اک طرف محبت ہے اک طرف زمانہ ہے

    قسط اول

 

   عبداللہ غازیؔ ندوی(مدیر ماہ نامہ پھول بھٹکل)

 

جب ہفتے بھر کے یاد گار اور خوش گوار سفر سے لوٹ کر اسی لمحے ادب اطفال بھٹکل کے کاروان نوبہار کے ساتھ دکن کی جانب رخت سفر باندھا تو میرے کئی دوستوں نے ازراہِ مذاق اور بعض نے ورطہءِ حیرت میں استفسار کیا کہ نئی نویلی دلہن کو چھوڑے کہاں نکل پڑے! اس جرات رندانہ کا ارتکاب کیوں کر ممکن ہوا اور ہجر کی پہلی رات میں نیند کا کیا عالم ہے؟

ہائے میرے اللہ! وفا شعار رفیق حیات اور اطاعت گزار ہم سفر کی جدائی بھی کس قدر غمگین ہے،جیون ساتھی سے کچھ لمحے کی جدائی کے تصور سے بھی ذہن و روح کانپ جاتے ہیں،اس کی پیشانی پر شکن کے آثار بھی ناقابل برداشت ہوتے ہیں۔شاعر کی زبانی:

تم نہیں پاس کوئی پاس نہیں

اب مجھے زندگی کی آس نہیں

مرزا اسداللہ خاں غالبؔ کی زبانی ہماری کیفیت کا انداہ اس سے لگائیے کہ:

رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھیے تھمے

نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں

نیند اور پھر ہجر کی رات؟

 

آخر کیسے !

بھلا ہجر کی رات کا ستم کون جانے! جدائی کے ان لمحات کا احساس کسی کو کیوں کر ہو!

مہینے وصل کے گھڑیوں کی صورت اڑتے جاتے ہیں

مگر گھڑیاں جدائی کی گزرتی ہیں مہینوں میں

 

لیکن کیا کریں !

 

سوچ میں ہے دیوانا کس کی سمت جانا ہے

اک طرف محبت ہے اک طرف زمانہ ہے

اور یہ کہ

اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا

راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

اللہ میاں کا کس قدر احسان ہے کہ اللہ نے مجھے تربیت یافتہ، اور مشرقی مزاج بلکہ دینی مزاج سے آشنا شریک حیات عطا کی۔جس کومحبت کا پاس بھی ہے اور فرض کا احساس بھی۔خاوند کی اطاعت گزاری کے ساتھ دعوت و تحریک کی پاسداری بھی ہے۔جس کے خون کے قطرے قطرے میں حمیت دینی اور عشق ایمانی کا شعلہ جوالہ ہے۔

ان ہی صفات کی وجہ سے یہ  سفر ممکن ہوا،ورنہ ہجر کی ان راتوں کو کون پسند کرے اور جدائی کے ان درد ناک نغموں کو کون گائے!

محبوب کبریاؐ کا قول کتنا پیارا اور کس قدر پاکیزہ ہے:

”وَخَيْرُ مَتَاعِ الدُّنْيَا الْمَرْأَةُ الصَّالِحَة“

اقبال مرحوم نے شاید اسی قول کی ترجمانی کی ہے:

وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ

اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ درُوں

مجھے ریل گاڑی پر نہ جانے اخترؔ شیرانی کے یہ اشعار کیوں یاد آرہے تھے:

عشق کا موسم ، غم کی ہوائیں ، اف ری جوانی ہائے زمانے

دل میں تمنا ، لب پہ دعائیں ، اف ری جوانی ہائے زمانے

یاروں کا گہری نیند میں سونا ، دل کا کسی کی یاد میں کھونا

شوق کی یہ ضد سب کو جگائیں ، اف ری جوانی ہائے زمانے

یاد میں آنسو بہتے ہیں اخترؔ، کھوئے ہوئے سے رہتے ہیں اکثر

دل سے سمے وہ کیسے بھلائیں ، اف ری جوانی ہائے زمانے

 

خیر!  تڑپتی تڑپاتی،یادوں کے جلوے بکھیرتی اور قیامت کا سا  منظر دکھاتی یہ بھیانک رات بیت گئی۔

فراق یار نے بے چین مجھ کو رات بھر رکھا

کبھی تکیہ ادھر رکھا کبھی تکیہ ادھر رکھا

آئیے! اب عشق و مستی اور محبوب کی زلفوں سے نکل کر حیدرآباد دکن کی گلی کوچوں کا رخ کرتے ہیں،نوابوں کی بلند بالا کوٹھیوں سے ہوکر ادب کے نگار خانوں کی طرف بڑھتے ہیں،چار مینار کے ہنگاموں سے بچ کر سنجیدہ اور باوقار لوگوں کی قدم بوسی کا شرف حاصل کرتے ہیں۔

یہ بات ادب اطفال کے ہر شیدائی کے لیے خوش آیند ہے کہ  بچوں کے ادب کے لیے حیدرآباد کی سرزمین انتہائی سرخیز بن رہی ہے،جس سے بچوں کے ادباء کے دلوں میں امید کی کرنیں فروزاں ہورہی ہیں اور آنے والے دور کی دھندلی سی تصویریں ابھی سے نظر آرہی ہیں۔اسی سلسلے میں ہمارا یہ سفر دوماہ پہلے سے طے تھا اور ہمارے میزبان مفتی احسان صاحب اور وفاق المکاتب کے متحرک اراکین نگاہیں فرش راہ کی ہوئی تھیں۔

پہلے دن حج ہاٶس کی چوتھی منزل میں ” عصر حاضر میں ادب اطفال کی اہمیت“ پر تلنگانہ اردو اکیڈمی کا اجلاس منعقد ہوا،اجلاس میں شہر کے چیدہ و چنیدہ مندوبین تھے اور سب اس فکر سے سرشار ہوکر آئے تھے کہ ادب اطفال کی ترویج و ترقی کیسے ہو اور ادب اطفال کے ذریعے تعلیم و تربیت کا مشن کیسے عام ہو!

ملت کی تعمیر کا جذبہ سینے میں روشن کیےاور دل درد مند کے حامل اکیڈمی کے ڈائریکٹر جناب ڈاکٹر محمد غوث صاحب اور شاعر خوش نوا و مدیر ”روشن ستارے“ جناب سردار سلیم صاحب پھر ان کے ساتھ ہمارے کرم فرما ڈاکٹر مختار فردین صاحب اجلاس کو کامیاب بنانے میں مصروف تھے اور ہم ان کو دیکھ کر بے انتہا مسرور۔

اجلاس میں ہم نے اور ہمارے ساتھیوں نے ادب اطفال کی موجودہ صورتحال کا احاطہ کیا ،اس کو درپیش مسائل کی طرف توجہ دلائی اور کچھ عملی کام کی طرف بھی اکیڈمی و ذمہ داران کی توجہ مبذول کی۔اس محفل میں علم و ادب کی معروف شخصیت مولانا عبدالمتین منیری صاحب نے بھی اپنے مفید مشوروں سے نوزا۔ادارہ ادب اطفال کے صدر ڈاکٹر عبدالحمید اطہر ندوی اور مولانا سمعان خلیفہ ندوی سے بھی مہمانان محظوظ ہوئے۔

تلنگانہ اکیڈمی سے نکلنے والے بچوں کے رسالے”روشن ستارے“ اور ماہنامہ ”پھول“ بھٹکل کا یہ ایک حسین سنگم تھا اور یہ ہم سب کے لیےایک یاد گار شام تھی۔

اکیڈمی میں ڈائیریکٹر صاحب نے پُرتکلف ظہرانے کا اہتمام کیا تھا اور ان کی محبت کا یہ عالم تھا کہ وہ بوٹیاں نکال نکال کر ہمیں کھلارہے تھے اور پھر شاہی ٹکڑوں سے ظہرانے کا لطف دوبالا  کررہے تھے۔اتنے بڑے سرکاری عہدے پر رہ کر بھی اس قدر تواضع اور علماء و اہل علم سے ان کی محبت اس نفسا نفسی کے دور میں نایاب نہیں تو کم یاب ضرور ہے۔

اب ہم اردو اکیڈمی سے نکلتے ہیں اور سفر کے اگلے مراحل طے کرتے ہیں۔

(جاری)

«
»

بنگال کے انتخابات ۔۔۔۔یوپی الیکشن کا پیش خیمہ ثابت ہو!!

دنیا کے خسارے سے بچنے اور نفع عظیم حاصل کرنے کا قرآنی نسخہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے