دہشت گردی کا تعلق اسلام سے جوڑنا ناانصافی

عارف عزیز(بھوپال)

کل تک پنجاب میں جس طرح ہندوؤں اور سکھوں کو مارا جارہا تھا یا آج کشمیر میں غیر کشمیری ہندو مسلمان دہشت گردی کا نشانہ بن رہے ہیں اس کو الگ الگ نظر سے دیکھنے یا مختلف معنی پہنانے کی ضرورت نہیں یہ سب ظلم اور اس کے مظاہرے ہیں۔ ایک بار جب ظلم اور تشدد کا راستہ کھل جاتا ہے اور اس کے لئے جواز تلاش کرلیا جاتا ہے تو پھر اسے کسی ایک فرقہ تک محدود نہیں رکھاجاسکتا اور آخر میں ظلم وتشدد ، خود ظالم وجفا کار کو کھالیتا ہے ، ہمارے ملک کی بھی یہی روایت بن گئی ہے کہ ظلم وتشدد کسی دوسرے پر ہوتو لوگ بے حس اور بے پرواہ رہتے ہیں لیکن جب یہ خود پر آپڑے تو بہت چیختے چلاتے ہیں۔
۱۹۹۲ء ؁ میں بابری مسجد شہید کرنے کے بعد مہاراشٹر سے اترپردیش تک جس طرح مسلم اقلیتی فرقہ کو تشدد کا نشانہ بنایا گیایا بعد میں گودھرا میں ٹرین آتشزدگی واقعہ کے بعد پوری ریاست گجرات میں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا گیا اور اس کو گودھرا سانحہ کا ردعمل قرار دیکر گویا مسلم اقلیت کی مارپٹائی کا جواز تلاش کرلیا گیا تھا۔
اسی رویہ بلکہ ذہنی تضاد اور جانبداری کا نتیجہ ہے کہ تشدد کی سیاست اس ہندوستان کو کھائے جارہی ہے جس کا کبھی عدم تشدد نصب العین تھا، مہاتماگاندھی نے دیش کی آزادی کی لڑائی اسی عدم تشدد کے اصول پر لڑی تھی جس کے لئے ستیہ گرہ اور ترک موالات کو انہوں نے بطور ہتھیار استعمال کیا تھا، مگر حالات کی یہ ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ آزادی ملنے کے بعد خود گاندھی جی تشدد کا شکار ہوگئے کیونکہ تقسیم ملک سے پیدا ہونے والے تشدد کو وہ روکنا چاہتے تھے۔ گاندھی جی کے بعد تو اس ملک کے لیل ونہار ہی بدل گئے، ان کی زندگی بھر کی تپسیا خاک میں مل گئی اور آج تو تشدد ہماری قومی اور سماجی زندگی کا ایک لازمی حصہ بن گیا ہے وہ کینسر کی طرح ملک کی تمام حصوں میں پھیلتا جارہا ہے اور ڈر اس بات کا ہے کہ یہ بلڈکینسر کی شکل اختیار نہ کرلے جس کا موت کے سوا آج تک کوئی علاج نہیں۔
اس صورت حال کے لئے کم وبیش سبھی ذمہ داری اس سرکار پر عائد ہوتی ہے جو عوامی مسائل سے ان دیکھی کو ہی اپنی کارکردگی سمجھ لیتی ہے حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ تشدد پر اکسانے والی ہر مہم کا فوراً نوٹس لے اور جو عناصر اس کے لئے ذمہ دار پائے جائیں ان کے خلاف بروقت کارروائی کرے مگر حکومتوں کے ۷۲ سالہ طور طریقے نرالے رہے ہیں۔ تخریب پسند اور فسادی عناصر فتنے جگاتے رہتے ہیں۔ تشدد کا راستہ اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہیں نفرت وحقارت کا ماحول پیداکرتے ہیں پھر بھی حکمرانوں کی آنکھیں اور کان بند رہتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ شرارت پسندوں کے خلاف اس ملک میں کوئی قانون نہیں ہے اور نہ ظلم وتشدد کی سیاست چلانا کوئی جرم ہے پھر جب تشدد اور فسادکے لئے زمین اچھی طرح تیار ہوجاتی ہے اور نفرت کی کھیتی لہلہانے لگتی ہے تو قومی ایکتا اور فرقہ وارانہ یک جہتی کا سبق دیا جانے لگتا ہے قول وعمل کے اس تضاد کو دور کئے بغیر ظلم وتشدد کی بیخ کنی ممکن نہیں۔
جہاں تک کشمیر میں جاری تشدد بلکہ دہشت گردی کا تعلق ہے تو اس کو اسلام سے جوڑنا کسی طرح مناسب نہیں کیونکہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو امن کے قیام کے لئے بھی دہشت گردی کی اجازت نہیں دیتا۔قرآن پاک میں واضح اعلان ہے کہ ’’ایک بے گناہ انسان کو قتل کرنے والا پوری نوع انسانی کا قاتل ہے اور ایک بے گناہ انسان کی زندگی بچانے والا تمام انسانوں کو بچانے والا ہے (مائدہ ۳۲) اسی لئے اسلام کو امن وسلامتی کامذہب کہاجاتا ہے جس میں تشد د یا تخریب کاری تک کی اجازت نہیں ظلم وبربریت یا جدید اصطلاح میں دہشت گردی تو بہت آگے کی بات ہے اس لئے آج جو کشمیر میں بے گناہ لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنارہے ہیں وہ کسی طرح بھی اسلام یا مسلمانوں کے نمائندے نہیں ہوسکتے۔ اسلام کی تو واضح تعلیم یہ ہے کہ کتنا ہی مقدس مقصد ہو اس کے لئے اگر ناجائز طریقہ اپنایاجائے تو وہ حرام ہوجاتا ہے۔ جو مذہب مختلف قوموں کے درمیا ن رنگ ونسل کے بھید بھاؤ کا قائل نہیں بلکہ پوری نوع انسانی کو ایک کنبہ قرار دے کر کردار سازی پر زور دیتا ہے اس میں بھلا کس طرح پرامن شہریوں کو مارنے کی اجازت ہوسکتی ہے جو لوگ بھی اس کے مرتکب ہورہے ہیں در حقیقت وہ اپنے عمل سے اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہونچارہے ہیں ساتھ ہی اپنی آخرت کے لئے بھی بربادی کا سامان کررہے ہیں۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 
25؍ مارچ 2019
ادارہ فکروخبر بھٹکل

«
»

شرکا دامن تھام کر نکلے تھے حکومت کرنے

اسلامو فوبیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے