کالج کی یادیں : مرحوم عبد الرزاق رکن الدین کے سلسلے میں

ارشد حسن کاڑلی
سعودی عربیہ

اپنے کالج کے دور کے ساتھی عبد الرزاق رکن الدین صاحب نے ایک طویل عرصہ صبر و تحمل کے ساتھ بیماری کا مقابلہ کرنے کے بعد اتوار کی ابتدائی ساعات میں داعی اجل کو لبیک کہا اور اس دار الفانی سے کوچ کر گئے۔ ان کا مسکراتا چہرہ نگاہوں میں ہے۔ کچھ لکھنے کا ارادہ تو نہیں تھا بس بعض منتشر خیالات کو زیب قرطاس کر رہا ہوں۔
اسی کی دھائی میں بھٹکل میں مسلمانوں کی کثیر تعداد کے باوجود تعلیمی میدان میں ان کی حصہ داری نہیں کے برابر تھی ۔ آج کا دور پروفیشنل اورٹیکنیکل تعلیم کا ہے اور اس کا رشتہ فوری طور پر روزگار حاصل ہونے سے منسلک بھی ہے ۔ دوسرے علاقوں میں مسلمانوں کی تعلیم سے دوری کی ایک سب سےبڑی وجہ پیشہ وارانہ کالجوں کی عدم سہولت ہے جب کے بھٹکل میں انجینیرنگ کالج ہونے کے باوجود ہمارے طلباء اس سے خاطر خواہ استفادہ نہیں کر رہے تھے۔ بس ہم چند افراد کی ایک چھوٹی سی جماعت تھی۔ جس میں ایک فرد عبد الرزاق رکن الدین بھی تھے جو ہم سے رخصت ہو گئے۔ اس دور میں ان کے ساتھ گزارے ہوئے بعض لمحات آنکھوں کے سامنے آگئے۔
ہماری انجینئرنگ کی طالب علمی کے دور میں ہمارے شہر کے بڑے بزرگ اپنے بچپن اور نوجوانی کی باتیں کرتے ہوئے افسُردہ ہو جاتے تو ہم حیران ہو جاتے تھے کہ اخر وہ کس چیز کی کمی محسوس کر رہے ہیں۔ یہاں ہم کو تو بڑے ہونے کی عجلت تھی تب بڑے سمجھاتے تھے کہ جب بڑے ہو گے تو تمہیں قلق ہوگا۔ کیا پتا تھا کہ جوں جوں بڑے ہوگے تجربہ بڑھے گا اور خیالات میں پُختگی آتی جائے گی اور یہ قلق بھی بڑھتا جائے گا۔ بڑے ہو کر معلوم ہو گا کہ زندگی بڑی مُشکل ہے۔ کامیابی کے لئے مرتبہ، اور مرتبے کے لئے اعلیٰ تعلیم درکار ہے۔

ان باتوں کو پینتیس سال گُزر گئے ہیں اور اب تو کسی وجہ سے مُجھے جب پرانی یادیں آتی ہیں تو میں ماضی کے جھروکوں میں جھانکتا ہوں۔
عبد الرزاق رکن الدین کے ساتھ تعلقات میرے اس وقت سے ہیں جب میں نے انجمن انجینئرنگ کالج میں داخلہ لیا۔ اس وقت انجینئرنگ کالج میں مقامی طلباء کی تعداد بہت کم تھی اس لئے بیچ یا برانچ کی قید نہیں تھی تمام طلباء میں بہت ہم اہنگی تھی۔ اکثر طلباء پیدل یا بائیسکل پر کالج آتے تھے۔ چند ایک کے پاس اپنی اسکوٹر یا موٹر سائیکل تھی۔
عبد الرزاق کا قیام علوہ مسجد کے مقابل واقع رکن الدین خاندان کے تاریخی گھر میں تھا۔ جہاں ہمارا کبھی کبھار آنا جانا لگا رہتا تھا۔ اس دوران ان کے والد صاحب نے آزاد نگر میں مکان کی تعمیر کی۔
آزاد نگر میں منتقل ہونے کے بعد وہاں کے اسپورٹس کلب انفا کے قیام میں ان کا قابل ذکر کردار تھا۔ اس کے بانی جنرل سکریٹری کی حیثیت سے محلے کے سڑکوں پر بارش کے پانی کی نکاسی کے لئے نالیاں بنا کر اس وقت کا  محلہ کا ایک بڑا مسئلہ حل کرنے کی حتی الامکان سعی کی۔
اگر چہ ہم سب نے انجینئرنگ کی تکمیل کا مصمم ارادہ کیا ہوا تھا مگر کیا کریں ہمارا کالج کا دور بھی لا ابالی پن کا تھا۔ اسپورٹس میں نہ مجھے دلچسپی تھی اور نہ ہی میرے کسی ساتھی کو دلچسپی تھی۔ البتہ دوستوں کے ساتھ عصر کے بعد ساحل یا پہاڑوں پر تفریح  امتحانات کے ایام میں بھی بند نہیں ہوتی تھی۔
راقم السطور کو کنڑ زبان پر عبور تو نہیں تھا البتہ اس میں کوئ دو رائے نہیں ہے کے اپنے ہم عصر دوستوں میں سب سے روانی سے گفتگو میں ہی کر سکتا تھا۔ اندھوں میں کانا راجا کے مصداق اس قابلیت کی وجہ سے کرناٹک یونیورسٹی دھارواڑ میں اگر دوستوں کو کوئ مسئلہ درپیش ہو تو اس کے لئے ناچیز کو اپنے خرچ پر یونیورسٹی لے جاتے۔ اور اس وقت وہ بڑی تفریح سمجھی جاتی۔
حد تو تب ہوئ جب مرحوم عبد الرزاق نے عین امتحانات کے ایک ہفتہ پہلے دھارواڑ جانے کی فرمائش کی۔ رمضان المبارک کے آخری ایام تھے رات کو بارہ بجے ہم دھارواڑ کے لئے نکل گئے۔ سرسی بس اسٹینڈ پر بریڈ املیٹ سے سحری کی اور یونیورسٹی پہنچے۔ کام میں کافی دشواریاں آنے کے باوجود ہمت نہ ہاری اور دیر تک وہاں رہ کر کام مکمل کر کے واپس نکلے۔ ہبلی پہنچے تو معلوم ہوا کے عید الفطر کا اعلان ہو چکا ہے۔ اب ایک نئ افتاد آ پڑی۔ پتا چلا کے اس وقت دھرمستھلا میں کوئ بہت ہی بڑا تہوار ہونے والا تھا۔ متوقع بھیڑ کے پیش نظر خصوصی بسیں حکومت کی جانب سے رکھی گئی تھی۔ اس کے باوجود ہر وہ بس جو ساحلی کرناٹک کی رخ پر جا رہی تھی وہ کھچا کھچ بھری ہوئی آتی۔ شام چھے بجے سے رات ایک بجے تک ہبلی بس اسٹینڈ پر واپسی کی تگ و دو میں گزر گئ۔ رات ایک بجے کہیں جا کر بس کی سیڑھیوں پر بیٹھ سکے۔ سرسی گھاٹ کا صبر ازما مرحلہ پار کر کے چار گھنٹوں بعد جب کمٹہ اسٹیشن آیا تب کہیں جا کر سیٹ مل گئ۔ صبح سات بجے بغیر نہائے عیدگاہ جاتے ہوئے عجیب سا محسوس ہو رہا تھا۔ البتہ خوشی محسوس ہوئ کے دوستی کا حق نبھایا۔
اس دوران محترم المقام ایس۔ ایم۔ سید نظام الدین صاحب (مولانا ایس۔ ایم۔ سید ھاشم ندوی صاحب کے والد محترم) کی معیت میں انجینیرنگ کالج کے طلباء دس دن کے لئے تبلیغی جماعت بلگام پہنچی۔ کالج کے طلباء بشمول عبد الرزاق کے ہم سب شریک تھے اور اکثر پہلی دفعہ جماعت میں جا رہے تھے۔ محترم نظام الدین صاحب یوں تو بھولے بھالے سے لگے اور شدت سے محسوس ہوا کے وہ اس نوجوانوں کی جماعت کو کیسے سنبھالیں گے۔ نظام الدین صاحب بڑے شخصیت ساز امیر ثابت ہوئے نوجوانوں میں نوجوان بن کر گھل مل گئے۔ اگرچہ عبد الرزاق کو کبھی ہم نے تقریر کرنے والوں میں نہیں گنا تھا۔ مگر نظام الدین صاحب کی تربیت کے بعد صرف دس دن کے اختتام پر ہم سب کو (بشمول عبد الرزاق کے) مختصر بیان دینے کی استعداد حاصل ہو چکی تھی۔   
  اپنی ڈگری کی تکمیل کے بعد اعلیٰ تعلیم کا خواب لئے کرناٹک کے ثقافتی مرکز میسور پہنچا تو کنڑ زبان پر عبور والا بھرم کھل گیا۔ میری پوسٹ گریجویشن کے دو سال جو میسور میں گزرے وہ بہت ہی قیمتی وقت تھا۔ خیالات میں پختگی انی شروع ہو گئ تھی کنڑ زبان بھی نسبتاً اچھی طرح بات کر سکتا تھا۔ ایک سال بعد ایک طرف بابری مسجد کے سانحہ کی وجہ سے پورے ملک میں نفرت کا ماحول بن گیا تھا تو ہماری کالج میں یونین کونسل کی نمائندگی کے لئے ہماری کلاس نے بالاتفاق مجھے چن لیا۔
بات ہو رہی تھی عبد الرزاق کی اور میں یہ کہاں بہک گیا۔ ابھی وہ خود کفیل بھی نہیں بنے تھے کے ازدواجی زندگی کا آغاز ہوا۔ اس دوران اس بلبل بے پر کے ہاتھ میں حجاز میں تقرری کا پروانہ آ گیا اور میں نے سعودی عرب جانے کی تیاری شروع کردی۔
سرکل پر بس کے انتظار میں سارا کنبہ بیٹھا ہوا تھا اور یہ ناچیز عبد الرزاق سے ملاقات کرنے اسکوٹر لے کر اس کے گھر پر آواز دے رہا تھا۔ عبد الرزاق گھر میں موجود نہیں تھا۔ اس کی والدہ کو اطلاع دے کر واپس لوٹ آیا۔ بسں آگئ اور میں سامان لاد ہی رہا تھا کے عبد الرزاق آ پہنچا۔ گلے مل کر رخصت ہو گئے۔
معاش کی تلاش جہاں مجھے سعودی عرب لے گئ تو اسے دوبی لے گئ۔ چند برسوں بعد انہوں نے اپنا ذاتی کاروبار شروع کیا۔ والدہ کی وفات، کاروبار میں نقصان، گردوں کی بیماری وغیرہ  کافی آزمائش کا دور آیا مگر انہوں نے صبر کیا۔
انہوں نے اپنے بچوں کو دینی و دنیاوی تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اکثر تعلیم یافتہ افراد نماز جنازہ کا طریقہ نہیں جانتے۔ اس لئے جب انتقال ہوتا ہے تو عالم دین نماز کا طریقہ بتاتے ہیں۔ اس لحاظ سے عبد الرزاق بہت خوش قسمت نکلے کے جب انتقال کے بعد جنازہ مسجد لے جایا گیا تو ان کے اپنے عالم دین بیٹے نے نماز جنازہ پڑھائی۔   
ہمیں اپنی آخرت کی تیاری کا جائزہ لینے دعوت دیتے ہوئے ہمارے دوست عبد الرزاق اس دارفانی سے رخصت ہوئے۔

«
»

ریٹھی دانے، یا ریٹھی صابن پانی

شہر مرڈیشور(کائکنی) علم دوست انسان سے محروم ہوا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے