یوپی کا الکشن اور مسلمانوں کا آپشن!

نقی احمد ندوی

سیاست  سے آپ کی زندگی بنتی اور بدلتی ہے، اگر آپ سیاست میں حصہ نہ لیں، پھر بھی سیاست آپ کی زندگی میں حصہ لیتی ہے اور زندگی کے ہر شعبہ کا فیصلہ کرتی ہے۔ مسلمانوں کی سیاسی زندگی ختم ہوچکی ہے، اس کا ثبوت یہ ہیکہ مسلمانوں کے ووٹ کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ سیاست نے ایسا کھیل کھیلا ہے کہ آپ کی حیثیت کوڑے کے کاغذ جیسی ہوچکی ہے۔ اس میں اگر کسی کو شک ہے تو اسے علاج کی ضرورت ہے۔ 
یوپی کا الکشن اور مسلمانوں کا رول انکے مستقبل پر بہت گہرے اثرات مرتب کریں گے۔ سوال یہ ہیکہ مسلمان کیا کریں؟  اگر میں کوئی آپشن بتا دوں تو یوپی کے سارے مسلمان اس پر نہ تو عمل کریں گے اور نہ ہی یہ ممکن ہے۔ مگر چند حقائق بیان کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ دو راستے ہیں، ایک یہ کہ سیکولر طاقتوں کوووٹ دیکر اپنے ووٹوں کی قیمت بتائی جاے، دوسرا راستہ یہ ہیکہ مسلمانوں کی جو بھی چھوٹی پارٹیا ں میدان میں موجود ہیں انکو ووٹ دیا جاے۔ میرے خیال سے پہلا آپشن وقتی فائدہ کا حامل ہے، آپ کے ووٹ سے ہوسکتا ہے کہ سیکولر حکومت بن جاے جو موجودہ حالات میں مشکل ہی نظر آرہا ہے، مگر ایک بات تو طے ہے کہ گذشتہ پچھتر سال اس بات کا  واضح ثبوت ہیں کہ کوئی بھی پارٹی اقتدار میں ہو، مسلمانوں کے مسائل سے انھیں کوئی دلچسپی نہیں، اگر دلچسپی ہوتی تو آج مسلمانوں کے حالات بہتر ہوتے۔ اگر سیکولر پارٹی کوووٹ دینا ہمارے حق میں بہتر ہے تو آج تک ہمارے حالات بہتر ہوگیے ہوتے، کہاجاتا ہے کہ ماضی سے سبق لیں، ماضی نے تو یہ ثابت کردیا ہے کہ سیکولر پارٹیاں ہمار اا ستحصال کرتی آرہی ہیں، ماضی اور تاریخ سے سبق لینے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ہزار سال کی تاریخ کے اوراق کھنگالیں، بلکہ جو آپ کی سامنے ماضی میں ہوا ہے اس سے سبق لیجیے، اگر آج بھی کسی سیکولر دانشور کو سیکولر پارٹی کوووٹ دینے کی ضد ہے تو میرے خیال میں وہ مومن نہیں ہے، کیونکہ مومن ایک سوراخ سے دوبار ڈسا نہیں جاتا۔ مسلم ہوسکتے ہیں اس کے لیے بس کلمہ کی شرط ہے، مگرہم سیکولرزم کے نام اپنی عزت، اپنا مفاد اور اپنی آبرو ہر الکشن میں بیچتے آے ہیں،  جہاں تک دوسرے آپشن کی بات ہے، تو یہ طویل المدتی پلان ہے، آج ہوسکتا ہے کہ آپ کسی مسلمان پارٹی کو ووٹ دیں اور وہ نہ جیت سکے، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ جیت جایں مگر حکومت کسی اور کی ہو تو وہ آپ کے مسائل کے حل کرنے اور آپ کے علاقہ میں ڈبلوپمنٹ کا کام کرنے میں اس طرح  ممد ومعاون ثابت نہ ہوں جس طرح دوسری پارٹیوں کے جیتے ہوے ممبران، مگر اس کا دور رس فائدہ یہ ہے، آج جس مسلم پارٹی کو آپ ووٹ دے رہے ہیں کل وہی  پارٹی دھیرے دھیرے بڑی ہوگی، اگر شروع میں اس کا سپورٹ نہیں کرتے اور یہ امید کرتے ہیں کہ کوئی مسلم پارٹی نیشنل پیمانہ کی سامنے آجائے تو یہ حماقت ہے،  بی جے پی ابھی ہندوستان کی سب سے بڑی پارٹی ہے، یاد کیجیے کہ اسمبلی اور لوک سبھا میں آج سے چالیس سال پہلے اس کی کتنی سیٹیں آیا کرتی تھیں۔  
ایک سوال یہ بھی ذہن میں آتا ہے کہ ہم مسلمانوں کو سیکولر رہنا چاہیے، سیکولر رہنا تو بہت اچھی بات ہے یہی تو ہمار آیئن سکھاتا ہے، مگر سیکولر رہنے کا یہ مطلب نہیں کہ ہم بے حیثیت ہوجایں۔ سیکولر ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اپنی قوم کی بات نہ کریں اور اسکا مفاد نہ دیکھیں۔ ہر قوم کو ہمارے آئین نے ووٹ کا اور اپنے مفادات کے تحفظ کا حق دیا ہے، اگر آپ اسکا استعمال نہیں کرتے تو غلطی آپ کی ہے۔ ویسے تو یوپی کے مسلمانوں کے حالات سب سے زیادہ خراب ہیں اور بدقسمتی سے سب سے زیا دہ آبادی بھی یوپی ہی میں مسلمانوں کی ہے، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ یوپی کے مسلمان اپنے ذاتی مفاد کو قوم کے مفاد پر ترجیح دیتے ہیں، اور جب مار پڑتی ہے تو دوسروں کو الزام دیتے ہیں، یاد  رکھیے ہر قوم اپنی بربادی کی خود ذمہ دار ہے، بہرحال آپ جتنے بھی آی اے ایس، اور گورمنٹ کے اہل کار پیدا کرلیں، اگر اسمبلی میں آپ کے مفاد کی حفاظت کرنے والے موجود نہیں ہیں تو آپ کی پریشانیا ں جوں کی توں باقی رہیں گی۔ آپ یہ کہ سکتے ہیں کہ جناب والا، دوچار سیٹوں سے ہوگا کیا؟ مسلمانوں کی دوچار سیٹیں کچھ نہیں کرسکتیں، تو آپ یہ ذہن میں رکھیں کہ رام ولاس پاسبان نے تقریبا چالیس سال ہر حکومت میں منسٹری حاصل کی تھی اور وہ بھی صرف دوچار ایم پی کی بنیاد پر، اگر مسلمانوں کی کوئی پارٹی صرف چند سیٹیں لاتی ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ بیکار ہیں، کبھی نہ کبھی آپ کنگ میکر کی حیثیت میں آہی جایں گے۔ اس وقت آپ کو اپنی اہمیت کا اندازہ ہوگا۔ 
اہل یوپی کے پاس صرف ایک آپشن ہے کہ وہ سیکولر پاڑٹیوں کا دامن تھامنے کے بجاے مسلم پارٹیوں کو ووٹ دیں، اگر وہاں کے مسلمان اس بات کو سمجھ لیتے ہیں کہ چاہے ہماری چند سیٹیں ہوں مگر ہم مسلم پارٹی ہی کو ووٹ دیں گے، تو اگلی چند دہایوں مین گیم بدل سکتا ہے، اس لیے یہ طویل المدتی پلان کہاجاسکتا ہے۔ 
سوال یہ ہیکہ ہم کس کو ووٹ دیں، میں کسی ایک پارٹی کا حامی نہیں، اگر ایم آی ایم جیتنے کی پوزیشن میں ہے تو اس کو بھی ووٹ دیا جاسکتا ہے، یہ  الزام کہ وہ بی جے پی کا ایجنٹ ہے، اس حقیقت سے قطع نظر صرف آپ یہ بتایں کہ جب آپ پچھتر سال ان سیکولر پارٹیوں کو آزما سکتے ہیں جنھوں نے آپ کے لیے کچھ نہیں کیا، تو ایک مسلم پارٹی کو صرف دو الکشن میں کیوں نہیں آزما سکتے،  اسی طرح دوسری مسلم پارٹیاں جوبھی ہیں صرف انکو ووٹ دیا جاسکتا ہے۔ 
مگرطویل المدتی پلان کے تحت ہمیں کسی ایسی پارٹی کے بارے میں سوچنا چاہیے جس کے اندر خاندانی موروثیت نہ ہو، جو کسی ایک علاقہ تک محدود نہ  ہو اور جس پارٹی کے تنظیمی ڈھانچہ میں بھی جمہوریت پوری طرح موجود ہو، اگر کوئی ایسی پارٹی سامنے آتی ہے، تو میرے خیال میں ایسی پارٹی کے لیے کام کرنا اور ایسی پارٹی کو سپورٹ کرنا جو ہمارے مفادات کی حامل ہو، آپ کے طویل المدتی پلان کا ایک بہتر حصہ ہوسکتا ہے، اب یہ آپ کے اوپر ہے کہ کون سی مسلمانوں کی ایسی پارٹی ہے جس کے اندر ایسی ساری خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ عوام کی بھیڑ ہمیشہ بھیڑ ہوتی ہے، اسکو ڈایرکشن ہر علاقہ کے پڑھے لکھے لوگ دیتے ہیں۔ اگر آپ پڑھے لکھے خود کو تصور کرتے ہیں تو ایسی پارٹی کے بارے پتہ لگائیں، اسکو سپورٹ کریں، اور ایک نئے دور کا آغاز کریں۔ 

مضمون  نگار کی رائےسے ادارہ کامتفق ہوناضروری نہیں ہے

«
»

پہلا شہید صحافی۔۔۔علامہ محمد باقر مجتہد جعفری

آہ! استاذ محترم حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمیؒ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے