حقوق نسواں کا نعرہ محض ایک ڈھکوسلہ ہے !!!

 

احساس نایاب

خواتین کو انصاف دینے کا ڈھونگ کرنے والی مودی سرکار اور حقوق نسواں کے جھوٹے دعویدار کہاں گئے؟ ہماری ہندو بہنیں اپنا حق مانگ رہی ہیں، دقیا نوسی رسم و رواج سے نجات چاہتی ہیں، کیا انکی آواز کسی کو سنائی نہیں دے رہی ہے؟ کیا ہندوتوادیوں کو سانپ سونگھ گیا ہے؟ یوں تو مسلم خواتین کے لئے جھوٹی ہمدردی کا ڈھونگ بہت رچا لیا لیکن جہاں ہندو بہنوں کو انصاف کی ضرورت ہے وہاں پہ انکی نیتوں میں کھوٹ کیوں ہے، سیاست کے نام پہ ایک ہی ملک کے مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والی خواتین کے بیچ اتنا بھید بھاؤ آخر کیوں؟یہ تو سراسر ناانصافی اور دوغلا رویہ ہے،

ایک طرف شبری مالا معاملے کو اپنی انا کا مسئلہ بناکر ہندو مذہب کی عورتوں کو ان کے جائز حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے، جبکہ ابھی کچھ ہی دنوں قبل سپریم کورٹ کی جانب سے ہندو خواتین کے حق میں یہ فیصلہ آچکا تھا کہ شبری مالا مندر میں ہر عمر کی خواتین جا سکتی ہیں باوجود اس کے سپریم کورٹ کے فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے قانون آور دستور کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں جو کہ کھلے عام ہندوستانی آئین اور دستور سے بغاوت کا اعلان تھا، دراصل ان کی نظر میں عورتوں کے جذبات کی کوئی قدر و قیمت ہی نہیں ہے وہ تو آج بھی عورت کو حقیر، منحوس اور پاؤں کی جوتی ہی سمجھتے ہیں، تبھی 800 سالہ قدیم مندر میں 10 سے 50 سال کے درمیانی عمر کی عورتوں کا جانا نحوست کی علامت مانا جاتا ہے، اور اس کی وجہ صرف اتنی سی تھی کہ 1950 میں اچانک مندر میں آگ لگ گئی تھی اور اُس وقت سے اندھ وشواس اور بد اعتقادی کی وجہ سے عورتوں کا شبری مالا مندر میں داخلہ ممنوع کردیا گیا، پھر 1990 میں یہ معاملہ کورٹ تک پہنچا اور 1991 میں کورٹ کی طرف سے بھی یہی فیصلہ سنایا گیا کہ عورتیں مندر نہیں جاسکتی لیکن

28 دسمبر 2018 کو سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کی ایک بینچ نے کورٹ کے پچھلے فیصلے کو ختم کردیا.

سال 2006 میں مندر کے اہم جیوتشی “پرپنگری اُنیکِرشنن” نے 4 دن مندر میں پوجا کرنے کے بعد یہ دعویٰ کرنے لگے کہ مندر کے “بھگوان ایاپہ” اپنی طاقت کھو رہے ہیں اور اس کی وجہ مندر میں ضرور کسی عورت کا داخل ہونا ہے، “پنڈت” کے اس دعوے کے بعد جو بات سامنے آئی وہ یہ تھی کہ جئے مالا نامی ایک سابق ایکٹریس جو کرناٹک میں(بال وکاس منتری ہیں)یہ اپنے شوہر کے ساتھ شبری مالا مندر گئی تھیں اور وہاں پہ بھیڑ بھاڑ میں دھکا لگنے کی وجہ سے وہ بھگوان ایاپہ کے پیروں میں گر پڑی، اُس وقت وہاں کے پجاری نے انہیں پرساد کی شکل میں پھول دیا،اس واقعے کے سامنے آتے ہی اُن پہ مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کا الزام لگا کر اُن پہ کیس کردیا گیا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اُس مندر میں داخل ہونے والی عورتوں میں صرف جئے مالا ہی ایک عورت نہیں تھی بلکہ ان سے پہلے بھی “کے بی ولسلہ” نامی 41 سالہ خاتون جو اُس وقت کی “آئی اے ایس” آفسر تھیں اور 1995 میں 41 سالہ ولسلہ پٹھانہ ضلع کی کلکٹر بھی تھیں اُس وقت وہ آفیشیل ڈیوٹی پر شبری مالا مندر گئی تھیں، کیونکہ ہر سال وہاں پہ زیادہ لوگوں کے جمع ہونے کی وجہ سے بہت زیادہ گندگی ہوجایا کرتی تھی، سنیٹیشن کی وجہ سے مندر کے کیمپس میں کوڑے کا ڈھیر لگ جایاکرتا تھا جسکو ولسلہ نے ہٹوایا اور وہاں پہ صاف صفائی کا بندوبست کروایا باوجود اس کے آج بھی ان کی نظر میں 10 سے 50 سال کے درمیانی عمر کی عورتیں ناپاک ہی ہیں تبھی آئے دن انہیں تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جیسے اترپردیش میں ایک مظلوم عورت پہ جھوٹا الزام لگاکر اسکو سرعام سڑکوں پہ برہنہ کر دوڑایا گیا، اُس کی پٹائی کرتے ہوئے ویڈیو، تصاویر سوشل میڈیا پہ وائرل کی گئیں اور پولس خاموش تماشبین بنی رہی، ویسے مودی راج کے پانچ سالہ اقتدار میں یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ ہندوستان کی کئی ریاستوں میں خواتین پہ اس طرح کے مظالم معمول بن چکے ہیں، راہ چلتی لڑکیوں کے ساتھ چھیڑچھاڑ، جنسی استحصال اور اجتماعی عصمت ریزی جیسے واقعات تو ہر دن ہر اخبار کے فرنٹ پیچ کی زینت بنی رہتی ہیں اور تعجب کی بات تو یہ ہے کہ اس طرح کی شرمناک حرکت انہیں ریاستوں میں زیادہ ہورہی ہے جہاں پہ کمل کھلا ہوا ہے اور اسی کمل نے پورے ہندوستان کو جرائم سے بھرا گندہ تالاب اور دلدل بنادیا ہے جسکی وجہ سے بیرون ممالک میں آج ہندوستان کی شیبہ اتنی بگڑ چکی ہے کہ ہمارے ملک کو ریپسٹ انڈیا کہا جاتا ہے اور یہ ہر ہندوستانی کے لئے بیحد شرمناک ہے، ان بلاتکاری اور ہوس کے پجاری بھاچپائی نیتاؤں کی وجہ سے ہندوستان میں آج کوئی بھی خاتون محفوظ نہیں ہے کیونکہ یہاں پہ خود سرکاری منتری سنتری بلاتکاری ہیں آور پولس ان کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بن کر انہیں کھلے عام شہ دے رہی ہے، یا وہ خود ایسے گھناؤنے فعل میں ملوث پائے جاتے ہیں

اور جب کوئی لڑکی انصاف کے لئے آواز بلند کرتی ہے تو اُس لڑکی اور اُس کے اہل خانہ کو موت کے گھاٹ اتاردیا جاتا ہے

«
»

مودی جی واپسی کیلئے پورا خزانہ لٹا سکتے ہیں

ملک کے لیے اہم کون: گائے یا انسان؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے