یکساں یونیفورم سے یکساں سول کوڈ کی طرف !!؟؟

 

 تحریر: عتیق الرحمن ڈانگی ندوی

کرناٹک میں حجاب کا مسئلہ اب اڈپی اور کنداپور سے نکل کر ریاست کے دیگر علاقوں میں بھی پھیل گیا ہے۔ شیموگہ ضلع کے بھدراوتی میں بھی حجاب پہنی طالبات کو کلاس روم میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اور یوں یہ معاملہ طول پکڑتا جارہا ہے۔ سلام ہے اڈپی کی ان بیٹیوں کو جنہوں نے اپنی تعلیم کا نقصان برداشت کیا لیکن اسلامی شعائر پر حرف آنے نہیں دیا۔ جنہوں نے ذہنی اذیتیوں کی نہ جانے کونسی کونسی تکلیف نہیں جھیلی، اس پر مستزاد میڈیا والوں کے سوالات کے سامنے بھی وہ پہاڑ کی طرح ڈٹی رہیں اور آئین میں دئیے گئے اپنے حق کی لڑائی جاری رکھی۔ پرنسپال سے لے کر ایم ایل اے اور وزیر تک سبھوں نے انہیں نشانہ بنایا لیکن وہ سینہ سپر ہوکر حق کے لیے اپنی آواز بلند کرتی رہی۔ ان ہی کوششوں اور جدوجہد کے نتیجہ میں اس معاملہ نے اڈپی سے نکل کر ریاستی اور ملکی سطح کے میڈیا میں جگہ بنائی اور یوں حمایت کرنے والوں اور مخالفین کے چہرے سامنے آتے چلے گئے۔ اڈپی کی ان طالبات کی ہمت اور جرأت کے نتیجہ میں کنداپور کے کالج میں زیر تعلیم طالبات میں جرأتمندی نظر آئی اور یوں وہ بھی اپنے حق کے لیے سینہ سپر ہوگئیں۔

اس معاملہ کا مقصد صاف ہے۔ بھلے ہی با حجاب طالبات کو کلاس میں داخلہ کی اجازت کی جو بھی دلیل دی جائے لیکن جس طرح سے اس کو زعفرانی رنگ میں رنگنے کی سازش رچی گئی وہ صاف ہے۔ زعفرانی شال نے اس مسئلہ کو ہوا دی اور حکومتی ایوانوں میں بیٹھے ہوئے لوگوں نے جلتے پر نمک چھڑکنے کا کام کیا اور جو کسر رہ گئی تھی اس پر اب حکومت نے مہر ثبت کردی۔

مسلمانوں کو تعلیمی میدان سے دور رکھنے کے ساتھ ساتھ انہیں یکساں سول کوڈ کی طرف دھکیلنے کا یہ پہلا زینہ ہے۔ جب سے مرکز میں بی جے پی برسرِ اقتدار آئی ہے اس وقت سے آج تک وقفہ وقفہ سے یکساں سول کوڈ کا مسئلہ اٹھایا جاتا رہا ہے۔ مختلف افراد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں یکساں سول کوڈ کا مطالبہ کرچکے ہیں اور دہلی حکومت نے تو یکساں سول کوڈ کی حمایت کی ہے۔ اس نے یکساں سول کوڈ کو ملک کی  ضرورت قرار دیا ہے ۔

یکساں سول کوڈ کا مطلب اور مسلمانوں کے اختلاف کی وجہ

یکساں سول کوڈ کا مطلب یہ ہے کہ ملک کے دستورکی دفعہ 44 میں ملک میں بسنے والے تمام مذاہب کے ماننے والوں کے لیے شادی بیاہ ، طلاق ، وارثت اور گود لینے جیسے عائلی قوانین یکساں ہوں اور اس میں کسی بھی طرح کی تفریق نہ ہو۔

مسلمان یکساں سول کوڈ کی اس لیے مخالفت کرتے ہیں کہ شریعتِ اسلام ان کے لیے ایک مضبوط قانون ہے جس میں کسی کو بھی ردوبدل کا اختیار نہیں ۔ ان کے پاس اپنے مذہب کا وہ اٹوٹ قانون ہے جو کسی بھی صورت میں بدل نہیں سکتا ۔ اس کی بنیاد شریعت مطہرہ پر ہے ۔ لہذا مسلمان کسی بھی طرح اس کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے اور جب جب بھی مسئلہ کو ہوا دینے کی کوشش کی گئی اس کی پرزور مخالفت کی گئی اور حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس آواز چیلنج کیا گیا۔

یکساں سول کا مطلب صاف ہے کہ اس کے بعد اب کسی کا پرسنل لا نہیں چلے گا اور ملک میں تمام مذاہب کے ماننے والوں کے لیے ان کے عائلی مسائل میں یکساں قانون ہوگا۔

ان باتوں کی روشنی میں کرناٹک حجاب مسئلہ اور حکومت کے موقف کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو یہ بات پہلے سے معلوم ہے کہ یہ معاملہ ہائی کورٹ میں چل رہا ہے اور 8؍ فروری کو اس پر سماعت کا بھی اعلان ہوگیا ہے اس کے باوجود کرناٹک حکومت ہائی کورٹ میں سماعت سے عین قبل اپنا موقف سامنے رکھتی ہے اور اسکول اور کالجوں میں انتشار اور اختلافات سے بچنے کی دلیل دیتے ہوئے یکساں یونیفارم کو لازمی قرار دیتی ہے۔ اس حکم نامہ سے صاف ہے کہ اب ریاست کے کسی بھی اسکول اور کالج میں اختلافات کی وجہ قرار دیتے ہوئے حجاب کو ممنوع قرار دیا جائے گا اور یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ بنیاد مسائل کو ہوا دینے کا کام ملک میں کس طرح کیا جارہا ہے اور جھوٹ کو سچ قرار دینے کی کیا کوششیں ہورہی ہیں۔ کیا حکومت یونیفارم کوڈ سے کہیں یکساں سول کوڈ کا مسئلہ تو نہیں چھیڑنے جارہی ہے!!؟؟

«
»

ریٹھی دانے، یا ریٹھی صابن پانی

شہر مرڈیشور(کائکنی) علم دوست انسان سے محروم ہوا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے