کے ساتھ آگے بڑھیں گے تو منزل ان کے قدموں کو ضرور بوسہ دے گی۔
مکہ میں صحابہ کرامؓ کا ستایاجانا کس کو نہیں معلوم،کونسی اذیت تھی جو انھوں نے برداشت نہیں کی،کون سے ستم کے پہاڑ تھے جو ان پر نہیں توڑے گئے،کسی کو چٹائی میں لپیٹ کر دھواں دیا جارہا ہے،کسی کوتپتے ریت پر گھسیٹا جارہا ہے اور کسی کو انگاروں پر رکھا جارہا ہے،ان حالات میں ایک مرتبہ اللہ کے رسول ﷺ نے کلید بردار کعبہ طلیحہ سے چابی مانگی،اس نے چابی دینے سے انکار کردیا آپ ؐنے فرمایا:”ایک دن ایسا آئے گاجب یہ چابی میرے ہاتھ میں ہوگی اور میں جسے چاہوں گا دوں گا“ اورتاریخ کی آنکھوں نے دیکھا وہ دن فتح مکہ کا دن تھا جب آپ ؐ کے ہاتھ میں چابی تھی اور طلیحہ بے بسی کی تصویر بنے کھڑے تھے،یہ آپ ؐ کا بلند کردارتھا کہ آپ ؐ نے چابیاں انھیں دیتے ہوئے کہا تھا”تم یہ چابی اپنے پاس رکھو،اب یہ چابی تم سے کوئی نہیں ؎ لے سکتا“،چنانچہ وہ چابی آج تک انھیں کے خاندان کے پاس ہے۔
آپ اندازہ لگائیے کہ غزوہ خندق کے موقع پر جب کہ عرب کے قبائل نے یکجا ہوکر مدینے پر چڑھائی کرنے کی ٹھانی تھی اور یہ چاہا تھا کہ اسلام اور مسلمانوں کا خاتمہ کردیں۔آپ ؐ نے جنگی حکمت عملی کے تحت مدینے کے باہر خندق کھدوائی تھی۔اس درمیان ایک چٹان تھی جو ٹوٹنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔صحابہ ؓ نے آپ کو بتا یا،آپ نے کدال اپنے ہاتھ میں لی اور زور سے چٹان پر ماری تو چنگاری پیدا ہوئی۔آپ ؐ نے فرمایا یمن فتح ہوگیا،دوسری کدال ماری تو فرمایا شام فتح ہوگیا،تیسری کدال پر آپؐ نے فرمایا کہ ایران فتح ہوگیا۔آپ اندازہ لگائیے کہ اپنے مقصد کی کامیابی کا کس قدر پختہ یقین تھا آپ کو۔ایک طرف سارا عرب آپ کو مٹانے کے در پے تھا اوردوسری طرف آپؐ اپنی چھوٹی سی بستی کے دفاع کے لیے خندق کھودنے پر مجبور تھے۔مگر ان پر آشوب حالات میں بھی آپ دنیا کی سپر پاورز کو فتح کرنے کا نظارہ دیکھ رہے تھے۔
سیرت کے یہ واقعات ہمیں بتاتے ہیں کہ حالات کیسے ہی خراب ہوں ہمیں مایوس اور بد دل نہیں ہونا چاہئے۔حالات کبھی ایک جیسے نہیں رہتے وہ بدلتے رہتے ہیں قرآن میں فرمایا گیا: تلک الایام نداولہا بین الناس (ہم زمانے کو لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں)جس طرح رہٹ میں پانی کے ڈول یک بعد دیگرے اوپر نیچے آتے رہتے ہیں ٹھیک اسی طرح حالات تہہ و بالا ہوتے رہتے ہیں۔عروج و زوال قوموں کی تاریخ کا حصہ ہے۔اللہ کبھی کسی قوم کو عروج دیتا اور کبھی کسی قوم کو زوال دیتا ہے۔ہر عروج کے بعد زوال ہے اور ہر زوال کے بعد عروج ہے۔آج ملت اسلامیہ زوال کا شکار ہے۔ ناگفتہ بہ حالات کا سامنا کررہی ہے مگر ہمیں اس امید کے ساتھ آگے بڑھنا ہے کہ ایک دن کامیابی ضرور ملے گی اور حالات یقینی طور پر بدلیں گے۔اس یقین اور رجائیت پسندی کے ساتھ ایک مومن کو اپنے مستقبل کو سنوارنے کے لیے آگے بڑھنا چاہئے۔انتم الاعلون ان کنتم مومنین(تم ہی سربلند رہوگے اگر تم ایمان کے تقاضے پورے کرتے ہو)کی آسمانی بشارت ہمارے ساتھ ہے۔یعنی اللہ کہتا ہے کہ ہمتیں پست نہ کرلینا،مایوس نہ ہوجانا،امید نہ چھوڑ دینا اگر تم ایمان کے تقاضے پورے کروگے تو غلبہ تمہاراہی ا مقدر ہے۔ یہ بات بھی یاد رکھنا چاہئے کہ حالات خود نہیں بدلتے، بلکہ انھیں بدلا جاتا ہے۔ا س لیے اپنے زوال کو عروج میں بدلنے کے لیے کوششیں کرنا ہیں، زوال کی دل دل سے نکلنے کے لیے تدابیر اختیار کرنا ہے۔اس لیے کہ قرآن میں کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی بھی قوم کے حالات اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے حالات بدلنے کی خود کوشش نہیں کرتی۔آج ملک کے حالات خراب ہیں،آج ہم مغلوب اور محکوم ہیں لیکن یہ حالات ایک دن ضرور تبدیل ہوں گے۔انشا ء اللہ
جواب دیں