وہ اپنے جسم کو حرکت نہیں دے سکتی مگر اپنی تعلیم مکمل کی!

نقی احمد ندوی، ریاض، سعودی عرب 

ڈان فیضی ویبسٹر(Dawn Faizey Webstar) ایک بچے کی ماں، جو گزشتہ 12سال سے بستر پر بے جان اور بے حرکت پڑی ہوئی ہے۔ پورا جسم مفلوج ہوچکا ہے۔ وہ اپنی ایک انگلی تک جنبش نہیں کرسکتی، آواز ختم ہوچکی ہے، صرف وہ اپنی پلک جھپکا سکتی ہے اور سر کو ہلکا سا جنبش دے سکتی ہے۔ مگر فیضی نے قدیم تاریخ میں گریجویشن پورا کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ اگر انسان چاہے تو ناممکن کو ممکن میں ضرور تبدیل کرسکتا ہے۔
دورانِ حمل مس فیضی کو پریشانی اس وقت شروع ہوئی جب وہ 26ہفتہ کی حاملہ تھیں۔ Pre-eclampsicایک بیماری ہے جو حاملہ عورتوں کو اگر لاحق ہوجاتی ہے تو بلڈ پریشر خطرناک حد تک بڑھ جاتا ہے، مس فیضی کو بھی یہی بیماری لاحق ہوگئی اور ان کو اسپتال میں داخل کیا گیا۔ اگلے چند دنوں تک ان کی حالت بگڑتی چلی گئی، لہٰذا ڈاکٹروں نے ان کی سرجری کرنے کا فیصلہ کیا، سرجری کامیاب ہوئی اور ایک بیٹا پیدا ہوا، پھر وہ گھر واپس آگئیں۔ مگر ایک ہفتے کے بعد ایک دن صبح ان پر برین اسٹروک کا اچانک حملہ ہوا،جس کے نتیجے میں ان کی آواز بیٹھنے لگی۔ ان کی ماں نے انہیں جلدی سے ہسپتال میں بھرتی کرایا اور علاج و معالجہ شروع ہوا۔
مس فیضی کہتی ہیں کہ مجھے یاد ہے کہ گردن کی نلی میں ناک کے ذریعہ ڈاکٹر پائپ ڈال رہا تھا اور میں لوگوں کو آتے جاتے دیکھ رہی تھی مگر میں بول نہیں پارہی تھی، میں چیخ چیخ کر بتانا چاہ رہی تھی کہ میرے مفلوج جسم میں میرا دماغ ابھی تک زندہ ہے مگر جیسے ہی میں چلاتی میری آواز میرے جسم میں دفن ہوکر رہ جاتی۔
اس دوران مس فیضی کے شوہر اور والدین ہسپتال آتے جاتے رہے۔ ایک ہفتہ گزرگیا مگر فیضی کی حالت میں کوئی سدھار نہ ہوا بلکہ مزید حالت بگڑتی چلی گئی، اس کا پورا جسم شل ہوگیا، وہ نہ تو ہل سکتی تھی اور نہ بول سکتی تھی، یہاں تک کہ آنکھوں کی نسیں بھی شل ہوگئی، بے جان اور بے حرکت بستر پر لیٹی ڈاکٹروں کی باتیں سنتی، لوگوں کو آتے جاتے دیکھتی، ڈاکٹروں نے کہا کہ مریض کی حالت مزید بگڑ سکتی ہے۔
Locked in Syndrome بیماری ایسی کیفیت کا نام ہے جس میں مریض بیدار اور ہوشیار رہتا ہے مگر اس کا جسم مفلوج ہوجاتا ہے۔ وہ اپنی آنکھوں کے علاوہ جسم کا کوئی حصہ حرکت نہیں کرسکتا، اور نہ ہی بولنے کی قدرت رکھتا ہے۔ اس کے برخلاف ٹوٹل لوکدان سنڈروم کے اندر آنکھ بھی مفلوج ہوجاتی ہے۔ عام طور پر دماغی اسٹروک یا دواؤں کے اور ڈوز کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے۔ اس بیماری کا اب تک کوئی خاص علاج ممکن نہیں ہوپایا ہے۔
مریض جب اس کیفیت میں پہنچ جاتا ہے تو کمیونیکشن کے لیے کئی طرح کے آلات موجود ہیں، جو مریض کے جسم سے جوڑ دیے جاتے ہیں اور مریض اس آلہ کیریعہ اپنی بات کہنے کے لائق ہوجاتا ہے۔ مس فیضی کہتی ہیں کہ لوگ ہسپتال میں آتے، ایک دوسرے سے باتیں کرتے اور مجھ سے بھی باتیں کرتے مگر میں بے حس بے جان بستر پر پڑی رہتی اور ان کو صرف تاک رہی ہوتی، لوگ میرے بیٹے الیگزنڈر کے بارے میں بھی باتیں کرتے جس کو میں سنا کرتی، میں گھنٹوں صرف چھت کو گھورا کرتی اور لوگوں کے ملنے کے وقت کا انتظار کرتی کہ میرے گھر والے جب آئیں گے اور باتیں کریں گے تو میں سنوں گی۔ میں اندر ہی اندر روتی مگر آنسو نہیں نکلتے، لوگوں کو یہ احساس ہی نہیں تھا کہ میں بیدار اور ہوش و حواس میں ہوں، ایسی صورتحال میں ہفتوں نکل گئے۔ میں اپنی انگلیوں کو حرکت دے کر لوگوں کو بتانا چاہتی تھی کہ میں ابھی بھی زندہ ہوں مگر انگلی تک ہلا نہیں سکتی تھی کیونکہ پورا جسم ہی شل اور مفلوج ہوچکا تھا۔
مس فیضی کی حالت میں ایک نیا موڑ اس وقت آیا جب وہ اپنے باپ کو پلک جھپکا کر یہ بتانے میں کامیاب ہوگئیں کہ وہ ابھی بھی زندہ ہے۔ ایک روز اس کے والد بیڈ کے کنارے بیٹھے ہوئے تھے اور مس فیضی کو دیکھ رہے تھے، انھوں نے مس فیضی سے کہا کہ اگر تم مجھے سن سکتی ہو تو اپنی پلک جھپکاؤ۔ فیضی نے پلک جھپکائی، پھر کیا تھا ان کے والد خوشی سے اچھل پڑے اور ڈاکٹروں کو بتایا کہ فیضی ابھی بھی ہوش و حواس میں ہے، اس کے بعد ڈاکٹروں نے ایک لیپ ٹاپ کو مس فیضی کی پلک سے مربوط کیا جس کے ذریعے وہ بات چیت کرنے پر قادر ہوئی تاہم اس خوشی کے بعد مس فیضی کو دوسرا غمناک جھٹکا اس وقت لگا جب ان کی یہ حالت دیکھ کر ان کے شوہر نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا اور طلاق دے دی۔
مس فیضی کہتی ہیں کہ جب میں نے ڈگری پاس کی تو میں بے حد خوش تھی اور مجھے اپنے اوپر فخر محسوس ہورہا تھا، جس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اس خطرناک بیماریمس فیضی کے والد جن کی عمر 80سال اور ماں جن کی عمر 75سال ہے دونوں مل کر اپنی بیٹی کی دیکھ بھال کرتے اور ا س کو بھرپور خوشیاں دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے والد کہتے ہیں کہ فیضی نے اس حالت میں بھی جو کارنامہ کردکھایا ہے وہ حیرت انگیز ہے اور اس پر ہم سب کو فخر ہے۔ اس کے لیے اس نے بہت سخت محنت کی ہے۔ فیضی جن مشکلات سے گزری ہے وہ دل کو دہلادینے والے ہیں مگر اس نے ہمت نہیں ہاری، ایسی بیماری میں دوسرے مریضوں کی طرح اس کے بھی برے دن گزرے ہیں مگراس نے اس حالت میں بھی اپنی پڑھائی جاری رکھی ہے۔
مس فیضی اکتوبر میں مانچسٹر اپنے گریجویشن کی ڈگری لینے جارہی ہے وہ لمحہ ہم سب کے لیے انتہائی فخر اور اعزاز کا ہوگا۔ یہی نہیں مس فیضی آگے بھی اپنی تعلیم جاری رکھتے ہوئے ایم اے کرنے کا عزم رکھتی ہے۔ذرا سوچیے،آپ جو کچھ حاصل کرناچاہتے ہیں کیا اسکو حاصل کرنے کے لیے مس فیضی جیسا عزم اور حوصلہ رکھتے ہیں؟

مضمون نگارکی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

 

«
»

ریٹھی دانے، یا ریٹھی صابن پانی

شہر مرڈیشور(کائکنی) علم دوست انسان سے محروم ہوا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے