حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ:حیات،خدمات،تعلیمات

 

عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ

اولیاء کرام کا دل نواز تذکرہ ہر زمانہ میں قلب مضطر کے اطمینان کا باعث اور روح پریشان کی تسکین کا سبب ہے۔ان کی تابندہ زندگی کا ورق ورق، گم کردہ راہوں کے لیے مشعل نور اور گناہ گاروں کے لیے خضرطریق ہے۔یہ سچ ہے کہ ان کی ایمان افروز اور جاں سوز قربانیوں کےمطالعہ سے یقین محکم اور عمل پیہم کا جذبہ بیدار ہوتاہے،نامساعد حالات میں کام کرنے کا حوصلہ ملتا ہے،مخالفین و معاندین کو قوت کردار سے رام کرنے کے گر معلوم ہوتے ہیں۔

اولیاء اللہ کے اس منصب جلیل پر فائز ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ معرفت الہٰی اور حب نبوی سے سرشار ہوتے ہیں،تبلیغ دین اور اشاعت اسلام کے علم بردار ہوتے ہیں،صدق و صفا اور مہر و وفا کے مجسم کردار ہوتے ہیں۔خلوص و بے نفسی ان کا ہتھیار ہوتا ہے،تحمل و بردباری ان کا شعار ہوتاہے،اخلاق و اعمال ان کے لیے ڈھال ہوتے ہیں،وہ ہرطرح کی ذہنی غلامی سے آزاد،دنیوی نقصان و ضرر کے اندیشوں سے لاپرواہ اور مادی منافع کے حصول سے بے غرض ہوکر کام کرتے ہیں۔

ان کی کتاب زندگی کے تمام ابواب اور ہرباب کی تمام دفعات کا صرف ایک مقصد ہوتا ہے کہ ایسا سماج تشکیل پاجائےجس میں انسانیت نوازی،اخوت و رواداری، پرامن بقاء باہمی اور تحمل و بردباری کی بالا دستی ہو۔اور اس معاشرے کا خاتمہ ہوجائے جس میں ظلم و تشدد،نفرت و عداوت،خوف و وحشت اور نافرمانی و معصیت کا دور دورہ ہو۔

مولانا عبدالماجد دریابادی لکھتے ہیں :ولی کے لغوی معنی قرب رکھنے والے اور دوست کے ہیں، اولیاء اللہ کے معنی ہوئے اللہ سے قرب رکھنے والے۔یہ مرتبہ حاصل کس طرح ہوتاہے اس کا ذکر بھی  عین اسی مقام پر کلام مجید میں  موجود ہے:"وہ لوگ جو ایمان لائے اورجنھوں  نے تقویٰ اختیار کیا"۔ سبحان اللہ ولی اللہ کی کیسی جامع ومانع تعریف بیان فرمادی گئی، ضروری صرف دو چیزیں  نکلیں، پہلی چیز ایمان یعنی عقائد درست ہوں  اللہ پر کامل ایمان ہو قوائے نظری کے لحاظ سے  تزکیہ ہوچکا ہو، بس یہی لوگ ولی اللہ، نہ غیب واقفی نہ پیشینگوئیاں   نہ خرق عادت نہ بیوی بچوں  سے نفرت۔   ایسے لوگوں  کے لیے خوشخبری اس دنیا کی زندگی میں  بھی اور آخرت میں  بھی!۔۔۔۔۔۔چناں چہ تجارت کرنا، گلہ بانی کرنا، لوگوں  سے ملنا جلنا، دشمنانِ دین سے جنگ کرنا، شرائط صلح طے کرنا، مالِ غنیمت تقسیم کرنا، جزیہ کا حساب کتاب رکھنا، بیوی بچے رکھنا، ایک وقت میں  کئی کئی بیویاں  رکھنا، اپنا سارا کام کاج اپنے ہاتھ سے کرنا یہ سب چیزیں  جب نبوت و صدیقیت کے منافی نہ ہوئیں  تو ولایت کا درجہ نبوت سے تو بہرحال کمتر ہے کافروں  کا تخیل حضرات انبیاء سے متعلق بھی ایسا ہی مسخ شدہ تھا حیرت اور اعتراض کے ساتھ کہا کرتے تھے کہ یہ کیسے رسول ہیں  کہ کھاتے پیتے بھی رہتے ہیں  اور ہم ہی لوگوں  کی طرح بازاروں میں  چلتے پھرتے رہتے ہیں!بس ایسے ہی کچھ واہمات،اولیاء الٰہی کے متعلق ہم نے گڑھ لئے ہیں  حالانکہ ولی کے لیے جو شئی ضروری ہے وہ صرف اللہ سے تعلق اور رضائے الٰہی کی طلب ہے۔(سچی باتیں)

اللہ کے ان اولیائے باصفااورمقربین بارگاہ  میں حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ بھی ہیں جو تعلیم و تربیت حاصل کرنے کے تقریباً چونتیس سال بعد چھٹی صدی کے آغاز میں رشد و ہدایت کا فریضہ سرانجام دینے کے لئے میدان کارزار میں اتر چکے تھے۔ آپ کا دور مسلمانوں کے سیاسی نشیب و فراز، مذہبی کشمکش، مادیت پرستی اور اخلاقی بے راہ روی کا دور تھا۔ ان حالات میں آپ نے علم کی ترویج اور امت کی روحانی تربیت کے ساتھ ایک خاموش انقلاب برپا کیا۔ آپ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ اداکرتے ہوئے دنیا کی بے ثباتی کو عیاں کیا اور فکر آخرت کو اجاگر کیا۔ تجدید و احیائے دین کے لئے آپ کی کوششوں کی وجہ سے ہی آپ کو محی الدین کے لقب سے یاد کیا گیا۔

ولادت اورتعلیم تربیت:

  حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی کا نام عبد القادر ہے، والدمحترم کا نام ابو صالح عبد اللہ ہے، آپ کے بہت سارے القاب ذکر کئے گئے جن میں چند یہ ہیں: شیخ الاسلام، علم الاولیاء، محی الدین۔ کنیت ابومحمد ہے، جیلان میں آپ کی ولادت 471ھ میں ہوئی۔ آپ کا سلسلہ نسب حضرت حسن بن علی پر ختم ہوتا ہے۔( سیر اعلام النبلاء:2۰/439،الوافی بالوفیات:19/22)

حضرت شیخ نے اٹھارہ سال کی عمر میں تحصیل علم کے لئے اپنے وطن کو چھوڑا اوربغداد پہنچے۔اور اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ:میں نے اپنی والدہ سے کہا:مجھے خداکے کام میں لگادیجئے اور اجازت مرحمت کیجئے کہ بغداد جاکر علم میں مشغول ہوجاؤں اور صالحین کی زیارت کروں۔ والدہ رونے لگی، تاہم مجھے سفر کی اجازت دے دی اور مجھ سے عہد لیا کہ تما م احوال میں صدق پرقائم رہوں۔ والدہ مجھے الوداع کہنے کے لئے بیرون  خانہ تک آئیں او ر فرمانے لگیں :تمہاری جدائی خداکے راستے میں قبول کرتی ہوں۔ اب قیامت تک تمہیں نہ دیکھ سکوں گی۔( غنیۃ الطالبین مترجم :18)

حضرت شیخ  ؒنے بڑی قربانیوں کے ساتھ علم حاصل کیا، تنگ دستی اور مشکلات کے باوجود حصول علم میں لگے رہے اور اپنے وقت کے اساطین علم سے کسب فیض کیا۔آپ کے اساتذہ میں ابو الوفاء، ابن عقیل، محمد بن الحسن الباقلانی اور ابو زکریا جیسے نامور علماء وائمہ فن کا نام نظرآتا ہے، طریقت کی تعلیم شیخ ابو الخیر حماد بن مسلم الدباس سے حاصل کی اور قاضی ابو سعید مخرمی سےسلوک کی تکمیل کی اور اجازت سےسرفرازکیےگئے۔ ( تاریخ دعوت و عزیمت:1/198)

درس و تدریس:

 

۵۲۸ھ میں حضرت شیخ کے استاد اور مرشد قاضی ابو سعید مخرمی کا قائم کردہ مدرسہ حضرت شیخ کے حوالے کیا گیا جس میں انہوں نے مختلف تیرہ علوم و فنون کی تدریس کا کام سنبھالا۔ اس سلسلے میں نحو، تفسیر، حدیث، اصول فقہ، حنبلی فقہ جس میں اختلاف مذاہب بھی شامل ہے قابل ذکر ہیں۔آپ نے جب مدرسے میں درس شروع فرمایا تو طلبا کی تعداد کچھ زیادہ نہیں تھی لیکن آپ کی وسعت علم کی شہرت بہت جلد بغداد اور اس سے باہرپہنچ گئی اور دور دراز کے طلبا جوق در جوق آپ کے درس میں شریک ہونے لگے اور حالت یہاں تک پہنچ گئی کہ مدرسہ تنگ پڑ گیا اور اس کو وسیع کرنے کی نوبت آگئی۔جب مدرسے کی توسیع کا کام پورا ہو گیا اس وقت اس مدرسے کا نام مدرسہ باب الازج کے بجائے مدرسہ قادریہ ہوگیا اور اس کی شہرت سارے عالم میں پھیل گئی۔

مفکر اسلام مولانا ابو الحسن علی ندویؒ لکھتے ہیں کہ:اعلی مراتب ولایت پر فائز ہونے اور نفو س کی اصلاح و تربیت میں ہمہ تن مشغول ہونے کے ساتھ آپ درس وتدریس، افتاء اور تصحیح اعتقاد اور اہل سنت کی نصرت و حمایت سے غافل نہ تھے،مدرسہ میں ایک سبق تفسیر کا

«
»

افریقہ کے الفت کدے میں

مدارس میں میڈیا کی تعلیم: وقت کی اہم ضرورت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے