آزادی کے74سا ل پر ایک نظر

 عارف عزیز(بھوپال)

    آزادی کی سالگرہ ہم گذشتہ74 برسوں سے ایک قومی تہوار کی صورت میں منارہے ہیں ہماری قومی زندگی میں 15/اگست کا یہ دن کافی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس کے وسیلہ سے جہاں ہمیں اپنے اسلاف کی قربانیوں کو یاد کرنے کا موقع ملتا ہے وہیں کامیابی وکامرانی کی شاہراہ پر آگے بڑھنے کے لئے نیا جوش اور ولولہ بھی حاصل ہوتا ہے، ساتھ ہی ہم اس بات کا جائزہ لے سکتے ہیں کہ  آزادی کی بنیادی ضرورتوں یعنی اتحاد ویک جہتی،سماجی خوشحالی اور اقتصادی ترقی میں اپنی ذمہ داری کس حد تک نبھا سکے ہیں۔
    آزادی کے ان برسوں میں ہم نے زندگی کے مختلف میدانوں میں وہ قابل ذکرکامیابیاں حاصل کی ہیں جن پر بجا طور سے فخر کیاجاسکتا ہے لیکن ہماری ناکامیوں اور کمزوریوں کی فہرست بھی کم طویل نہیں اور جب اس پر نظر ڈالی جاتی ہے تو فطری طورپر ہمارا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔
    آج ہمیں یہ اعتراف کرنے میں قطعی جھجک نہیں ہونا چاہئے کہ آزادی کی۴۷ برسوں میں ہمارے اندر قومی شعور پیدا نہ ہوسکا، ہم فرقوں ذاتوں علاقوں اور زبانوں کی بنیاد پر سوچتے اور اپنا رویہ متعین کرتے ہیں۔ شمال مشرق کی ریاستوں آسام، ناگالینڈ، منی پور وغیرہ میں تشدد کے مظاہرے، کشمیر میں آگ وخون کا کھیل، گجرات میں نفرت وتعصب کا ابھار، بہار، بنگال، مدھیہ پردیش اور آندھراپردیش کے قبائلی علاقوں میں نکسلی تحریک کے عمل دخل کے ساتھ ساتھ جہیزکے لئے بہوؤں کو زندہ جلا دینا، تمام تر ترقیات کے باوجود بے روزگاری، بدامنی اور بدعنوانی کا دور دورہ اور ہمارے رہنماؤں کا یہ کہنا کہ ملک میں تشدد کو باہر سے مدد مل رہی ہے، پوری قوم کو اپنے گریباں میں جھانکنے اور اپنا جائزہ لینے پر مجبورکرتا ہے۔ 
    آزادی کے74 برسوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ملک کی اقلیتیں خود کو سب سے زیادہ غیرمحفوظ سمجھ رہی ہیں، انہیں آزادی کی سات دہائیاں گزر جانے کے باوجود اپنی مذہبی، تہذیبی اور لسانی شناخت کے تحفظ کے بارے میں غیرمعمولی خطرات لاحق ہیں، یہ کسی جمہوری ملک کے لئے اچھی علامت نہیں، نہ کسی آزاد قوم کے شایانِ شان ہے بلکہ ایسی مثالوں سے بحیثیت قوم ہماری کمزوری کا اظہار ہوتا ہے اگر ہم اپنی ان کمزوری کو دور نہ کرسکے تو مستقبل میں ایک قوم کی شکل میں ہمارا متحد رہنا دشوار ہوجائے گا۔
    دوسرا تشویشناک پہلو یہ ہے کہ ہمارے یہاں کی سیاسی جماعتیں ان مسائل کو حل کرنے کے بجائے صرف اقتدار کی روشنی میں دیکھتی ہیں اور بیشتر کا حال تو یہ ہے کہ وہ مسئلوں کوحل کرنے سے زیادہ ان کا فائدہ اٹھانے پر یقین رکھتی ہیں جس کی وجہ سے74 برسوں میں عام آدمی کی مشکلات کا حجم برابر بڑھتا جارہا ہے۔ تاہم روز افزوں تشددہو یا زندگی کے دوسرے مصائب ومشکلات ان سے پریشان ہونا نہیں چاہے کیونکہ ابتلاء وآزمائش کے مراحل سے وہی گزرتے ہیں جو زندگی کے لئے جدوجہد میں سرگرم رہتے ہیں اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانے کے بجائے کچھ کرکے دکھانے پریقین رکھتے ہیں۔ 
    آزادی بلاشبہ ایک نعمت ہے لیکن اسی وقت جب ملک کا ہر شہری اس کے فوائد سے بہرہ ور ہو اور کسی ایک فرد یا طبقہ کو آزادی کی نعمتوں سے محروم کردیاجائے تو ایسی آزادی کو کیسے نعمت کہاجاسکتا ہے لہذا ۵۱/اگست کو آزادی کی سالگرہ مناتے ہوئے لال قلعہ پر ترنگا لہرادینا یاوزیراعظم کی تقریر سن لینا ہی کافی نہیں ہوگا بلکہ اس سے کہیں زیادہ اہم اور ضروری یہ ہوگا کہ خوشی ومسرت کے اس دن کو ہم ”یوم احتساب“ کے طور پر منائیں اور74  سالہ کارگزاری کا جائزہ لینے کے بعد یہ عہد کریں کہ ہم اپنے کردار وعمل سے آزادی کی بہر صورت حفاظت کریں گے اور اس برائی کے خلاف سینہ سپر ہوجائیں گے جو آزادی کی روح کو مضمحل کرنے والی ہو یہی یوم آزادی منانے کا حاصل اور آزادی کا مقصود ہونا چاہئے

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

«
»

جناب عبداللہ صاحب کی کچھ یادیں

مساجد کے ذمہ داران ملی مسائل کے بھی ذمہ دار ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے