اسلامی تصور سیاست اور دور حاضر

بہاء الدین قادری بہرائچی

موجودہ دور میں حکمرانوں اور سیاستدانوں نے سیاست کو ایک ایسی شناخت دے رکھی ہے اور اس کو اپنے مقصد اصلی سے اتنا دور کر دیا ہے کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کا سیاست سے کیا تعلق اور اسلام کیوں کر اس سیاست کی اجازت دے گا۔ لیکن اسلام اور سیاست ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں کیوں کہ اسلام نے جہاں انسان کی انفرادی زندگی میں رہنمائی کی ہے وہیں اجتماعی زندگی میں بھی رہنمائی کی ہے۔ اسلام دنیا کا یگانہ مذہب بھی ہے اور دنیا کی سب سے بڑی طاقت بھی۔ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ اسلام صرف ایک مذہب ہی نہیں بلکہ مذہب کی حیثیت سے کچھ اور بھی ہے، اس کو حکومت، سیاست اور سلطنت سے وہی تعلق ہے جو اس کائنات کی کسی بھی بڑی حقیقت سے ہو سکتا ہے۔ اس کو محض ایک ایسا نظام نہیں کہا جا سکتا جو صرف باطن کی اصلاح کا فرض انجام دیتا ہے، بلکہ اس کو ایسا دینی نظام بھی سمجھنا چاہیے جو دنیا کے مادی نظام پر عالمگیر غلبہ کا دعویٰ رکھتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآنِ کریم جو اسلامی تصورات اور نظریات کا سرچشمہ ہے اور احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم جو ہدایات کی شارح اور ترجمان ہیں، ان کا ایک بہت بڑا حصہ اسلام اور حکومت و سیاست کے تعلق کو ثابت کرتا ہے،کہیں تاریخی انداز میں اور کہیں تعلیما ت کی پیرائے میں۔ عہدِ رسالت میں اسلامی فلاحی ریاست کا قیام درجہ بدرجہ مدینہ منورہ سے ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امور خارجہ،دفاع، تجارت،عدل و انصاف،صحت،صنعت، تعلیم اور حقوق انسانی سے متعلق واضح نظام ریاست بنایا، بلکہ دنیا کو امور حکومت چلانا بھی سکھایا، اس کے بعد خلفائے راشدین کے زمانے میں یہ نظام اور منظم ہوا اور حقوقِ انسانی کو تحفظ حاصل ہوا،بلکہ جانوروں کو بھی حقوق دیے گئے، جس کی دنیا کے کسی نظام میں مثال نہیں مل سکتی۔ حضرتِ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا دورِ خلافت ایک بہترین دور تھا اور جنکے دور کو اسلام میں گولڈین پیریڈ کہا جاتا ہے اور اس بات کا ثبوت ہے کہ سیاست کو اگر مذہب سے الگ کر دیا جائے تو سیاست کا وہ حال ہوتا ہے جو آج کل ہماری سیاست کا ہے۔ حضرتِ عمر کے ساڑھے دس سالہ دورِ خلافت میں اسلامی ریاست ایران، بلوچستان، خراسان سے طرابلس تک پھیل گئی اور تقریبا ۲۲ لاکھ ۱۵ ہزار مربع میل تک اسلام کا دامن وسیع ہو گیا، جو تاریخِ انسانی میں اس مدت میں ایک ریکارڈ ہے۔ آپ نے اپنی خلافت میں ایک ہزار سے زائد بلاد فتح فرمائے اور زمین پر عدل و انصاف، راستی اور دیانتداری کی اعلی مثالیں قائم فرمائیں۔ ایک طرف مخلوق خدا کے دلوں میں حق پرستی اور پاکبازی پیدا ہوئی تو دوسری طرف ایسا فلاحی نظام قائم کیا کہ ہر شخص کی تمام بنیادی ضرورتیں پوری کیں، حتیٰ کہ جانوروں کے تحفظ کے لیے قوانین وضع فرمائے اور فرمایا کہ اگر نیل کے کنارے کتا بھی بھوکا مر جائے تو عمر ذمہ دار ٹھہرے گا۔ حضرتِ عمر رضی اللہ عنہ کی تاریخ کو جب بڑے بڑے فلسفیوں اور دانشوروں نے پڑھا تو انتہاء متاثر ہوئے اور کہا کہ مسلمانوں کے پاس اگر ایک اور عمر ہوتا تو پوری دنیا میں اسلام کے علاوہ کوئی مذہب نہ ہوتا اور مسلمان کے علاوہ کوئی قوم نہ ہوتی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک بڑا ہی دلچسپ اور عبرت انگیز واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ آپ مسجد میں منبر رسول پر کھڑے ہو کر خطبہ دے رہے تھے کہ ایک غریب شخص کھڑا ہو گیا اور کہا کہ اے عمر ہم تیرا خطبہ اس وقت تک نہیں سنیں گے جب تک یہ نہ بتاؤ گے کہ یہ کپڑا جو تم نے پہنا ہوا ہے زیادہ ہے جب کہ بیت المال سے جو کپڑا ملا تھا وہ اس سے بہت کم تھا تو عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجمع میں میرا بیٹا عبداللہ موجود ہے، کپڑا کم ہونے کی وجہ سے میں نے اپنے بیٹے کے حصے کا کپڑا خود پہن لیا ہے یہ تھا اس دور کے حکمراں اور رعایا کا حال۔ کاش کہ اسلامی ممالک کے حکمران دور فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو پیشِ نظر رکھ کر نظام حکومت قائم کریں تو نہ صرف اسلامی ممالک میں خوشحالی اور امن و آشتی کی فضاء پیدا ہو جائیگی بلکہ زمانہ بھر کے غیر مسلم اسلام کے اعلی اور کامل فلاحی نظام کو دیکھ کر متاثر ہوں گے اور اسلام کے دامن سے دھیرے دھیرے وابستہ ہو جائیں گے۔ آج پوری دنیا میں مسلمانوں کو ستایا جا رہا ہے اور مسلمانوں کا خون پانی کی حیثیت اختیار کر چکا ہے،ساری انسانی قدریں ختم ہو چکی ہیں۔ برما، فلسطین شام، عراق میں مسلمانوں کو جس بے رحمی کے ساتھ مارا جا رہا ہے ان سب کے ذمہ دار یہ مسلم حکمران ہیں جنہوں نے تمام اسلامی تشخص کو روند کر رکھ دیا ہے اور مفاد پرستی کی خاطر اپنے ضمیر کو مغرب کے ہاتھوں بیچ دیا ہے۔
موجودہ دور میں جب ہم سیاست کا نام سنتے ہیں تو ہمارے ذہنوں میں سیاست کا جو تصور آتا ہے وہ بہت غلط ہے، اس میں جھوٹ، وعدہ خلافی، ایک دوسرے پر الزام تراشی، حکومت سازی کے لیے چالبازی، دھوکا دہی شامل ہے، عوام سے جھوٹے وعدے، خود غرضی وغیرہ بھی لازم طور پر آتا ہے اور یہ تصور دنیا میں موجودہ سیاست کے پیشِ نظر بالکل صحیح بھی ہے، اس لیے کہ آج ہم اس قسم کی سیاست کا تجربہ اور مشاہدہ کر رہے ہیں، گویا سیاست ایک گندا کھیل اور گھناؤنا عمل ہے،بالخصوص ہمارے وطن عزیز ہندوستان میں یہ کھیل کچھ زیادہ ہی گھناؤنا بنا دیا گیا ہے، یہاں تک کہ کسی شریف، باوقار، صالح و دیندار اور سنجیدہ اشخاص کے بارے میں جب سنا جاتا ہے کہ وہ سیاست میں ہیں تو ہمارے دلوں میں ان کی عزت کم ہوجاتی ہے، ہم سیاست کو ان کی بلند شان اور اعلیٰ مقام کے منافی تصور کرتے ہیں، کیونکہ ہماری نگاہ میں سیاست کا دین سے کوئی ربط و تعلق نہیں ہے، سیاست خالص دنیاوی معاملہ بن گیا ہے جس میں مکر و فریب، جھوٹ، فساد کے سوا کچھ نہیں ہے، حقیقت تو یہ ہے کہ موجودہ سیاست نام ہے بدعنوانی اور بد عہدی کا، ذخیرہ اندوزی کا اور اقربا پروری کا، عوام کے جذبات سے کھیلنے اور منافرت پھیلانے کا، سیاست نام ہے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کا اور آج کے سیاستدان حکمراں اور ماہرین سیاست بڑی شدّت کے ساتھ کہتے ہیں کہ سیاست کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے اور دونوں کو الگ الگ رکھنے ہی میں بھلائی ہے تو میں ان سے واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ اسلام اور سیاست کے درمیان بڑا ہی گہرا تعلق ہے، اسلام اور سیاست دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ لیکن یہ بات بھی تسلیم شدہ ہے کہ دنیا میں موجودہ سیاست کا اسلام سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں۔ اسلام کا دستور زندگی اپنی جامعیت کے لحاظ سے ممتاز و منفرد ہے۔جس نے عوام و خواص، حاکم و محکوم اور امیر و غریب کو ایک سطح پر رکھ کر ان میں خاندانی، نسلی اور ملکی تفریق کو ختم کیا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ جب تک دنیا میں سیاست کو اسلام سے الگ رکھا جائے گا دنیا ہلاکت و بربادی کی طرف بڑھتی چلی جائے گی۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 
20؍ فروری 2019
ادارہ فکروخبر بھٹکل 

«
»

جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے، جنگ کیا مسئلوں کا حل دیگی

آتنکی حملے کیوں ہوتے ہیں؟!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے