مولانا مدنی کی آر ایس ایس چیف سے ملاقات مستحسن مگر۔۔۔۔۔۔

ظہیر الدین صدیقی اورنگ آباد  

    31/ اگسٹ سنیچر کو سوشل میڈیا پر جب یہ خبر آئی کہ جمیعت علماء کے صدر نشین حضرت مولانا ارشد مدنی نے آر ایس یس چیف موہن بھاگوت سے طویل ملاقات کی تو ہم نے سوشل میڈیا کی خبروں پر یکلخت اعتبار نہ کرنے کی ہماری فطرت کے مطابق بہتر سمجھا کہ اس بات کی تصدیق ہونے تک اس پر کوئی رائے قائم نہ کی جائے۔ مگر اس خبر کی سچائی جاننے کے لئے طبیعت بے چین رہی۔ دوسرے ہی دن اتوار کو دہلی کے کچھ اخباروں نے اس خبر کی تصدیق کر دی مگر جمیعت علماء ہند کی جانب سے کوئی با ضابطہ صحافتی بیان جاری نہیں کیا گیا، حالانکہ جمیعت اپنے ہر کام کی تشہیر کے لئے چھوٹے چھوٹے واقعات پر صحافتی بیان جاری کر تی رہتی ہے۔ پھر اتنی اہم ملاقات کو خفیہ رکھنے کے پیچھے جمیعت کی  حکمت عملی سمجھ سے بالا تر ہے۔ ظاہر ہے مولانا اپنے کسی ذاتی مسئلہ پر رائے مشورہ کرنے تو نہیں گئے ہوں گے۔ دیڑھ گھنٹہ طویل اس ملاقات میں جس کا دعوت نامہ آر ایس ایس کی طرف سے آیا تھا یقینا ہندوستان کی موجودہ صورتحال پر ہی گفتگو ہوئی ہوگی۔جس میں مولانا نے اس ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو لاحق خطرات پر تشویش کا اظہار کیا ہوگا، ہندوؤں اور مسلمانوں کے بیچ فرقہ وارانہ خطوط پر بڑھتی ہوئی خلیج کو پاٹنے کی بات کی ہوگی، ملک کی سالمیت، استحکام اور ترقی کی بات ہوئی ہوگی، ہندو شدت پسندوں پر لگام کسنے کی بات کی ہوگی۔ اور یہ پیغام دیا ہوگا کہ اسلام امن و آشتی کا مذہب ہے اور اس ملک میں مسلمان امن اور شانتی کے ساتھ فرقہ وارانہ ہم اہنگی کو بر قرار رکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس کے جواب میں شری موہن بھاگوت کا کیا رد عمل رہا،عوام میں اس بات کو لیکر تجسس باقی  ہے، بہتر ہوتا کہ مولانا کی طرف سے اس ملاقات کی تفصیل سامنے آجاتی۔ دراصل ملک کے موجودہ حالات میں اس بات کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی تھی کہ اب مسلمانوں کو ارباب اقتدار سے دو ٹوک بات کرنی چاہیے۔ راقم الحروف نے ماہ جولائی میں ایک مضمون لکھا تھا ”مسلم نمائندہ وفد کو ارباب حکومت سے گفتگو کرنی چاہیے“۔ اس میں ہم نے یہ بھی لکھا تھا کہ ملاقاتوں کا آغاز آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت سے ہی کیا جائے۔ لیکن یہ سوال اس وقت بھی ہمارے ذہن میں تھا کہ نمائندہ وفد کن افراد پر مشتمل ہوگا؟ اس کی قیادت کون کرے گا؟ چنانچہ ہم نے اکابرین اُمّت سے درخواست کی تھی کہ وہ آپسی صلاح مشورے سے یہ طئے کریں کہ نمائندہ وفد میں کون کون شامل ہوں۔ شائد ہمارے اکابرین ابھی اس بات پر غور ہی کر رہے ہیں کہ نمائندہ وفد کو ارباب حکومت سے ملنا چاہیے یا نہیں؟ ملنے پر ملّت کا رد عمل کیا ہوگا؟ اور حکومت کا رویہ کیا ہوگا؟ ہمارے ذہنوں میں ان سوالات کا اٹھنا اس لئے بھی فطری ہے کہ ہم نے آج تک بی جے پی کو محض ایک سیاسی پارٹی نہ سمجھتے ہوئے اس کو ہمیشہ سے ہی ایک مسلم دشمن پارٹی سمجھتے رہے، اور گذشتہ کئی دہائیوں سے بی جے پی کو ہرانے والوں کو ووٹ دینے کی خود کش پالیسی پر عمل پیرا رہے۔ نتیجہ میں بی جے پی کو اقتدار میں آنے سے روک تو نہیں سکے لیکن سیاسی طور پر ہم خود حاشیہ پر پہنچ گئے، آج کوئی سیاسی جماعت مسلمانوں کی بات کرنا نہیں چاہتی کیونکہ سیاست کے بازار میں مسلمان کھوٹا سکہ بن کر رہ گئے ہیں، سکہ رائج الوقت تو وہ ہوتا ہے جس کی قدر و منزلت فی زمانہ باقی ہو۔ آج نام نہاد سیکولر پارٹیاں بھی مسلمانوں کا نام لینے سے کترا رہی ہیں۔ ان کا سیکولر ازم دن بدن برہنہ ہوتا جارہا ہے۔ اور ہمارا معاملہ نہ خدا ہی ملا نہ وصا ل صنم، نہ اِدھر کے رہیں نہ اُدھر کے ہم جیسا ہو کر رہ گیا ہے۔ آج نام نہاد سیکولر پارٹیوں کو اپنا وجود ہی برقرار رکھنا مشکل ہو گیا ہے، تنزلی ان کا مقدر بن چکی ہے، آئے دن اُن کے قد آورلیڈر بی جے پی کا دامن تھام رہے ہیں۔ یعنی جن پر تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے۔ان حالات اور پس منظر میں مولانا ارشد مدنی نے نہایت جرات مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جو اقدام اٹھایا ہے وہ واقعی قابل تحسین ہے جس کا ہر لحاض سے خیر مقدم کیا جانا چاہیے۔ سہارن پور کے دانشوروں اور مختلف اداروں کے سربراہوں نے اس ملاقات کو ملک و ملّت کے مفاد میں اٹھایا گیا مثبت قدم قرار دیا، مسلم مجلس مشاورت کے صدر نوید حامد نے مولانا ارشد مدنی کے جذبہ کو سراہتے ہوئے اسے ایک تاریخی قدم قرار دیا، انہوں نے کہا کہ مولانا ارشد مدنی صاحب نے وہی کیا جو اسلام کا پیغام ہے، گفت و شنید کے راستے کبھی بند نہیں ہونے چاہیے، مولانا نے یہ پیغام دیا کہ ملک کی سالمیت اور امن و امان کے لئے وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔ کچھ لوگوں کو اس ملاقات پر اعتراض اس لئے ہو سکتا ہیکہ اُن کے ذہن ابھی کشادہ نہیں ہوئے ہیں، وہ ابھی بھی سیکولرازم کے سحر سے خود کو آزاد نہیں کر پا رہے ہیں۔ چنانچہ ہر چیز کو ایک ہی زاویہ سے دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں۔یہ وہی تنگ نظر لوگ ہیں جو اس ملاقات کو خود سپردگی اور دبکی نامہ سے تعبیر کر رہے ہیں۔ ماضی میں بھی اس طرح کے تجربات انہی لوگوں کی وجہ سے اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچ سکے۔ ایمرجنسی کے دوران جماعت اسلامی ہند اور آر ایس ایس کے ذمہ داروں کو ایک دوسرے کے قریب آنے اور مذاکرات کا موقع ملا تھا جو بعد میں بھی کچھ عرصہ تک جاری رہا، اس سے امید تھی کہ مسلمانوں کے تعلق سے آر ایس ایس کی غلط فہمیوں کا ازالہ ہوگا۔ مگر اس کے خلاف اس وقت کی بعض جماعتوں نے، اور نام نہاد سیکولرسٹوں نے مخالف پروپیگنڈہ مہم چلائی جس کے نتیجہ میں یہ سلسلہ بند ہوگیا اور ہندو مسلم خلیج میں اضافہ ہوتا چلاگیا۔ اب ایک طویل عرصہ کے بعد یہ سلسلہ شروع ہوا ہے تو اسے جاری رہنا چاہیے اور آر ایس ایس کے ساتھ ساتھ بی جے پی قائدین اور ارباب حکومت سے بھی گفتگو ہونی چاہیے۔ مسلمان اس ملک کا اٹوٹ حصہ ہیں اور رہیں گے، اس ملک پر ہمارا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا دیگر اقوام کا، تو پھر حکومت سے گفتگو میں اعراض کیوں؟۔ملک کی پارلمنٹ میں پوری اکثریت حاصل ہونے کے باوجود جب تک اس ملک میں دستور ہند قائم ہے حکومت بھارت کے تیس کروڑ مسلمانوں کو یوں ہی نظر انداز نہیں کرسکتی، مگر اس کے لئے ہمیں بھی اپنے دستوری حقوق کی بازیابی کے لئے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے اور اس کی ایک شکل باہمی گفتگو ہے۔ کچھ غلط فہمیاں اور کچھ بد گمانیاں ہیں جنہیں آپسی گفت و شنید کے ذریعہ ہی دور کیا جاسکتاہے۔ کچھ حقائقاور کچھ نظریاتی اختلافات ہیں جن کے سد باب کی کوشش بھی اسی راہ سے ممکن ہے۔ مگرکسی شخص واحد پر یہ ذمہ داری ڈالی نہیں جاسکتی۔ اس کے لئے لازمی ہے کہ مسلمان اکابرین سر جوڑ کر بیٹھیں اور کوئی لائحہ عمل طئے کریں۔ اس موقع سے ہم مولانا ارشد مدنی سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ کیا ہی اچھا ہوتا کہ مولانا ارشد مدنی تن تنہا اس مہم پر نکلنے کے بجائے مختلف مسالک اور مکاتب فکر کے چنندہ افراد، کچھ دانشور اور کچھ سماجی خدمتگاروں کا ایک نمائندہ وفد تشکیل دیتے، ا س ملاقات کا ایک ایجنڈا ترتیب دیا جاتا، کوئی منصوبہ اور لائحہ عمل طئے کرتے اور اس طرح ایک وفد کی شکل میں مسلمانوں کی نمائندگی کرتے تو شائد اس ملاقات کو یوں مخفی رکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اب بھی وقت ہے کہ مولانا اپنی پہلی ملاقات کے تجربات و احساسات کو مد نظر رکھتے ہوئے اگلی ملاقات سے قبل اپنی قیادت میں ایک نمائندہ وفد تشکیل دیں اورایک متعین ایجنڈے کے تحت آر ایس ایس چیف کے علاوہ ارباب حکومت سے بھی ملاقاتیں کر کے بھارتی مسلمانوں کی نمائندگی کا حق ادا کریں کہ یہ آج وقت کی ضرورت بھی ہے اور تقاضہ بھی۔ 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

02ستمبر2019(فکروخبر)

«
»

رویش کمار کے ویڈیو، ناگپور کی ریلی اور گوتم گمبھیر کے ٹوئٹ کا سچ

قندیل اثاثہ ہے ، اثاثہ جو میں سمجھوں !

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے