بزرگ استاد مرحوم ایس ایم شبیر ماسٹر، ایک حسین یاد

        نقاش نائطی

 آج کے مقابلے ہمارے بچپن  میں دینی  اقدار بہت ہی  زیادہ ہوا کرتے تھے۔ رمضان مہینے کا خیر مقدم ، گھر کی مکمل  صفائی کے ساتھ بہت ہی اہتمام سے ہوا کرتا تھا۔ گجراتی قوم  دیپاولی کے وقت مٹھائیاں تقسیم کرتے ہوئے، نئے سال ک شروعات کئے جیسا، اور کیرالہ کے لوگ  پونگل  تیوہار مناتے ہوئے نئے سال شروع کئے جیسا ہی، ہم مسلمانوں کا اسلامی سال محرم سے شروع ہونے کے باوجود، رمضان کی شروعات اسلامی سال ابتداء شروع کئے جیسا ہی، ماہ مبارک  رمضان کی شروعات ہوتی تھیں۔ تمام مسلمان تجار، حکومتی سطح اپنا معشیتی سال جنوری یا مارچ سے شروع  کرنے کے باوجود،اپنے طور رمضان شروع ہی سے، اپنے معشیتی سال کی شروعات کرتے ہوئے، اپنی اپنی تجارتی جرد یعنی اسٹاک کا محاسبہ کرتے ہوئے، اپنے مال کی زكاة  نکال، اپنے اپنے گھروں کو بھٹکل بھیج دیا کرتے تھے۔ گویا رمضان المبارک سخاوت عبادت والا اور شیطان رجیم کے رب دوجہاں کی طرف سے پابند سلاسل کئے جانے کی وجہ ہی سے، گناہ و منکرات سے بچتے ہوئے، کثرت عبادات و کثرت ذکر و اذکار نیز،اہتمام دعا کا مہینہ ہوا کرتا تھا۔ سابقہ  گاؤں کی مساجد برساتی دنوں رواں دواں پانی ریلے سے بچنے کے لئے ذرا اونچی جو بنائی جاتی تھیں ان ایام مسجدوں میں چڑھنے کے لئے متعدد موٹی رسی کے گانٹھ دار لچھے، مقامی زبان میں "دھمسو" باندھے جاتے تھے، جس کے سہارے عمر رسیدہ احباب مسجد کے اوپر چڑھا کرتے تھے۔ رمضان کے مہینے میں چھوٹے بڑے سبھی روزے رکھا کرتے تھے۔ جوانی کی عمر پہنچنے سے پہلے ہم رمضان کے مہینے میں سحری بعد فجر کی آذان سے کافی پہلے، مسجد پہنچ جایا کرتے تھے اور آذان تک وہی لچھے دار رسی یا دھمسو پکڑ کر جھومتے ہوئے انبیاء علیہ السلام کی شان میں صلواة بولا کرتے تھے۔ بعد العصر سے مساجد اجتماعی افطار کی تیاریاں ہم بچوں کا محبوب مشغلہ ہوا کرتا تھا  محلہ کے ہر صاحب حیثیت کے گھر سے افطار کےلئے کچھ نہ آیا کرتا تھا اسلئے روزانہ نت نئے اقسام کے کھانے افطار میں ملا کرتے تھے۔تراویح کا اہتمام ہر مساجد میں ہوتا تھا۔ چنندہ مساجد میں شمالی ھند سے مخصوص حفاظ  کرام کا تقرر کرتے ہوئے پورا قرآن سننے کا اہتمام بھی ہوتا تھا۔

ستائیسویں شب رمضان اکثر مساجد چراغاں رکھےشب بیداری  عبادات و دعا کا انتظام رہتا تھا۔غالبا1499 بمطابق 1977 27 ویں شب گزارنے  بعد تھکے تھکے ہم نماز فجر میں مصروف تھے۔ گاؤں کا مذبح خانہ مشما محلہ میں ہونے کے باوجود، روزانہ ذبح کئے جانے والے گائے بیل مشما محلہ دارنٹا علاقے کے علاوہ تکیہ محلہ شارلا ندی کےپاس بھی لائے جاتے تھے۔ ویسا  ہی مختلف گایوں کا ریوڑ  چوک بازار سے علوہ مسجد کی طرف لایا جارہا تھا،پتہ نہیں کیا ہوا، چوک بازار ک طرف کھلنے والے علوہ  مسجد کے دروازے سے گائے کا ریوڑ مسجد کے اندر نماز میں مصروف، سجدہ ریز مصلیوں کو روندتا نہ صرف داخل مسجد ہوا بلکہ پیشاب و پاخانہ  کر مسجد کو غلیظ و پراگندہ بھی کرگیا۔ اس وقت نماز توڑ دوبارہ کچھ وقفہ بعد پڑھی گئی لیکن ان لمحات گائے گلہ بان پر ، مشتعل  نوجوانوں کے جذبات سرد کرتے  کسی بزرگ کا، غالبا متوفی  آمام مسجد قاضی بھٹکل مولوی اکرمی شبیر علیہ الرحمہ کا قول، آج بھی ہمارے ذہن و افکار میں گونج رہا ہے۔انہوں نے مشتعل ہم نوجوانوں کو ٹھنڈا کرتے کہا تھا  اس میں ریوڑ گلے بان کا کوئی قصور نہیں ہے۔ یہ سب مشیت ایزدی سے یہ واقعہ ظہور پذیر ہوا ہے،کوئی بزرگ ہستی کا ابھی ابھی انتقال ہوا ہوگا اور اس کی روح قبض کرنے آسمان سے اترے فرشتوں کو دیکھ یہ بے زبان جانور، اپنا ہوش کھوبیٹھے ہونگے"  اور یوں ہم نوجوانوں کے جذبات قابو میں کرتے، مسجد دھلائی صفائی بعد دوبارہ جماعت سے نماز فجر ادا کی گئی تھی۔ تب تک کان در کان شخصی طور یہ خبر آچکی تھی گاؤں میں اپنے دینی کتب توزیع تجارت دوکان رکھتے ہوئے، ایک لمبے عرصے تک پورے علاقے میں توزیع کتب اسلامی ایک مشن تجارت کے ساتھ کرنے والے، قومی نونہالوں کی تدریب و تربیت کرنے والے، کچھ وقفہ سے صاحب فراش سقم، المحترم ایس ایم شبیر ماسٹرصاحب وفات پا چکے ہیں۔ اللہ مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے عالم برزخ میں انہیں اپنے جوار رحمت میں رکھے اور بعد محشر ان کے لئے جنت کے اعلی مقام کو محجوز رکھے۔ آج اس واقعہ پر کم و بیش 44 سال گزرنے کے بعد، انکے بھتیجے ایس ایم سلطان کی طرف سے ان کی یاد میں ایک صوتی تعزیتی پیغام نشر کرنےنے، ہمیں اپنے ہردلعزیز استاد، مرحوم محترم ایس ایم شبیر ماسٹر کی یاد تاہ دم کردی ہے

 

چونکہ ہم دینی مدرسہ جامعہ اسلامیہ کے طالب علم تھے درجہ اول عربی سے ہمیں اچانک عصری تعلیمی اسکول کےساتویں درجہ میں منتقل کیا گیا تھا انگریزی  کنڑا حساب و سائیس مضامین میں کمزور رہنے کی وجہ، اسکول تعلیم جلد از رفتار پکڑنے، ہماری مدد کے لئے، ہمیں المحترم مرحوم شبیر ماسٹر کی دوکان شبیر براس ٹیوشن  لینے بھیجا جاتا تھا۔ چونکہ اس وقت اتنا شعور نہ تھا کہ استاد محترم کو ہم سمجھ پاتے، لیکن جو کچھ دیکھا ان کی تدریسی خدمات کے علاوہ سخاوت خصوصا غریب و مفلس طلبہ کی اعانت کا جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ اور ان ایام ایک حد تک عصری تعلیم سے نابلد معاشرے میں، قومی بہنوں میں عصری تعلیم کی اہمیت اجاگر کرنے کی جو فکر مرحوم استاد محترم میں تھی وہیں پر قرب و جوار کے نائیطی و غیر نائطی مسلم علاقوں دیہات  قریات میں، دینی معلوماتی کتب فروشی کے ذریعہ،تجارت سے پرے  علم و آگہی دینی علوم  قوم و ملت کی بہنوں بھائیوں میں جاگزین کرنے کی فکر و جذبہ اور اس سمت غریب طلبہ کو جمعرات جمعہ فارغ وقت سائکل پر کتب فروشی کروا، انہیں بھی مالی امداد پہنچانے کی انکی سعی، یقینا انہیں اور اساتذہ سے ممتاز کرتی تھی۔ انکی دوکان کے قریب اہل نائط کے قائم سیاسی اقتصادی سماجی  مرکزی ادارے مجلس اصلاح  و تنظیم کی سر پرستی،انکے قومی خدمت کے جذبہ کو اجاگر کرتی تھی-

قومی اسکولوں میں ملت کے اساتذہ خلوص سے تعلیمی خدمات انجام دیتے ہی ہیں لیکن قومی اساتذہ کا اپنے قومی طلباء کو ایک خاص دلی جذبہ سے تعلیم دینے کا انکا اپنا  ایک الگ انداز ہوا کرتا ہے۔اسلئے قومی اسکولوں کے معیار کو بلند و متمیز گر رکھنا ہے تو قومی اساتذہ کی تدریسی خدمات یقینا" ناگزیر ہوجاتی ہیں۔اللہ ہی انجمن و جامعہ و دیگر ملی تعلیمی اداروں میں تدریسی خدمات کے بہانے قوم و وطن کی تربیت و تدریب کرنے والے بہن بھائیوں کو استقامت عطا کرے دنیا وآخرت میں انکی بھر پور اعانت کرے اور انکی اس تدریسی خدمات کو انکی آخرت سنوارنے کا باعث بنائے وما علینا الا البلاغ

   9665677707+

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

«
»

مسلم اور غیر مسلم تعلقات

اصلاحی وتنقیدی مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے