تعلیم کا موجودہ نظام معاشرہ میں بگاڑ پیدا کر رہا ہے

عارف عزیز(بھوپال)

 موجودہ دور میں تعلیم ملازمت کے حصول کا ذریعہ بن گئی ہے۔ اس ضرورت نے تعلیم کو ایک پیشہ بنا دیا ہے، اب تعلیم حاصل کرنے کے لئے آپ کے پاس اچھی خاصی رقم ہونا چاہئے۔ یونیورسٹی میں بھی پہلے کے مقابلے میں کئی ایسے مضامین پڑھائے جانے لگے ہیں، جن میں طلباء داخلہ ہی اِس امید پر لیتے ہیں کہ اس کے بعد انہیں کوئی اچھی ملازمت مل جائے گی، ایسے مضامین میں داخلہ ملنا آسان نہیں اور ان کی فیس ادا کرنا بھی ہر کسی کے بس کی بات نہیں جبکہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اس بات کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہوتی کہ طالب علم کو اچھی ملازمت مل جائے گی۔ آج کے دور میں کیریئر پر مبنی مضامین کی بھرمار ہے، جن میں داخلوں کے لئے طالب علموں کو کئی امتحانات سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس سلسلے میں صحیح سمت کا تعین کرنا ضروری ہے۔ ورنہ پیسے کے ساتھ ساتھ وقت بھی برباد ہوتا ہے۔ زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ نوکریوں کے حصول کے لئے اعلیٰ تعلیم ضروری ہے، جس کی وجہ سے کئی شہروں میں بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ کیونکہ ملازمتیں نہ ہونے کی وجہ سے معمولی نوکریوں پر بھی لوگ اعلیٰ ڈگریوں کے باوجود سمجھوتہ کر لیتے ہیں اور یہی رویہ معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔ جہاں کم تعلیم یافتہ لوگ نوکریوں کے حصول میں دھکے کھاتے ہیں اور جرائم کی طرف راغب ہوجاتے ہیں۔ بیشتر مغربی ملکوں میں اسکول کی تعلیم ۲۱ کلاس تک دی جاتی ہے، جسے ہائی اسکول یا انٹر کہا جاتا ہے۔ ہائی اسکول تک کی تعلیم عام تعلیم ہی شمار ہوتی ہے۔ جس کے بعد کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم ہے۔
اس تعلیم کے بعد ہی کہیں اچھی ملازمت کا تصور کیا جاسکتا ہے ورنہ نہایت معمولی قسم کی نوکری کرنا پڑتی ہے۔ جیسے ٹیکسی چلانا یا پھر کسی کافی شاپ یا ریسٹورینٹ میں ملازمت وغیرہ، جہاں لوگوں کو دیگر کاموں کے علاوہ خاکروب کے فرائض بھی انجام دینے پڑتے ہیں۔ کالج اور یونیورسٹی میں کیریئر پر مبنی مضامین کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ لیکن یوروپ و امریکہ میں یونیورسٹی اور کالجوں کی فیس بہت زیادہ ہے۔ جس کی وجہ سے زیادہ تر بچے نوکریوں کے ساتھ تعلیم حاصل کرتے ہیں تاکہ معمولی ملازمت کے ساتھ تعلیم حاصل کرکے اپنے مستقبل کو بہتر بناسکیں، انہیں کام کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے میں مصروف ہونا پڑتا ہے تاکہ وہ اپنے مستقبل کو بہتر بنا سکیں لیکن انہیں نہایت کم گھنٹے ملازمت کرنے کی اجازت ہوتی ہے، جس میں وہ اپنا خرچہ بمشکل نکال پاتے ہیں جبکہ کئی طالب علم حکومت کی طرف سے قرض حاصل کرکے بھی اپنی فیس ادا کرتے ہیں اور اپنی زندگی کے کئی اہم سال ملازمت کرکے اِس پہاڑ جیسے قرضے کو اتارنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوجاتا ہے۔ ۳۲ ترقی یافتہ ممالک میں سے کینیڈا پانچواں ملک ہے، جہاں تعلیم کی سب سے زیادہ فیس وصول کی جاتی ہے۔ انگلینڈ، امریکہ، جاپان اور جنوبی کوریا کے بعد کینیڈا کا نمبر آتا ہے۔ کینیڈا میں تعلیم اس قدر مہنگی ہے کہ اب مڈل کلاس خاندانوں کے لئے اپنے بچوں کو یونیورسٹی کی تعلیم دلانا مشکل ہوگیا ہے۔ یہ اخراجات والدین اور طالب علموں پر بوجھ بن گئے ہیں۔ مغربی دنیا میں نہایت چھوٹی عمر سے اپنی ذمہ داریاں خود اٹھانے کی ترغیب دی جاتی ہے، جبکہ جنوبی ایشیائی خاندانوں میں والدین اپنے بچوں کی ہر ممکن مدد کرتے ہیں۔ زیادہ تر بچے اپنے اخراجات کے لئے والدین کی جانب دیکھتے ہیں۔ جہاں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھاری فیس ادا کرکے بھی اس بات کی ضمانت نہ ہو کہ ملازمت مل سکے گی یا نہیں، وہاں والدین کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ اگر انہوں نے اپنی جمع پونجی بچے پر خرچ کر دی تو ان کے بڑھاپے کا کیا بنے گا۔ اسی وجہ سے کئی اوسط درجے کے خاندانوں میں اعلیٰ تعلیم پہنچ سے باہر ہوتی جارہی ہے۔ یہ صورت حال نہ صرف ہمارے ہندوستان بلکہ ترقی یافتہ ملکوں کے معاشرہ کے لئے بھی بگاڑ کا باعث بن رہی ہے۔

(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے )

01 اگست2019(فکروخبر)
 

«
»

رویش کا بلاگ: تالے میں بند کشمیر کی کوئی خبر نہیں،لیکن جشن میں ڈوبے باقی ہندوستان کو اس سے مطلب نہیں

تین طلاق بِل کی بار بار منظوری، بی جے پی حکومت کا سیاسی ہتھکنڈا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے