62درباری اور خوشامدی دانشورں کا جوابی خط

ہجومی تشدد اور دہشت گردی برپا کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کے مترادف 

عبدالعزیز

    ہر دور میں حکمرانوں یا بادشاہوں کے درباری اور خوشامدی ہوا کرتے ہیں۔ ان کی وجہ سے بادشاہ یا حکمراں کچھ زیادہ ہی خراب ہوجاتے ہیں۔ جمہوریت بادشاہت سے بالکل مختلف ہے۔ جمہوری حکومت کا مطلب ہوتا ہے جمہور یا عوام کی حکومت۔ عوامی یا جمہوری حکومت میں اپوزیشن ناگزیر چیز ہوا کرتی ہے۔ اپوزیشن کے بغیر جمہوریت بے معنی ہوجاتی ہے۔ اپوزیشن کا کام یہ ہے کہ حکمراں یا حکمراں جماعت کے کاموں پرجائز اور صحیح تنقید کرکے اس کی حکمرانی کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کرے اور عوامی فائدے اور نقصان کی طرف حکومت کی توجہ مبذول کرائے۔ جمہوریت میں جب کوئی حاکم وقت آمر ہوجاتا ہے اور آمرانہ انداز اپناتا ہے تو ان کے خوشامدیوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ اور اس کی آمریت بد سے بدتر ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس وقت ہمارے ملک میں نریندر مودی آمرانہ ٹھاٹ باٹ اور آمرانہ اسٹائل سے حکومت کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی پارٹی کے لوگ بھی آہستہ آہستہ منہ بند رکھنے میں اپنا بھلا سمجھتے ہیں۔ پارٹی میں جو لوگ نہیں ہیں لیکن اقتدار سے قریب ہونا چاہتے ہیں ان کا رنگ ڈھنگ درباری، خوشامدی اور بھانڈوں جیسا ہوتا چلا جارہا ہے۔ میڈیا کی اکثریت اسی قبیل سے تعلق رکھتی ہے۔ فلم اسٹار اور نام نہاد دانشوروں کا ایک حصہ جو اپنے آپ کو آرٹسٹ یا فن کار کہتے ہیں ان کی بھی ذہنیت رفتہ رفتہ درباری، خوشامدی اور بھانڈوں جیسی ہوتی جارہی ہے۔ 
    23جولائی 2019ء کو 49 دانشوروں نے جو فلمی دنیا اور دیگر شعبہئ حیات سے تعلق رکھتے ہیں وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک خط لکھا، جس میں ان لوگوں نے ’رام کے نام‘ یا ’جئے شری رام‘ کے نعرے کی اشتعال انگیزی پر افسوس اور غصے کا اظہار کیا اور کہاکہ ملک میں مذہب کے نام تشدد، بربریت کا کھلا مظاہرہ ہورہا ہے۔لہٰذا مسلمانوں، دلتوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف تشدد کا سلسلہ جلد سے جلد بند کیا جائے۔ اس میں دستخط کنندگان میں مشہور تاریخ داں، صحافی اور ادیب رام چندر گوہا، فلمساز اے جی کرشنن، اپرنا سین، منی رتنم اور مشہور ماہر قلب تاپس رائے چودھری جیسے لوگ شامل ہیں۔ دستخط کنندگان نے اپنے خط میں لکھا کہ افسوسناک صورت حال ہے کہ ’جے شری رام‘ آج جنگی نعرہ بن گیا ہے، جس سے نظم و نسق کا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے۔ رام ہندوؤں میں ایک اچھے کردار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ ان کے نام کو داغ دار کیا جارہا ہے۔ لہٰذا اس طریقے کو جلد سے جلد ختم کیا جانا چاہئے۔ دستخط کنندگان نے یہ بھی لکھا کہ اختلاف اور انحراف جمہوریت کی روح ہوتی ہے۔ جو لوگ اختلاف و انحراف کریں انھیں قوم دشمن یا غدارِ وطن، اربن نکسل کہنا بالکل غلط ہے۔محض اس لئے کہ وہ حکومت کی مخالفت کرتے ہیں۔ 
    خط میں لکھا ہوا ہے کہ 90فیصد ہجومی تشدد کے حملے 2014ء کے بعد ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم سے کہا گیا ہے کہ آپ نے ہجومی تشدد پر اپنی ناراضگی ظاہر کی ہے اور تنقید کی ہے مگر یہ کافی نہیں ہے۔ مجرم یا متشدد افراد کی جارحیت اور تشدد کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ جبکہ ان کا عمل مجرمانہ ہے اور ان کی گرفتاری ناقابل ضمانت ہی ہونی چاہئے اور ان کو سخت سے سخت سزا دلانے کی کوشش ہونی چاہئے۔ کسی کو باشندگان ملک کو خوف و ہراس میں مبتلا کرنے کا حق نہیں پہنچتا۔ ہر ایک ملک کا باعزت شہری ہے، خواہ وہ کسی مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔ اپرنا سین نے پریس کانفرنس میں ایک سوال کے جواب میں کہاکہ بہت کچھ ہوچکا ہے۔ پانی سر سے اوپر ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے ہم لوگ سامنے آئے ہیں۔ جو کچھ ہورہا ہے وہ ناقابل برداشت ہے۔ انھوں نے کہاکہ مودی جی صرف اکثریت کے وزیر اعظم نہیں ہیں بلکہ جو لوگ ان کی مخالفت کرتے ہیں ان کے بھی وزیر اعظم ہیں۔ 
    اتنے اچھے اورضروری خط کے جواب میں فلمی دنیا اور دیگر شعبہئ زندگی کے 62 خوشامدیوں نے ایک مذمتی خط لکھا ہے۔ اور ایسا لگتا ہے کہ ان لوگوں کو مودی کی خوشامد کیلئے تیار کیا گیا ہے اور خط کے اثر کو زائل کرنے کیلئے۔ مگر ان نام نہاد دانشوروں کو معلوم ہونا چاہئے کہ سچ سچ ہے اور جھوٹ جھوٹ ہے۔ سچ کا مقابلہ جھوٹ کبھی نہیں کرسکتا۔ جھوٹا پروپیگنڈہ طوفان کی طرح آتا ہے اور بلبلے کی طرح ختم ہوجاتا ہے۔ جو کچھ اس وقت ہندستان میں ہورہا ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ پوری دنیا ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا کی وجہ سے چشم دید گواہ ہے۔ نریندر مودی کے دوبارہ وزیر اعظم ہونے پر دنیا بھر کے میڈیا نے بے اطمینانی کا اظہار کیا تھا۔ یہ نام نہاد دانشور اپنے ملک کے بکاؤ یا گودی میڈیا کے بل پر اچھل کود رہے ہیں، لیکن دنیا کا میڈیا ہندستان کے میڈیا سے کئی گناہ پاور فل اور پوپلر ہے۔ 
    ہندستان کے مشہور تجزیہ نگار اور سیاست داں مسٹر یوگیندر یادو نے باسٹھ نام نہاد دانشوروں کو کہا ہے یہ درباری ہیں۔ ہمارے یہاں کی روایتی زبان میں ایسے لوگوں کو بھانڈ بھی کہا جاتا ہے۔ یوگیندر یادو نے کہاکہ 23 جولائی کو جو خط لکھا گیا اس خط میں آج کے حالات پر تشویش اور افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔ دلتوں، مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پر جو مظالم ڈھائے جارہے ہیں 2014ء سے اسے جلد سے جلد بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو سچائی اور حقیقت کے خلاف ہو۔ خوشامدیوں کے خط میں جو کشمیری پنڈتوں، 1984ء کے دہلی فساد یا مغربی بنگال میں سیاسی ہنگامہ خیزی پر نہ کچھ لکھنے کی وجہ سے اسے سِلیکٹیو لیٹر (انتخابی خط) بتایا گیا ہے۔ ان نام نہاد دانشوروں سے پوچھنا چاہئے کہ ہر معاملہ کو دوسرے معاملہ سے جوڑنا اور کسی پُراثر اظہارِ خیال یا اظہار رائے کو زائل کرنے کیلئے غیر ضروری موضوعات کو چھیڑنا کہاں کی عقل مندی ہے؟ یہ تو بقول یوگیندر یادو پرانے زمانے میں درباریوں اور بھانڈوں کا طور طریقہ ہے۔ 
    2014ء سے لے کر آج تک بہت سے خطوط وزیر اعظم کو بہت ہی اچھے اور باوقار دانشوروں اور سرکاری افسروں کی طرف سے لکھے گئے مگر نہ تو حکومت پر کوئی اثر ہوا اور نہ ہی نریندر مودی ٹس سے مس ہوئے۔ دوبارہ جیت کے آنے کی وجہ سے سنگھ پریوار کی بددماغی اور جنونیت پہلے کے مقابلے میں زیادہ بڑھ چکی ہے۔ نریندر مودی بھی سمجھ رہے ہیں کہ 2014ء سے 2019ء تک جو انھوں نے ”کارہائے نمایاں“ انجام دیا ہے انہی کی وجہ سے کامیاب ہوئے ہیں۔ حالانکہ پلوامہ کا سانحہ اور بالاکوٹ کا ایئر اسٹرائیک نہیں ہوا ہوتا تو جنونی قومیت کو ابھارنے اور عوام کو نشہ پلانے کا موقع نہیں ملتا اور نہ ہی مودی جی اتنی بھاری اکثریت کامیاب ہوتے۔ اور نہ ہی جئے شری رام کا جنگی اور جنونی نعرہ بلند کیا جاتا؎

(مضمون نگا رکی رائے سے ادارہ کا متفق ہوناضروری نہیں ہے)
28جولائی2019(فکروخبر)

 

«
»

رویش کا بلاگ: تالے میں بند کشمیر کی کوئی خبر نہیں،لیکن جشن میں ڈوبے باقی ہندوستان کو اس سے مطلب نہیں

تین طلاق بِل کی بار بار منظوری، بی جے پی حکومت کا سیاسی ہتھکنڈا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے