قرآن و سنت کا انکارکرنے والی آج کی بدنصیب عورت!

 ابونصر فاروق

 

(۱)    اور اے نبیﷺ مومن عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں،اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں، سوا اس کے کہ جو خود ظاہر ہو جائے،اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں …………(النور:۱۳) اے نبیﷺ اپنی بیویوں اور بیٹیوں سے کہہ دیجئے کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں۔یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں (کہ شریف گھرانے کی عورتیں ہیں)اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے۔(الاحزاب:۹۵) ان دونوں آیتوں میں حجاب کا واضح حکم موجود ہے۔لیکن آج کی عورت کھلم کھلا اس کی مخالفت کرنے پر تلی ہوئی ہے۔پڑھے لکھے جاہل مسلم مردوں نے حجاب اور پردے کو پسماندہ اور غیر ترقی یافتہ ہونے کی پہچان سمجھ کر اپنے گھروں کی عورتوں کو بے حجاب کر یا۔اس دور کے مرد اور عورتیں دونوں شریعت کے دشمن بن گئے۔
(۲)    عورتوں کو حکم دیا گیا کہ اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں ……اپنے سینوں پر اوڑھنیوں کے آنچل لٹکا لیں۔ لیکن ہر مسلم عورت شادی یا دوسری تقریبات میں اس طرح بن سنور کر جاتی ہے جیسے حسن کی نمائش میں جا رہی ہو۔سینے کا ابھار عورت کی زینت ہے اس کو چھپانے کا حکم دیا گیا لیکن جینز اور گنجی پہن کر اس حکم کی ان دیکھی کرنافیشن بن چکا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ دور حاضر کی عورت یہ کہتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے کہ کیا ہم نے اپنے چہروں کو بے نقاب اسی لئے کیا ہے کہ تم ہمارے چہرے دیکھ کر نگاہیں پھیر لو۔ اگر چہرہ حسین نہیں تو کیا ہوا اس دکان میں دیکھنے کی اور بھی چیزیں ہیں۔
(۲)    حضرت عثمانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:تم میں سب سے اچھے آدمی وہ ہیں جو قرآن کا علم حاصل کریں اور دوسروں کو اس کی تعلیم دیں۔ (بخاری) اس دور کے مردوں اور عورتوں نے صاف کہہ دیا کہ ہم کو قرآن سے اور اُس کے علم سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔یہ الگ بات ہے کہ ہر لڑکی کی شادی میں قرآن جہیز میں دینے کی رسم کی پوری پابندی کی جا رہی ہے۔مگر قرآن کے علم سے محرومی اس دور کے مردوں اور عورتوں کی تقدیر بن چکی ہے۔
    مختلف پلیٹ فارم سے دور جدید کے عورتوں کے نام نہاد مسیحا یہ بیان دیتے اور اظہار خیال کرتے رہتے ہیں کہ مسلمان عورتوں کی ترقی، آزادی اور خو دمختاری کے دشمن ہیں۔اُسے برابری کا درجہ دینا بھی گوارا نہیں کرتے۔عورت مسلم گھرانوں میں بہت سی چیزوں سے محروم ہے، جن میں سب سے اہم یہ ہے کہ وہ قبرستان نہیں جا سکتی ہے۔بزرگوں کے مزاروں پر جا کر اُن کی دعائیں اور فیوض و برکات حاصل نہیں کر سکتی ہے۔اُ سے پردے اور حجاب میں رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ!!
(۳)    دور جدید پروپیگنڈے کا دور ہے۔غلط اور جھوٹی باتوں کو تکرار اور اشتہار کے ذریعہ سچ کر دکھاناآ ج لوگوں کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔مسلمانوں کی بد نصیبی کا معاملہ یہ ہے کہ انتہائی اعلیٰ تعلیم یافتہ او ر اونچی سماجی حیثیت پا لینے کے باوجود یہ لوگ اسلام کی تعلیمات اور تاریخ سے ناواقف اور انجان ہیں۔ان کی اس جہالت کی بنا پر یہ بد نصیب لوگ اسلام پربیجا اعتراضات کے مقابلے میں اسلام کی سچی باتوں کو بیان کرنے کی جگہ معذرت کر کے خود کو بھی شرمندہ کرتے ہیں اور نبی رحمت ﷺ سے لے کر اس دور کے تمام اسلام پسندوں کی بے عزتی کرتے ہیں۔
    ساری دنیا جانتی ہے کہ طلوع اسلام سے قبل ہر قوم کے اندر عورت کوحقیر او ر ذلیل بنا کر رکھا گیا تھا۔ہندوستان میں عورت اُس وقت تک کھانا نہیں کھا سکتی تھی جب تک کہ گھر کے مرد کھانا نہ کھالیں۔عورت کی برابری کی دہائی دینے والے اس بات کو بھول جاتے ہیں یا جان بوجھ کر اس کا ذکر کرنے میں خطرہ محسوس کرتے ہیں ؟  مغربی دنیا میں پنڈورا باکس کی کہانی مشہور تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ مرد کی دنیا پرسکون اور خوش گوار زندگی گزار رہی تھی، لیکن جب پنڈورا دنیا میں آئی تو اپنے ساتھ آفت اور بلاؤں کا طوفان لائی۔عرب میں عورتوں کی پیدائش کو شرم ناک حادثہ سمجھا جاتا تھا اورنوخیز بچیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔دنیا بھر کی داستان میں سے یہ چند مثالیں بطور نمونہ پیش کی گئی ہیں۔
(۴)    جب اسلام کا سورج طلوع ہوا اور نبی رحمت ﷺ دنیا میں نبی کی حیثیت سے سامنے آئے تو اُنہوں نے عورتوں کی مسیحائی کا ایسادرس دیا اورایسا عملی نمونہ پیش کیا کہ عورت زمین سے آسمان پر پہنچا دی گئی۔لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ مسیحا کے پیروہی مسلم معاشرے میں عورت پر ظلم کرنے کی بد عملی کی معذرت پیش کر رہے ہیں۔
    حضرت انس ؓ روایت کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے دو بیٹیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ جوان ہو گئیں تو قیامت کے دن وہ آئے گا اور ہم اور وہ اس طرح ہوں گے (پڑوسی)آپ نے اپنی دو انگلیوں کو ملایا۔ (مسلم) اس کے بعد وہ بچیاں جو زندہ دفن کی جاتی تھیں، مسلم سماج میں سب سے قیمتی دولت بن گئیں او ر اُنہیں وہ مرتبہ و مقام ملا جونہ اس سے پہلے ملا تھا اور نہ اب میسر ہے۔نبیﷺ کو جنت الفردوس میں سب سے اونچا درجہ ملے گا۔دو بچیوں کو مسلمان بنانے والے کو بھی اسی اونچے درجے میں جگہ ملے گی۔
    حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں، رسول اللہﷺ نے فرمایا:تم میں بہترین آدمی وہ ہے جو اپنی بیویوں کے ساتھ بہترین سلوک کرتا ہو، اور میں تم میں کا بہترین آدمی ہوں، بیویوں کے ساتھ بہترین سلوک کرنے کے لحاظ سے۔(ابن ماجہ)یعنیمرد کی اچھائی کی کوئی بھی سند اُس وقت تک قابل قبول نہیں مانی جائے گی جب تک کہ اُس کی بیوی یہ شہادت نہ دے کہ اُس کا شوہربہت اچھا اور معقول آدمی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ طلبا کو پرنسپل اور کام کرنے والوں کو اُن کے افسر Character certificateدیا کرتے ہیں۔اندازہ کیجئے کہ گھر کے اندر شوہر کے سامنے بیوی کی کیا حیثیت ہو گئی۔ایک دین پسند عورت کے نزدیک اچھے مرد کی صفات الگ ہوں گی اور ایک بے دین عورت کے نزدیک اچھے شوہر کی صفات الگ ہوں گی۔
    حضرت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں، نبی ﷺنے فرمایا اُس کی ناک خاک آلود ہو،اُس کی ناک خاک آلود ہو،اُس کی ناک خاک آلود ہو -پوچھا گیا کس کی یا رسول اللہ؟  سرکار نے فرمایا جس نے بڑھاپے میں اپنے والدین کو یا دونوں میں سے کسی ایک کو پایا اور پھر بھی جنت کا حقدار نہ بنا۔(مسلم)ضرورت سے زیادہ دولت کمانے کی ہوس میں باپ نے بیٹے کو بدیس بھیج دیا۔پھر باپ بیٹے کی خدمت سے محروم ہو گیا اور بیٹا جنت  سے محروم ہو گیا۔اس دور کا مسلمان جو خود کو اوراپنی اولاد کوجنت سے محروم کرنے پر تلا ہوا ہے،نیک اور اچھا ہے یا بدعقل اور بدنصیب ہے ؟
    حضرت جاہمہؓ نبی  ﷺکی خدمت میں حاضر ہو کربولے یا رسول اللہ میرا ارادہ جہاد میں شریک ہونے کا ہے، مجھے آپ کا مشورہ درکا ر ہے۔ حضورﷺ نے پوچھا کیا تمہاری ماں ہیں ؟  اُنہوں نے کہا جی ہاں۔نبی ﷺ نے فرمایا اُن کی خدمت اپنے اوپر لازم کر لو کیونکہ جنت اُن کے پیروں کے پاس ہے۔(احمد، نسائی، بیہقی) عورت جب ضعیف اور ناتواں ہو کر ایک ناکارہ ہستی بن جاتی ہے تو اُس کو پوچھنے والا اور اُس کی خدمت کرنے والاگھر میں کوئی نہیں ہو تاہے۔ نبیﷺ کے اس فرمان کے بعد دین پسند مسلم گھرانوں کی تمام ضعیف خواتین کی اعلیٰ درجہ کی خدمت اور اُن سے محبت کا ماحول پیدا ہو گیا۔لیکن بے دین مسلم گھرانوں میں ضعیف عورت اور مرد کے لئے پھر دور جاہلیت کا ماحول واپس آ گیا اور ان ضعیفوں کا جینا دوبھر ہو گیا۔
    حضرت ابو امامہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی ﷺسے دریافت کیا یا رسول اللہ! والدین کا اپنی اولاد پر کیا حق ہے؟  نبی ﷺ نے فرمایا وہی تمہاری جنت اور جہنم ہیں۔(ابن ماجہ) اس کے بعد ضعیف ماں باپ کے لئے دین پسند گھرانہ دنیا میں ہی جنت بن گیا جہاں اُن کی نیک، صالح اور دین و شریعت کی پابند اولاد اُن کی خدمت کو اعلیٰ درجہ کی عبادت سمجھنے اور اُن کی خدمت کرنے لگی۔مگربے دین گھروں میں ایسا نہیں ہوتا ہے۔
    حضرت ابو ہریرہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی  ﷺ سے پوچھا یا رسول اللہ! میرے حسن سلوک کاسب سے زیادہ حقدار کون ہے؟نبی ﷺ نے فرمایا تیری ماں، اُس نے پوچھا اس کے بعد؟ نبی ﷺ نے فرمایا تیری ماں، اُس نے پوچھا اس کے بعد؟  نبی ﷺنے فرمایا تیری ماں، اُس نے پوچھا اس کے بعد؟ نبی ﷺنے فرمایا تیرا باپ، پھر جو زیادہ قریب، زیادہ قریب ہوں۔(بخاری و مسلم)اس حکم نبوی کے بعد ماں کا درجہ باپ سے بڑھ گیا اورعو رت مرد سے Superiorبن گئی۔لیکن اس دور کی بد نصیب عورت اپنی اولاد کو ایسا مسلمان بناتی ہی نہیں جواُس کو یہ مرتبہ و مقام دے۔
(۵)    کہا جاتا ہے کہ وقت لوٹ کر پھر پرانی حالت پر آجاتا ہے۔ چنانچہ اس دور حاضر میں جب خواتین کی آزادی، ترقی اور خود مختاری کے چرچے حد سے زیادہ ہو رہے ہیں اور اس صنف نازک کو بے وقوف بنانے کے لئے یوم خواتین بھی شروع کر دیا گیا ہے، ساری دنیا اس بات کی شہادت دے رہی ہے کہ آج کی عورت جس قدر غیر محفوظ ہے اورآج جس آزادی کے ساتھ اُس کی عصمت دری اورExploitationہو رہا ہے ویسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔انتہا یہ ہے کہ نو خیز بچیوں کی آبرو ریزی کی جارہی ہے اور حکومت و انتظامیہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔پسماندہ طبقات کی خواتین گویا ایسی چراگاہیں ہیں جہاں کوئی بھی سانڈ آ کر منہ مار سکتا ہے۔کسی بھی محکمے میں جہاں خواتین کام کر رہی ہیں اُن کی عصمت اور آبرو محفوظ نہیں ہے۔مختلف طریقوں سے اُنہیں ستایا اور پریشان کیا جاتا ہے اور پھر اُنہیں اپنی عصمت و آبرو کی رشوت دینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔افسر اپنی ماتحت کو مختلف طریقے سے بلیک میل کرتا ہے اوراُس کو ایسے ناجائز کام کرنے پر مجبور کردیتا ہے جس کو اُس کا ضمیر اور شعور گوارا نہیں کرتا۔لیکن دولت کی ہوس کے سبب وہ یہ گناہ کرتی ہے۔
    مسلم دوشیزائیں بلا تکلف غیر مسلم نوجوانوں سے دوستی، عشق اور شادیاں کر رہی ہیں جس کے بعد اُن کا جہنم میں جانا یقینی ہو گیا ہے۔اس کی پروا نہ اُن لڑکیوں کو ہے، نہ اُن کے والدین کو او ر نہ ہی ملت کے سربراہوں کو۔ انتہا یہ ہے کہ جدید تعلیم کے جنون نے مسلمانوں کو ایسا دیوانہ بنا دیا ہے کہ بچیوں کو تعلیم اس لئے دی جا رہی ہے کہ وہ خود اپنے پیروں پر کھڑی ہوجائیں اور شادی کے بعد اپنے شوہر کی محتاج نہ رہیں۔غورفرمائیے جب شروع ہی سے یہ ذہن بنایا جارہا ہے کہ شوہر کی اطاعت اورغلامی نہیں کرنی ہے تو ایسی لڑکیاں اچھی بیویاں کیسے ہو سکتی ہیں ؟ 
    حضرت اُم سلمہؓ روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا:جس عورت کو اس حال میں موت آئی کہ اُس کا شوہر اُس سے راضی اور خوش تھا تو وہ جنت میں داخل ہو گئی۔(ترمذی)
     اپنی پسند کی زندگی بسر کرنے اور اپنے حسن و شباب کو قائم رکھنے کا شوق، بچوں کی پرورش و پرداخت اور تربیت سے اکتاہٹ، کراہیت اور نفرت پیدا کر رہا ہے۔ ایسی لڑکیاں اچھی مائیں کیسے بن سکتی ہیں۔ ایسی خود غرض، ہوس پرست، دولت اور عیش و عشرت کی لالچی لڑکیاں جب بوڑھی ہو جائیں گی تو خاندان اورگھر والوں کو اُن سے کیا محبت اورہمدردی ہوگی جو اُن کی خدمت کریں گے ؟  گویا موجودہ انسانی معاشرے کی بدنصیب عورتیں خود اپنے گھروں میں اپنی حماقت اور نادانی سے آگ لگا رہی ہیں اور اس کی جلن محسوس کررہی ہیں،پھر بھی سدھرنے اور شریعت کی پیروی کرنے اور سیدھی راہ پر چلنے کے لئے آمادہ نہیں ہیں۔
    علامہ اکبرؔ الٰہ آبادی اور علامہ اقبال فرماتے ہیں:
بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں 
اکبرؔ زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو اُن سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا
حامدہ چمکی نہ تھی انگلش سے جب بیگانہ تھی
اب ہے شمع انجمن پہلے چراغ خانہ تھی

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

02اکتوبر2021(ادارہ فکروخبربھٹکل)

 

«
»

بنگال کے انتخابات ۔۔۔۔یوپی الیکشن کا پیش خیمہ ثابت ہو!!

دنیا کے خسارے سے بچنے اور نفع عظیم حاصل کرنے کا قرآنی نسخہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے