قومی شہری رجسٹربن سکتا ہے حکومت کے گلے کی ہڈی

قومی شہری رجسٹربن سکتا ہے حکومت کے گلے کی ہڈی
کیا واقعی پورے ملک میں این آرسی کانفاذ ہونے والا ہے؟

تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی
        کیا واقعی اب پورے ملک کے لئے قومی شہری رجسٹر یعنی این آرسی کا حکم آنے والا ہے؟ یہ سوال مجھ سے ایک دوست کلیم رضا نے پوچھاجو پڑھے لکھے بھی ہیں مگر عام میڈیا کی خبروں سے زیادہ واٹس ایپ سے آنے والے پیغاموں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ دہلی میں رہنے والے ایک دوسرے دوست شمشاد بھائی تو اس تیاری میں ہیں کہ گاؤں جاکر زمین وجائیداد کے کاغذات لائیں اور اگر کسی کے نام میں اسپیلنگ وغیرہ کی غلطی ہوتو اسے درست کرالیں، انھیں یقین ہے کہ جلد ہی نریندر مودی اور امت شاہ کی جوڑی پورے ملک کے لئے این آرسی لائے گی اور جس طرح سے آسام میں لوگوں کواپنی شہریت ثابت کرنی پڑ رہی ہے،اسی طرح پورے ملک میں کرنی پڑے گی۔ یہ دہشت صرف دومسلمانوں کی نہیں ہے بلکہ عام ہندوستانی مسلمان کی ہے۔اسے لگتا ہے کہ مرکز کی سرکار جس طرح سے بڑے فیصلے چٹکیوں میں لے رہی ہے، وہ این آرسی کا فیصلہ بھی لے سکتی ہے۔یہ طبقہ یہ بھی مانتا ہے کہ شہریت کا ثبوت صرف مسلمانوں سے مانگا جاسکتا ہے کیونکہ حکومت کے فیصلے مذہب کی بنیاد پر ہورہے ہیں،جیسے حکومت پچھلی مدت کار میں ہی شہریت بل لوک سبھا میں پاس کراچکی ہے جس میں بیرون ملک یعنی بنگلہ دیش، میانمار، پاکستان اور افغانستان سے آنے والے ہندووں کو تو بھارتی شہریت دی جائے گی مگر مسلمانوں کو نہیں۔ اسی طرح طلاق ثلاثہ مخالف بل کے نشانے پر بھی صرف مسلمان ہیں اور اب کشمیر کی خصوصی پوزیشن کو ختم کرنے کا اعلان بھی، اس لئے ہوا کہ وہاں مسلمان اکثریت میں ہیں۔ حکومت کے حالیہ اقدامات کو دیکھتے ہوئے مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے کولگتا ہے کہ این آرسی پورے ملک کے لئے عنقریب آسکتا ہے اور صرف مسلمانوں کو شہریت ثابت کرنے کو کہا جائے گا،ہندووں کو نہیں۔یہی سبب ہے کہ اس سلسلے میں سوشل میڈیا کے پیغامات کی آمدورفت بڑھ گئی ہے اور ان خبروں کو درست ماننے والا مسلمانوں کا طبقہ بے حد خوف زدہ نظر آرہا ہے اورکچھ لوگ تو باقاعدہ ان افواہوں والے پیغامات کو دوسروں کو  فارورڈ بھی کرتے ہیں۔ 
آسام این آرسی کے سبب خوف
        مسلمانوں میں این آرسی سے خوف کا ایک بڑا سبب آسام این آرسی بھی ہے جہاں بہت سے پرانے باشندوں کو بھی اس سے باہر رکھا گیا ہے۔حد تو تب ہوگئی جب آسام پولیس میں سب انسپکٹر کے طور پر خدمات انجام دینے والے ایک ریٹائرڈ مسلم فوجی افسر کو غیر ملکی قرار دیا گیا۔اس بات کا بھی لحاظ نہیں کیا گیا کہ اس نے کارگل جنگ میں خدمت انجادم دی تھی اور اس کی خدمات کے اعتراف میں صدر جمہوریہ کی طرف سے اسے مڈل بھی دیا گیاتھا۔ واضح ہوکہ محمدثناء اللہ نے فوج سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد آسام پولس کی جاب کرلی تھی اور سب انسپکٹر کے عہدے پر بحال ہوا تھا،مگر غیر ملکیوں کی شناخت کرنے والے ٹرائبونل نے اسے غیرملکی قرار دیتے ہوئے اسے غیرملکیوں کے حراستی کیمپ میں بعض اہل خانہ سمیت بھیج دیا تھا۔اس کا سبب یہ بتایا گیا کہ اس کا نام شہریوں کے قومی رجسٹر (NRC) میں موجودنہیں ہے۔اسے آسام کے کامروپ ضلع کے کلاہی کاش گاؤں سے گرفتار کیا گیا تھا۔ بہرحال گوہاٹی ہائی کورٹ کی مداخلت کے بعد محمدثناء اللہ کو کسی طرح آزاد کیا گیا۔خود ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ وہ ایک بھارتی شہری ہے اور اسے ثابت کرنے والے تمام ضروری دستاویزات اس کے پاس موجودہیں۔ اس نے بتایا کہ میں نے ملک کی فوج میں 30 سال (1987-2017) تک الیکٹرانک اور میکانی انجینرنگ ڈیپارٹمنٹ کے ایک افسر کے طور پر خدمت کی ہے اور 2014 میں صدرجمہوریہ کی طرف سے  میڈل سے نوازا گیا تھا۔ ثناء اللہ نے کہا کہ اس نے بوکو میں چمپوپاڑہ گورنمنٹ ہائی اسکول سے ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا تھا اور فوج سے ریٹائر ہونے کے بعد وہ گزشتہ سال سے سرحد پولیس میں اے ایس آئی کے عہدے پر کام کر رہاہے۔ جب کہ کامروپ ضلع کے ایڈیشنل پولیس سپرنٹنڈنٹ سنجیب سائیکیا کا کہنا تھا کہ پولیس،مقررہ عمل کے مطابق، ثناء اللہ کو لے گئی اور اسے گولپاڑہ ضلع کے حراستی کیمپ میں بھیج دیا گیا ہے۔ثناء اللہ کے کیس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جب ملک کے لئے جنگ لڑنے والے ایک ہیرو کے ساتھ ایسا ہوسکتا ہے تو دوسرے لوگوں کے ساتھ کیا ہوا ہوگا۔یہاں ایک غلط فہمی بھی دور کرتے چلیں کہ این آرسی پر پریشانی کے حالات صرف آسام کے مسلمانوں کے ساتھ نہیں ہیں بلکہ ہندووں کے ساتھ بھی ہیں۔ جن لاکھوں افراد کو غیرملکی قرار دے کر این آرسی میں اندراج سے دور رکھا گیا ہے،ان میں لاکھوں ہندو بھی ہیں۔  
آسام میں این آرسی کیوں؟
     این آرسی کا عمل صرف آسام میں کیوں چل رہا ہے،باقی ملک میں کیوں نہیں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ آسام میں بنگلہ دیشیوں کی دراندازی کے سبب پانچ دہائیوں قبل بغاوت جیسے حالات بن گئے تھے۔تب عوامی تحریک چھ سال تک جاری رہی تھی جس کے بعد ایک معاہدہ ہوا، جسے ’آسام سمجھوتہ 1985‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے تحت، یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ صرف 25 مارچ 1971 تک آسام میں قیام کا ثبوت رکھنے والے افراد کو ہی ریاست کا رہائشی سمجھا جائے گا۔ اس کے بعد، جو بھی داخل ہوا اسے غیرملکی قرار دے کر واپس بھیج دیا جائے گا۔ آسام میں حالیہ اسمبلی انتخابات کے دوران، بی جے پی نے این آر سی کو ایک ایشو بنایا تھا۔ ریاست میں بی جے پی کی حکومت کے قیام کے بعد اس پر مرکزی سطح پر کام شروع ہوا۔ تاہم، سپریم کورٹ کی جانب سے این آر سی میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لئے مانیٹرنگ کی جارہی ہے۔ اس سے پہلے جو این آرسی جاری کی گئی تھی، اس مسودے سے چالیس لاکھ افراد باہررہ گئے تھے۔باہر رہ جانے والے افراد کو موقع دیا گیا ہے کہ وہ اپنی شہریت کا ثبوت پیش کریں۔اگست کی آخری تاریخ کو این آرسی کی حتمی فہرست شائع ہوگی جس سے یہ معلوم ہوجائے گا کہ مسودہ سے بچ جانے والے 40 لاکھ میں سے کتنے افراد کے نام شامل ہوئے ہیں اور اس کے بعد باقی بچے لوگوں کو جیل بھیجا جاسکتا ہے۔ ویسے مرکزی حکومت نے واضح طور پر کہا ہے کہ غیر قانونی بنگلہ دیشی دراندازوں کو واپس بھیج دیا جائے گاحالانکہ بنگلہ دیش انھیں قبول کرنے کو تیار نہیں۔
کیا پورے ملک میں این آرسی کا عمل شروع ہوگا؟
    اس وقت اہم سوال یہ ہے کہ کیا آسام کی طرح باقی ملک کے لئے بھی این آرسی آئے گا اورتمام شہریوں کو اپنی شہریت ثابت کرنے کے لئے کہا جائے گا؟ تو اس کا واضح جواب یہ ہے کہ اب تک حکومت نے ایسا کوئی اعلان نہیں کیا ہے اور نہ اشارہ دیا ہے تو خواہ مخواہ دماغی گھوڑے کو اس میدان میں کیوں دوڑایا جائے؟البتہ اس سلسلے میں دوخبریں قابل توجہ ہیں۔ ایک یہ کہ نریندر مودی حکومت کی دوسری میعاد کی ابتدا میں 20 جون کو نئی لوک سبھا (17ویں) کے قیام کے بعد صدرجمہوریہ رام ناتھ کووند نے پارلیمنٹ سے خطاب میں کہا تھا کہ، میری حکومت نے دراندازی سے متاثرہ علاقوں میں ترجیحی بنیادوں پر قومی شہری رجسٹر (این آر سی) کے عمل کو نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے،جس کا مطلب یہ نکالا جاسکتا ہے کہ آسام کی طرح ہی نارتھ ایسٹ کی دوسری چھ ریاستوں میں این آرسی لایا جاسکتا ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ اس سے پہلے بی جے پی صدر امت شاہ نے دارجلنگ میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت پورے ملک میں آسام کی طرح این آرسی لائے گی مگر الیکشن میں بہت کچھ کہاجاتا ہے جس پر عمل کبھی نہیں ہوتا اور امت شاہ تو مغربی بنگال میں بول رہے تھے جہاں اس قسم کی باتیں کربی جے پی اپنے حق میں ماحول بنارہی ہے۔بی جے پی کے کئی لیڈر تو دہلی میں بھی این آرسی لانے کی بات بھی کہہ چکے ہیں مگر حکومت نے ایسا کوئی عندیہ نہیں دیا ہے۔ 
این آرسی اور مردم شماری میں فرق
    حال ہی میں مرکزی حکومت نے نیشنل پاپولیشن رجسٹر (این پی آر) کو ستمبر 2020 تک تیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے جسے لے کر افواہیں پھیلائی جارہی ہیں۔ دراصل یہ این آرسی نہیں بلکہ مردم شماری کا وہی عمل ہے جو ہر دس سال کے بعد ہوتاہے۔ ہندی کے اخبارات ’دینک جاگرن‘ اور ’امر اجالا‘ نے قیاس آرائی کی ہے مردم شماری کی اس رپورٹ کو بنیاد بناکرپورے ملک میں قومی شہری رجسٹر (این آر سی) تیارکیا جاسکتا ہے۔اس خبر نے بھی افواہوں کوبل دیا ہے حالانکہ اس قیاس آرائی کا کوئی سبب ان اخبارات نے نہیں بتایاہے۔بہرحال یہ فرق کرنا ضروری ہے کہ مردم شماری اور این آرسی دوالگ الگ چیزیں ہیں۔
قومی سطح پر این آرسی کیوں نہیں؟
    آسام کی طرح قومی سطح پراین آرسی کیوں نہیں لایا جاسکتا؟اس سوال کا جواب یہ ہے کہ مرکزی حکومت اگر چاہے تو اسے قومی سطح پر این آرسی لانے سے کوئی نہیں روک سکتا مگر وہ ایسا نہیں چاہے گی کیونکہ اس سے خلفشار کا اندیشہ ہے۔ آسام میں جو لاکھوں ہندواین آرسی سے الگ رکھے گئے ہیں،انھیں لے کر آرایس ایس فکر مند ہے اور پچھلے دنوں اے بی وی پی اور ہندو جاگرن منچ نے ریاست بھر میں مظاہرے کرکے اسے روکنے کا مطالبہ کیا تھا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر این آرسی کو قومی سطح پر لایا جائے تو اگر چند لاکھ مسلمان،اس سے باہر ہونگے تو کروڑوں ہندو بھی باہر ہونگے کیونکہ آبادی انھیں کی زیادہ ہے اور حکومت، ہندووں کے سرپر تلوار لٹکانا نہیں چاہے گی۔ خاص طور پر اس کی زد میں دلت، آدیباسی، غریب ومزدور آسکتے ہیں جن کے پاس جائیداد کم ہے اور پرانے دستاویز بھی نہیں ہیں جوان کے آباء واجداد کو شہری ثابت کرسکیں۔آج این آرسی میں اندراج کے لئے لوگ آسام میں جائیداد، زیورات بیچ رہے ہیں،کئی پریشان حال لوگوں نے توخودکشی کرلی ہے۔ حراستی کیمپوں سے بھی خودکشی کی خبریں آرہی ہیں۔اب اگر پورے ملک کے لئے این آرسی آیا تو ذرا سوچئے کہ کیا صورت حال ہوگی۔ مسلمان خواہ خاموش رہیں مگر کیا دلت چپ رہیں گے؟ آدیباسی خاموش بیٹھیں گے؟ ملک کے کروڑوں غریب، مزدور، کسان چپ چاپ رہیں گے؟کیا یہ این آرسی، حکومت کے گلے کی ہڈی نہیں بن جائے گا؟ایسے میں مسلمانوں کو سوشل میڈیا کی افواہوں پر توجہ دینے کے بجائے،ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور ان افواہوں کو بلا تحقیق دوسروں کو فارورڈ بھی نہیں کرنا چاہئے۔(ی

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

25اگست2019(فکروخبر)

 

«
»

عاشورہ کا روزہ پچھلے ایک سال کے گناہوں کا کفارہ

ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام !!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے