جس معاشرے میں انسا‌ن کی کوئی قیمت نہیں ہوتی وہاں خون کی بولی سب سے سستی لگتی ہے۔

ذوالقرنین احمد
 

گزشتہ روز یو پی کے چندولی میں خالد انصاری نام کے نوجوان کو ۴ شر پسندوں نے غیر مذہبی نعرہ لگانے کیلئے کہا جب صبح خالد قضائے حاجت کے لیے گیا تھا۔ تب شدت پسند عناصر نے نعرے لگانے سے انکار کرنے سے اس پر کیروسین ڈال کر آگ کے حوالے کردیا خالد اپنی جان بچاتے ہوئے جب گھر پہنچا تو گھر والوں نے پولس کو اطلاع دی خالد کو بنارس کے ہسپتال میں بھرتی کیا گیا تھا جو ۷۰ فیصد جل چکا تھا۔ علاج کے دوران اسکی موت واقع ہوگئی ہے۔ اسکی باڈی لے جانے کیلئے ایمبولینس بھی مہیا نہیں کروائی گئی اور ٹرک میں باڈی بھیجی گئی۔ کتنی شرم کی بات ہے۔ ایک طرف حکومت ڈیجیٹل انڈیا اور کروڑوں روپے کے سرمایہ کاری کی بات کر رہی ہے۔ جس سے نوجوانوں کو روزگار دینے کے خواب دیکھا رہی ہے۔ بہت ہی شرمندگی کی بات ہے کہ ایک انسان کی جان کی کوئی قیمت نہیں ہے چاہے وہ مر بھی جائے لیکن اسکی آخری رسومات کو ادا کرنے تک اسلام میں اسکی حرمت کا خیال کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کے قبروں کو مسمار نہیں کیا جاتا ہے۔ اور یہاں ایک نوجوان جسے ہجومی تشدد کے زریعے آگ کے حوالے کردیا جاتا ہے اور اسکی موت ہونے پر وہاں کا پرشاسن ایمبولینس تک مہیا نہیں کروا سکتا ہے۔ کس ڈیجیٹل انڈیا کی بات کررہی ہی حکومت۔ ان تصویروں کو دیکھ کر مسلمانوں کی غیرت کیوں جوش میں نہیں آرہی ہے۔ میرا دل تھم سا گیا ہے۔ حرکت قلب رک رک کر چل رہی ہے۔ دل درد سے پھٹ رہا ہے۔ کس کس بات پر نوحہ کنا کیا جائے۔

بازاروں میں اشیاؤں کی قیمت انسان کی جان کی قیمت سے زیادہ ہوچکی ہے۔ فرقہ پرست کھلے عام مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں۔ جن کے سروں پر حکومت کے سایا ہے۔ مجرم کھلے عام فرقہ واریت کو ہوا دینے کا کام کر رہے ہیں۔ ظلم مظلوموں کی خاموشی سے پھل پھول رہا ہے۔ انصاف ایوانوں کی چوکھٹ پر دم توڑ رہا ہے۔ اور ظالم حکومت تماشائی بنی ہوئی ہے۔ جن ظالموں کو جیلوں میں قید کر‌نا چاہے وہ آزاد ہیں، اور بے گناہ جیلوں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ انصاف ظالم کی حمایت میں جارہا ہے۔ اور مظلوم آہ و فغاں اور بے بسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔  ان مظلوم نوجوانوں کا لہوں یہ چیخ چیخ کر کہے رہا کہ تم کس دھوکے میں ہو۔

مجھے ایسے لگتا ہے کہ ہر مرنے والا میں ہو تبریز بھی میں ہوں، خالد بھی میں ہوں، اخلاق بھی میں ہوں، نجیب بھی میں ہوں، کیونکہ اخلاق کے مرنے پر یہ سب بھی خاموش تھے۔ میں بھی خاموش تھا۔ مجھے ایسے لگتا ہے کہ یہ لاش میری ہے۔ میں مر چکا ہوں۔ اور سب مرے جنازے میں شریک ہیں۔ نا مجرم کیفر کردار تک پہنچتا ہے، نا قانون سازی کی جاتی ہے، نا ان شدت پسندوں کو روکا جارہا ہے۔ اور پھر ایک جنازے کو کندھا دینے کی تیاری کی جارہی ہے۔ حکومت تو چاہتی ہی نہیں کہ یہ سب روکا جائے۔ ورنہ کچھ تو حل نکالا جاسکتا تھا۔  صرف جنازوں کو کندھے دینے کیلے تیار ہے۔ جب ایک بے قصور مرتا ہے تو وہ اکیلے نہیں مرتا ہے اسکی ماں جیتے جی مرتی ہے۔ اسکا باپ جس نے اسکی پرورش کی ہوتی ہے کہ وہ بڑا ہوکر اسکے ناتواں کاندھوں کا سہارا بنے گے وہ جینے کی امید چھوڑ دیتا ہے اسکی بہنیں اسکی محبت میں زندہ لاش ہوجاتی ہے کہ جنہیں امید تھیں کہ وہ انکے ہاتھ پیلے کروائے گا۔ ظلم حد سے بڑھتا جارہا ہے۔ لیکن ہم سب یہ کہے رہے ہیں لائحہ عمل تیار کریں آخر کرے گا کون۔  کیا فرشتے آسمان سے اتر کر آئے گے۔ ہمارے اعمال تو ویسے نہیں کے فرشتے ہماری نصرت کو اتر آئے۔ اپنے حصہ کا دیا جلانا ہوگا۔ ورنہ جسطرح خالد اخلاق، پہلوں،  نجیب، حافط جنید، تبریز، اپنے نمبر کا انتظار کرتے ہوئے بے موت مارے گئے آپ اپنے نمبر کا انتظار کرے۔ 
حدیث نبوی ہے۔ 
حضور اکرم ﷺ نے  ارشاد فرمایا  تم اپنے بھائی کی مدد کرو چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم عرض  کیا گیا یارسول اللہ ﷺ مظلوم  کی  مدد تو ٹھیک ہے لیکن ظالم کی  مدد  کس طرح  کرین آپ ﷺ نے فرمایا  اسے ظلم سے روک  یہی تیری طرف سے اس کی مدد ہے۔ 

حکومت سے کیا امید لگائے بیٹھے ہو کہ جس حکومت کے لیڈر ایک غریب لڑکی کو جو نوکری مانگنے کیلے اسکے در پر آتی ہے اسکے ساتھ زیادتی کرکے اسے دھمکیاں دی جاتی ہے کہ کسی کو بتانا مت۔ اور اسکے باپ کو انصاف مانگنے پر قتل کردیا جاتا ہے۔ اور پھر فیملی اور وکیل کے ساتھ جارہی لڑکی کی کار کو ایک ٹرک کے زریعے ایکسڈنٹ کروایا جاتا ہے۔ جس میں وکیل،  اسکی چاچی کی موت ہوجاتی ہے۔ جسے حادثے کی شکل دے دی جاتی ہے۔ ایسی سرکار سے کیسی امید کی جاسکتی ہے۔ جسکی انصاف مہیا کرنے والی عالمی اداروں میں مزمت کی جارہی ہو۔ آخر کب تک کندھوں پر بے گناہوں کے جنازے ڈھوتے رہے گے۔ آج مسلمانوں کے خون کی قیمت اتنی سستی ہوگئی ہے کہ انھیں کھلے عام جان سے مار دیا جائے، جنکی لاشوں کی بے حرمتی کی جائے، جنکے معصوم بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جائے‌۔ اور پھر انہیں کو مجرم قرار دے کر قید کردیا جائے، اور انکی جوانی ختم ہونے پر انہیں باعزت بری کردیا جائے۔ عجب راہ پر حالات نے لاکر کھڑا کردیا ہے۔ ظلم و تشدد زیادتی ہونے پر چیخنے پر بھی پابندی لگائی جارہی ہے۔ ظلم کے خلاف جتنی دیر سے اٹھا جائے گا اس کیلئے اتنی عظیم قربانی دینا ہوگی۔ 

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے 

31جولائی2019

«
»

رویش کا بلاگ: تالے میں بند کشمیر کی کوئی خبر نہیں،لیکن جشن میں ڈوبے باقی ہندوستان کو اس سے مطلب نہیں

تین طلاق بِل کی بار بار منظوری، بی جے پی حکومت کا سیاسی ہتھکنڈا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے