جو بادہ کش تھے پرانے۔۔۔ ایم ٹی حسن باپا صاحب کی رحلت پر چندتاثراتی سطریں

برماور سید احمد سالک  ندوی

ایم ٹی صاحب کم و بیش نصف صدی تک میدان عمل میں رہے اورآخری درجے تک سرگرم رہے، بیماری،ضعیفی کمزوری کبھی ان کے عزائم کے آگے خلل نہ ڈال سکی۔  ہاتھ میں چھوٹی سی ڈائری رہتی تھی مگر اس چھوٹی سی دائری میں بڑے بڑے منصوبے لکھے ہوئے رہتے تھے۔ شخصیت اپنے ظاہر و باطن دونوں اعتبار سے بھاری بھرکم تھی۔ گھٹا قد مگر بلند حوصلہ کے مالک تھے۔آواز بڑی پاٹ دار تھی۔ جب بولتے تو مجلس میں سناٹا چھا جاتا تھا۔ بڑے صائب الرائے واقع  ہوئیتھے۔ آنکھوں پر چشمہ ہوتاتھا مگر وہ بصارت سے زیادہ بصیرت سے کام لیتے تھے انکیفیصلوں میں ان کی دور اندیشی چھلکتی تھی۔اس کا اندازہ آپ صرف اس بات سے لگا سکتے ہیں بھٹکل میں 40 سال پہلے مشنری اسکول کے قیام کی بھنک محسوس کر تے ہی انہوں نے اپنے  درد مند ساتھیوں کے ساتھ مل کر ادارہ تربیت اخوان کی نیوڈالی،آج نصف صدی ہو نے کو ہے اور  شمسی کلیاں پوری توانائی کے ساتھ بھٹکل  کے ماحول میں عطر افشانی کر رہی ہیں۔اس ادارے کے فارغین سماج کی تعمیر و تشکیل میں نمایاں طور پر نظر  بھی آتے ہیں۔بھٹکل میں کئی ایک اسکول ہیں جواپنے نصاب وکتاب کی انفرادیت کے باوجود بھی وہ اعتبار حاصل نہیں کر پائے ہیں جو شمس کو حاصل ہوا ہے۔چونکہ  تحریک اسلامی  کے صف اول کے قائدین  کے ساتھ  بانی شمس ایم ٹی صاحب کے گہرے روابط تھے  اورتحریکی لیٹریچر سے دینی شعور اور ملی کڑھن حاصل تھی جس کا نتیجہ تھا کہ ایم ٹی صاحب نے مشنری اسکول کے مقابلے  میں بھٹکل میں انگلش میڈیم کے پہلے اسکول کا تصو ر دیا۔ اس سلسلے  ان کے ساتھیوں میں ڈاکٹر حنیف شباب اور مولانا سید زبیر، اور قادر میراں پٹیل  صاحبان جیسے اہل قلم زیادہ روشنی ڈال سکیں گے۔ بہرحال ایم ٹی صاحب اب ہمارے بیچ نہیں رہے ، ان کے انتقال سے تحریک اسلامی بھٹکل کے قافلے میں بہت بڑا خلا واقع ہوا ہے، جس کا تصور کرنا بھی آسان نہیں ہے۔اپنے  ہفتہ واری پروگراموں میں، جائزہ نشستوں میں، شعری محفلوں میں وہ کرسی پر بیٹھتے تھے  مگر دل وجان سے شریک رہتے تھے۔بیٹھ کر بھی 
انہوں نے وہ کام کئے جو ہم جیسے چلتے پھرتے لوگ نہیں کر پاتے، انہیں کام کرنے کے ساتھ کام لینے کا فن بھی آتا تھا۔ایم ٹی صاحب بڑی خوبیوں کے مالک تھے۔ کام کے دھنی، دُھن کے پکے  جیسے محاورے بہت پہلے ہی پڑھ رکھے تھے مگر کم عمری سے ہی مجھے ان محاوروں کی جیتی جاگتی مثال ایم ٹی صاحب کی شکل میں دیکھنے کو ملی  تھی۔ ان کی حیات میں ہی محسوس ہوا تھا کہ وہ کتنے بڑے آدمی ہیں لیکن اپنے چھوٹوں کے ساتھ  ان کا مشفقانہ برتاؤ، دیکھنے کی چیز تھی۔ نوجوان  رفقائے تحریک  کو آگے بڑھتا دیکھ کر ان کا دل مچلتا تھا، مشورے دیتے اور مزید کی سعی و جستجو کی طرف ابھارتے تھے۔
 ادارہ تربیت اخوان کی ایک میٹنگ میں حال ہی میں نیان سے ملاقات کی تھی لیکن کسے معلوم تھا کہ یہ ان سے آخری ملاقات ہے۔ میٹنگ کے بعد بھی ملے اور دارہ کی فکر کرنے اور آگے آنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہاکہ ادارہ اور تحریک کو آپ کی ضرورت ہے۔
ایم ٹی حسن باپا صاحب  ابھی دو تین دن قبل ہی اپنے گھر میں گر کر زخمی ہوئے تھے، علاج بھی چل رہا تھا،جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات کے طور پر ملی  جسے بخوشی قبول کرتے ہوئے وہ بارگاہ ایزدی میں پہنچ گئے  اور86  سالہ زندگی کے انمٹ نقوش چھوڑ کر اپنے پیش روؤں سے جاملے۔ 
ابھی حال ہی میں ہم نے اشرف برماور صاحب اور عبداللہ دامودی صاحب اور عثمان محتشم صاحب کی جدائی برداشت کی اور اب ایم ٹی حسن باپا صاحب کی رحلت کا سانحہ۔ مقامی تحریکی اداروں کے پرانے بادہ کش ایک ایک کر کے اٹھتے جا رہے ہیں تحریک اور تحریکی اداروں میں پے در پے ہونے والا یہ خلا پورا ہونا داخلی اور خارجی استحکام کے لئے بہت ضروری ہے، نئے افراد یقینا سامنے لائے جانے چاہئیں مگر یہ کام سابقون الاولون کو اعتماد میں لے کر اور ان کی زیر سر پرستی ہونا چاہئے۔ نئے،پرانے  کے سابقوں اور لاحقوں میں وقت ضائع کرنے کی بجائے باصلاحیت اور دردمند افراد کو آگے لانا چاہئے تاکہ حقیقی معنوں میں یہ خلا پر  ہوسکے اور مقصد و نصب العین کے حصول میں مدد گار ثابت ہو سکے۔ ملت ابھی بانجھ نہیں ہوئی ہے ابھی کئی قیمتی گوہر چھپے ہوئے ہیں انہیں آگے کرنے اور صیقل کرنے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے ہم انسانی معاشرے میں فرشتوں کو تلاش کرتے ہیں،   کسی انسان سے غلطیوں سے پاک، اور لغزشوں سے مبرا ہونے کی توقع میں ہم  لوگ افراد کی شکل میں اپنا قیمتی سرمایہ محض اس لئے کھودیتے ہیں کہ ہمیں ان میں کوئی برائی نظر آجاتی ہے۔ سو خوبیوں کی تعریف کرنے کی جگہ ہم ایک آدھ خامی یا کمی کو بیناد بنا کر ان سے  مخالفت کی حد تک اختلاف  کرتے  ہیں جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ افراد یا تو اداروں سے بد دل ہوجاتے ہیں یا بے دل ہوجاتے ہیں۔ ایسے دور میں تحریک کو جہاں افراد سازی کی ضرورت ہے وہیں اجتماعیت   کی  ضرورت بھی دو چند ہو جاتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ ہمارے پاس افرادی قوت کی کمی ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ صلاحیتوں کا فقدان نہیں ہے، اس حقیقت سے شاید ہی کوئی انکار کر ے کہ اس گئے گزرے دور میں ہمارا  ایک  ایک رفیق انسانوں کی بے مقصد بھیڑ کے سینکڑوں افراد پر بھاری ہے  ۔
دعا ہے کہ رب کریم ایم ٹی حسن باپا صاحب کی بھر پور مغفرت فرمائے اور  ان کے کارہائے نمایاں بارگاہ رب میں ان کی مقبولیت   کا سبب بنیں۔آمین 

بلندی درجات  کی دعاکے ساتھ شریک غم

برماور سید احمد سالک  ندوی ۔ حیدرآباد

 

«
»

اردو،ہندی کے اولین شاعر امیرخسرو

راہل استعفے پر بضد رہے تو کانگریس ختم ہوجائے گی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے