میں ناتھو رام گوڈسے کٹر ہندو تو وادی !!!

احساس نایاب

میں قاتل رام چندر ہندوستان کا پہلا دہشت گرد و غدار ہوں جسکی بغاوت نے بابائے ہند کہلانے والے گاندھی کو شہید کر کے ہندوستان میں نفرت کا زہر گھول دیا میرے اس کام میں میرا ساتھ دینے والے میرے ہی ہم خیال، ہمسایہ میرے گرو ساورکر اور ہندوتوا سے جڑے وہ سارے دلال ہیں جو آزادی سے قبل انگریزوں کی مخبری کیا کرتے تھے،قدم قدم پہ انہیں کی حوصلہ افزائی نے مجھ میں وحشت کی ایسی روح پھونکی جس کے بعد ایک نہتھے، اہنساوادی انسان پہ گولیاں چلاتے ہوئے ایک پل کے لئے بھی میرے ہاتھ نہیں کانپے ویسے میری پرورش بھی ایک حد تک میری شخصیت کی ذمہ دار تھی،

میری پیدائش 1910 میں ہوئی میں اپنے ماں باپ کا پہلا بیٹا تھا جو زندہ رہ گیا، مجھ سے پہلے میرے تین بھائی بچپن ہی میں مرگئے جسکی وجہ سے میرے والدین نے میری پرورش لڑکیوں کی طرح کی کیونکہ اندھ وشواس کے چلتے اُن کا ماننا تھا کہ لڑکیوں کی طرح پرورش کرنے سے میری جان بچ جائے گی اور اپنی اسی سوچ کے چلتے میری پیدائش کے وقت میری ماں نے بھگوان کے آگے ایک بےتکی سی منت مانگی تھی کہ اگر انہیں لڑکا پیدا ہوگا اور وہ زندہ رہے گا تو اُس بچے کی ناک میں نتھ ڈالونگی، بدقسمتی سے میں لڑکے کی شکل میں پیدا ہوگیا اور منت کے مطابق میری ناک چھید کر نتھ ڈال دی گئی جسکی وجہ سے میرا نام رام چندر سے ناتھورام گوڈسے بن گیا اور طویل عرصہ تک میری پرورش لڑکیوں کی طرح ہی کی گئی یہاں تک کہ کئی دوست احباب کو بھی اس حقیقت سے بےخبر رکھا گیا کہ میں لڑکا ہوں، پھر وقت گذرتا گیا اور گذرتے وقت کے ساتھ میرے اور تین بھائی دنیا میں آئے مگر میری پرورش نے میرے ذہن پہ بہت گہرا اثر ڈال دیا تھا جسکی وجہ سے میں دوسرے بھائیوں سے مختلف تھا، ہمیشہ گھنٹوں گھنٹوں پتھر کی مورتی کے آگے بیٹھ کر پوجا دھیان میں اپنا وقت گذارتا، لوگوں سے میل جول کرنا مجھے پسند نہیں تھا اور جیسے جیسے میں بڑا ہونے لگا میرے اندر غصہ بڑھتا گیا، میں اپنے اندر چھپی مردانگی کو ظاہر کرنا چاہتا تھا مگر بچپن میں میرے حالات اور میرے ساتھ لوگوں کا جو رویہ تھا اُس کے چلتے میں کبھی کھل کر جی نہیں پایا اور عمر کے ساتھ میری یہ گھٹن میرے اندر لاوے کی طرح پنپنے لگی، جوانی کی دہلیز میں پہنچنے کے باوجودمیری ذہنی کیفیت میں کوئی سدھار نہیں ہوا، مجھے عورتوں سے سخت گھن محسوس ہوتی، میرے اندر سماج کے لئے نفرت تھی میں سب سے علیحدہ علیحدہ رہنے لگا اور پونے میں رہ کر اسکول کی تعلیم حاصل کی حالانکہ میرا من اسکول کی پڑھائی میں کبھی نہیں لگا بلکہ میں زیادہ دھارمک گرنتھوں و تاریخی واقعات کا مطالعہ کرتا، اسی کے چلتے انگریزی میں فیل ہوگیا اور میٹرک پاس نہیں کرسکا تو کچھ وقت تک کارپینٹر کا کام سیکھنے لگا اسی دوران میرے والد کا ٹرانسفر رتناگری میں ہوگیا اور یہ میری زندگی کا نیا موڑ تھا، 1929 میں رتناگری میں جب میری ملاقات ساورکر سے ہوئی اُس وقت میری عمر 16، 17 سال تھی اور میں اکثر اُن کے پاس جایا کرتا دراصل میں ساورکر کی شخصیت سے بہت متاثر ہوچکا تھا اُنکی باتیں میرے اندر کی گھٹن میں جان بھر دیتی

«
»

جنگ احد کے بعدمسلمان تلواروں کے سایہ میں۔

آج نہیں تو کل سچائی سامنے آئے گی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے