دور درشن پر اردو کی مؤثر نمائندگی وقت کی ضرورت ہے

عارف عزیز(بھوپال)

 ذرائع ابلاغ کی ترقی وترویج نے موجودہ عہد کی سماجی زندگی کو متاثر کیا ہے۔یہ اثرات منفی ومثبت دونوں طرح کے ہیں اور اس کے نتیجہ میں پوری دنیا آج ایک اکائی بن گئی ہے اور انسانی شعور واحساس کو اس نے ایک طرح کی یگانگت عطا کی ہے۔
 ذرائع ابلاغ میں اگرچہ پرنٹ میڈیا شامل ہے لیکن بشری وسمعی مسائل جسے آج کی اصطلاح میں الیکٹرانک میڈیا کہاجاتا ہے اس کا رول کافی اہم ہے اور اسی لئے یہ بات کہی جاسکتی ہے جس زبان یا تہذیب کو اِس میں مناسب نمائندگی نہیں ملے گی آج نہیں تو کل اُس کا رشتہ عام لوگوں سے منقطع ہوجائے گا کوئی ستربرس پہلے سے سنیما کو ہمارے معاشرہ میں اہمیت حاصل ہے اور اس کا ۹۹ فیصد کام اردو زبان میں اور اردو کے قلم کاروں کے ذریعہ ہوتا تھا لیکن آج یہ صورت حال باقی نہیں رہی۔ ریڈیو کے لکھنے والوں پر تو منٹو،کرشن چندر، پطرس، بیدی، راشد، میراجی اور بہت سے اہل قلم شامل تھے مگر تقسیم ملک کے بعد اردو کا حصہ ریڈیو پروگراموں میں بہت ہی کم ہوگیا ہے۔ ۵۶۹۱ء میں آل انڈیا ریڈیو پر ایک اردو سروس شروع ہوئی جس کے پروگرام کافی پسند کئے گئے لیکن یہ سروس کیونکہ پاکستان کے لئے تھی لہذا پنجاب اور ہماچل پردیش کے علاوہ باقی ہندوستان میں اس کے پروگرام صاف نہیں سنائی دیتے تھے،پھر بھی حیدرآباد، ممبئی، لکھنؤ، بھوپال اور پٹنہ  وغیرہ کے ”ادبی میگزین“ پروگراموں نے اردو ادب کی ترویج واشاعت میں اہم حصہ لیا ہے اور ایسے نوآموز قلم کاروں کوآگے بڑھنے کا موقع فراہم کیا جو مستقبل میں اپنے لئے ایک مقام بنا گئے۔ معیاری ناولوں اور افسانوں کو ڈراموں کا روپ دے کر نہ صرف انہیں عام لوگوں تک پہونچایا بلکہ اُن کے لئے ایک بڑا حلقہ بھی پیدا کیا گیا۔
 الیکٹرانک میڈیا کا سب سے طاقتور وسیلہ ٹیلی ویژن ہے جو اپنی روز افزوں ترقی اور پھیلاؤ کے لحاظ سے دیگرذرائع ابلاغ پر آج چھا گیا ہے اور انسانی زندگی ومعاشرہ کو براہ راست متاثر کررہا ہے ٹی وی کی اسی اثرانگیزی اور طاقت کے باعث ضرورت اس بات کی تھی ہندوستان کی سب سے مقبول عام اور شیریں زبان اردو کو اس میں مناسب نمائندگی دی جاتی اور اس کے پروگرام تیار کرنے میں احتیاط کا مظاہرہ ہوتا مگر تجربہ میں یہ بات آرہی ہے کہ آج ٹی وی کا بڑا حصہ یعنی ”دوردرشن“ کے پروگراموں کے لئے ہندی کا ہی استعمال زیادہ ہورہا ہے، جس کا ثبوت وہ اعداد و شمار ہیں جو ہمیں بتاتے ہیں کہ دلی اور ممبئی کے دور درشن پروگراموں میں اردو کا حصہ دو فیصد جالندھر اور لکھنو کے پروگراموں میں ۴ فیصد اور حیدرآبادکے پروگراموں میں ۶ فیصد سے زیادہ نہیں جبکہ پرائیویٹ ٹی وی چینلوں میں اردو کی نمائندگی اس سے کہیں زیادہ ہے ان پروگراموں کی زبان آسان اور اردو الفاظ سے مرصع ہوتی ہے،خبروں کے لئے بھی عام ہندوستانی زبان کا استعمال کیا جاتا ہے اور اسی لئے محدود وسائل کے باوجود اِن کا دائرہ بسرعت بڑھ رہا ہے۔
    بحیثیت مجموعی دوردرشن پر اردو کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔حالانکہ سرکاری کنٹرول والے ٹی وی پریہ ذمہ داری زیادہ عائد ہوتی ہے کہ وہ دیکھے کہ اس ملک میں سبھی زبانوں کو اس کا حق مل رہا ہے یا نہیں خاص طور پراردو جیسی عام اور موثر زبان کا خاطر خواہ استعمال اِس لئے بھی ضروری ہے کہ یہ زبان ملک کے چپہ چپہ میں ہی نہیں خلیجی ممالک سے لیکر یوروپ وامریکہ تک آج بخوبی سمجھی جاتی ہے اور اگر زبان ومعیار کے لحاظ سے دور درشن کے پروگرام کو بہتر نہیں بنایاگیا تویہ رجحان کسی بھی صورت میں قومی مفاد میں نہیں ہوگا۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے

28اگست2019(فکروخبر)

«
»

عاشورہ کا روزہ پچھلے ایک سال کے گناہوں کا کفارہ

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام !!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے