کرناٹک کے سیاسی ڈرامہ میں سب سے زیادہ نقصان عوامی اعتماد کو پہنچا

تحریر :  عتیق الرحمن ڈانگی ندوی 

کرناٹک میں تقریباً ایک مہینے سے جاری سیاسی اتھل پتھل کے بعد کانگریس۔ جے ڈی ایس کی اتحادی سرکار کا خاتمہ ہوگیا۔ فلور ٹیسٹ میں اتحادی سرکاری کی ناکامی ثابت ہونے کے بعد بی جے پی لیڈران نے اسمبلی میں ہی خوشیاں منائیں۔ تین روز سے جاری بحث کے دوران اتحادی حکومت کے لیڈران نے اپنے کارناموں کا تذکرہ کرتے ہوئے بی جے پی پر کئی ایک الزامات بھی عائد کیے۔ کانگریس پارٹی کو وھپ سے محروم رکھے جانے پر سابق وزیر اعلیٰ سدارامیا نے سوال کھڑے کیے۔ اتحادی حکومت بنانے میں سب سے زیادہ رول کانگریس کے ڈی کے شیوا کمار کا تھا جنہو ں نے مختلف اراکینِ اسمبلی سے رابطہ کرکے انہیں اتحادی حکومت کا ساتھ دینے کے لیے آمادہ کیا تھا۔باغی اراکین کے ممبئی چلے جانے کے بعد آخر تک انہوں نے انہیں منانے کے لیے کوششیں کیں لیکن وہ بارآور نہیں ہوسکیں۔ اسمبلی میں اپنے آخری تقریر کے دوران وہ باغی اراکین پر جم کر برسے۔ انہو ں نے کہا کہ بی جے پی لیڈران نے ان کے پیٹھ میں چھرا نہیں گھونپا بلکہ باغی اراکین تھے جنہوں نے ان کی سرکار گرانے میں اہم رول ادا کیا۔ بی جے پی کوبھی ان پر اعتماد نہ کرنے کی صلاح دیتے ہوئے کہا کہ آپ فکر نہ کریں۔ آپ کے ساتھ بھی وہ ایسا ہی کرنے والے ہیں۔ 
    اسمبلی انتخابات کے بعد سے ہی شروع ہونے والے اس سیاسی ڈرامہ کا آج خاتمہ ہوگیا۔ حکومت بنانے کے لیے مطلوب سیٹیں حاصل نہ کرنے کے باوجود بی جے پی کی جانب سے حکومت بنانے کا دعویٰ ہی اس سیاسی اتھل پتھل کی شروعات تھی۔ بی جے پی کو زیادہ سیٹیں تو حاصل ہوگئیں تھیں لیکن حکومت بنانے کے لیے مطلوب سیٹیں حاصل نہیں تھیں جسے دیکھتے ہوئے کانگریس نے جے ڈی ایس سے ہاتھ ملا کر حکومت کے قیام کا فیصلہ کیا جبکہ انتخابات میں زیادہ سیٹیں حاصل کرنے کی وجہ سے بی جے پی کا دعویٰ تھا کہ ریاست کے عوام نے ان پر بھروسہ کرکے انہیں سب سے زیادہ سیٹیں دلائیں ہیں، لہذا حکومت کرنے کے لیے انہیں موقع فراہم کیا جانا چاہیے اور اسی پر زور لگاتے ہوئے وہ حکومت بنانے میں بھی کامیاب ہوگئے۔ حکومت بنانے کے لیے 113سیٹوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن 105اراکین اسمبلی کے ہوتے ہوئے انہوں نے حکومت قائم کرلی۔ 
    دوسری جانب کانگریس اور جے ڈی ایس کے اتحاد کے بعد انہیں 113کا آنکڑہ حاصل ہوگیا تھا اور وہ خود کو حکومت کا دعویدار قرار دے رہے تھے۔ وہ کہاں خاموشی اختیار کرنے والے تھے۔ اتحاد کے بعد ملنے والی اکثریت کے باوجود حکومت کے قیام کا موقع نہ ملنے کی وجہ سے انہوں نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کردی۔ اور وہاں سے فیصلہ سنایا گیا کہ ایڈی یوروپا کی قیادت میں قائم حکومت اپنی اکثریت ثابت کرے۔ پھر کیا تھا۔ ڈھائی دن وزیر اعلیٰ کی کرسی سنبھالنے کے بعد ایڈی یوروپا فلور ٹیسٹ میں کامیاب نہ ہوسکے اور عوام کی امیدوں پر قائم سرکار کا دعویٰ کرنے والوں کی حکومت یکلخت گرگئی جس سے ایڈی یوروپا کو جو تکلیف ہوئی ہوگی اس کا اندازہ لگایا نہیں جاسکتا۔ 
    اتحادی سرکار کے قیام کو دیکھ کر بی جے پی بھی کہاں خاموشی اختیار کرنے والی تھی۔ انہوں نے آپریشن کنول کا نعرہ دے کر کئی مرتبہ اتحادی سرکار کو گرانے کی کوشش کی او رمسلسل وہ اس کے پیچھے لگے رہے۔ جتنی کوششیں اور تدابیر ہوسکتے تھے انہو ں نے اختیار کیے لیکن تقریباً ایک سال تک وہ اتحادی سرکاری کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے۔ اس دوران ایک دو اراکانِ اسمبلی کے اتحادی سرکار کا ساتھ چھوڑنے کی خبریں بھی سامنے آئیں لیکن اس کے باوجود کانگریس او رجے ڈی ایس مخلوط حکومت نے اپنی کوششیں جاری رکھیں اور کسی طرح چودہ ماہ پورے کرنے کے بعد آج اس اتحادی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ 
     اس سیاسی ڈرامہ کے درمیان عوام کا اعتماد حکومت پر سے اٹھنے لگا۔عوام نے کھلے عام ان باتوں کا اظہار کیا کہ اقتدار بچانے اور اس کے حصول کے لیے جتنی کوششیں ہورہی ہیں اگر یہی کوششیں ریاست کی ترقیاتی کاموں کے لیے کی جاتیں تو ریاست کرناٹک کانام پورے ملک میں ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر روشن ہوجاتا اور دیگر ممالک کے وفود یہاں کر اس کے ترقیاتی کاموں کو دیکھ کر اپنے یہاں بھی اس طرح کی ترقی کے لیے کوششوں میں لگ جاتے۔ لیکن ایسا نہیں ہوسکا اور اسی سیاسی ڈرامہ کے نتیجہ میں عوام کو سیاستدانوں پر جو بچا کچا اعتماد تھا وہ بھی ختم ہوگیا۔ 

 

«
»

عشق مجازی کی تباہی،اسباب وعلاج اور نقصانات،

سیاسی ناٹک: مطلق العنانیت تھوپنے کی سیاست

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے