ملک کے متزلزل حالات ہمیں اپنے ایمان کا جائزہ لینے کی دعوت دے رہے ہیں

منبر و محراب فاؤنڈیشن انڈیا کے بانی غیاث احمد رشادی کا صحافتی بیان

 
اس ملک کے مسلمانوں کو اگر اپنے ہی ملک میں فلاح و کامرانی، امن و سلامتی اور نجات وغلبہ کے ساتھ زندگی بسر کرنے کا مصمم ارادہ اورپختہ عزم ہو تو انہیں قرآن مجید کے اس فارمولے پر عمل کرنا ہو گا وہ فارمولہ یہ ہے کہ ہم اپنے ایمان کو مضبوط کریں ، ظاہر ی عبادات ، ظاہری اسلامی شناخت و تشخص اور وضع قطع کے ساتھ ساتھ اپنے دل کو ان ایمانی اوصاف و کیفیا ت سے لبریز رکھنا پڑے گا جن سے ایک مسلمان سچا مومن بن جاتا ہے۔ اسلام کا تعلق مسلمان کے ظاہر اور ایمان کا تعلق مسلمان کے اندرون سے ہے ، اللہ تعالی نے یہ نہیں فر مایا کہ ’’ و انتم الاعلون ان کنتم مسلمین تم ہی غالب رہو گے اگر تم مسلمان ہو ‘‘بلکہ سور ۂ آل عمران کی آیت نمبر ۱۳۹ میں یوں فرمایا و انتم الاعلون ان کنتم مو منین  تم ہی غالب ہو گے اگر تم سچے مومن ہو ، سورۂ محمد کی آیت نمبر ۳۵ میں اللہ تعالی نے فرمایا ’’و انتم الاعلون واللہ معکم تم ہی غالب رہوگے اور اللہ تعالی تمہارے ساتھ ہے ۔‘‘ اگر ہندو ستانی مسلمان حالات کارونا رونے میں مصروف و مبتلا ہو نے کے بجائے اپنی ایمانی کیفیت کو مضبوط بنائیں او رایمان کی مضبوطی کے لئے وہ اوصاف اختیار کریں جن سے ایمان میں پختگی پیدا ہوتی ہے اور وہ صفات اختیار کریں جو مومنوں کے ہوتے ہیں جن کو قرآنِ مجید میں بیان کیاگیا ہے  مولانا غیاث احمد رشادی بانی و محرک  منبرومحراب فاؤنڈیشن انڈیا نے اپنے صحافتی خطاب میں اظہارِخیال کیا اور کہا کہ  ملک میں بدلتے حالات پر تشویش کا اظہار ایک حد تک درست ہے لیکن تشویش کا مسلسل اظہا ر فطری طور پر خوف ودہشت ، گھبراہٹ اور مایوسی دلوں میں پیدا کرتا ہے۔ دورِ رسالت میں جن کا ایمان ابھی مضبوط نہیں تھا اور وہ ایمان کا دعویٰ کرتے تھے انہیں سورۂ حجرات کی آیت نمبر ۱۴ میں یہ ادب سکھلایاگیا کہ وہ ابھی اس موقف میں نہیں ہیں کہ آمنا کہیں وہ صر ف اسلمنا کہنے کے مجاز ہیں۔ اس لئے کہ جب تک ایمان دلوں میں داخل ہوکر راسخ نہیں ہوجاتا اس وقت تک آدمی حقیقی مومن ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔آدمی حقیقی مومن اس وقت تک نہیں بن سکتا جب تک کہ وہ اپنی زندگی کے تمام مسائل میں اللہ اور اسکے رسول ﷺ کی اطاعت نہ کرے  اور اپنی عملی زندگی میں رسول رحمت ﷺ کوحکم تسلیم نہ کرے ، وقت کا تقاضہ ہے کہ ہم نکاح،طلاق ،خلع،وراثت ودیگر اہم تنازعات میں اسلامی دارالقضاء  یا  دارالافتاء سے رجوع ہوں تا کہ ہمارے فیصلے شریعتِ اسلامی کے مطابق ہوں ۔ملک کے متزلزل حالات ہمیں دعوت دے رہے ہیں کہ ہم اپنے ایمان کا جائزہ لیں اور اپنی کمزوریوں اور نقائص پر نظریں دوڑائیں اور اپنے اندر ایمانی صفات جیسے تقویٰ، توکل، انابت الی اللہ، رجوع الی اللہ وغیرہ پیدا کریں۔ اس بات کا حقیقی یقین دلوں میں پیدا کریں کہ جو کچھ ہوتا ہے وہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے۔  ملکی سطح کے عارضی اقتدار کی طاقت سے اس قدر مرعوب نہ ہوں کہ نعوذ باللہ اب معاملہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ سے نکل چکا ہے بلکہ یہ یقین دلوں میں مضبوط ہوجائے کہ جو کچھ ہوا ہے وہ بھی اللہ کے ارادے سے ہوا ہے اور جو کچھ ہوگا وہ بھی اللہ ہی کے ارادے سے ہوگا اور اللہ تعالیٰ کسی ایک ملک کے نہیں بلکہ پوری زمین و آسمان کے خالق بھی ہیں، مالک بھی ہیں اور مختار بھی ہیں اور قدیر و مقتدر بھی ہیں، جس کے ہاتھ میں سب کچھ ہے بندے اسی کی جانب متوجہ ہوں اور اسی کے سامنے حالات رکھیں اور اسی سے عزت، حفاظت، نجات، سلامتی، امن ، غلبہ اور کامیابی مانگیں اور یقین رکھیں کہ رب ذوالجلال مانگنے والوں کو محروم نہیںکرے گا۔ 

«
»

رویش کمار کے ویڈیو، ناگپور کی ریلی اور گوتم گمبھیر کے ٹوئٹ کا سچ

قندیل اثاثہ ہے ، اثاثہ جو میں سمجھوں !

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے