ادارہ ادب اسلامی ہند بھٹکل کا’’بیاد اشرف ‘‘مشاعرہ ۔ کئی ایک پہلو ناقابل فراموش

سید سالک برماور ندوی

بھٹکل میں گزشتہ شب ادارہ ادب اسلامی ہند کا سالانہ عوامی مشاعرہ ہر بار کی طرح اس بار بھی سید علی کیمپس احاطہ شمس اسکول میں منعقد کیا گیا۔ چونکہ اس مشاعرہ کوتحریک ادب اسلامی بھٹکل کے مایہ ناز شاعر سید اشرف برماور کے نام سے معنون کیاگیا تھا اس لئے دیگر تحریکی پروگراموں سے بڑھ کر اشرف صاحب اس میں کچھ زیادہ ہی یاد آئے ۔ ان کا وہ سادہ انداز ، وہ دل گداز شاعری ، وہ خوبصورت اشاریے ،اور سماجی بے رہ روی پر طنز ، سب کچھ رہ رہ کر یاد آیااور سب سے بڑھ کر ان کا اخلاص اور نو آموز شعرا کی ہمت افزائی.کیونکہ یہ چیزیں تو آج کل خال خال ہی دیکھنے کو ملتی ہیں ۔ اب ہماری اس فہرست میں مقامی طور پر ڈاکٹر شباب صاحب تنہا نظر آتے ہیں جو نو مشق قلمکاروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں اور انہیں قیمتی مشورے دیتے ہیں ۔ وہ اس لئے بھی کہ جس اخلاص اور بے نفسی کے ساتھ کام کرتے ہوئے پچھلے بیس تیس برسوں میں اپنا خون جگر دے کر  تحریک ادب اسلامی ہند بھٹکل کی سرگرمیوں کو ملکی طور پر انہوں نے جو اعتبار بخشاہےوہ اس تاریخ کا خوبصورت باب ہے ۔ اس ضمن میں انہوں نےاپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کرکئی ایک خوبصورت مشاعرے ، ادبی سیمنارس اور ورکشاپ منعقد کئے۔ میں سمجھتا ہوں وہ باتیں صرف شعرااور اہل ذوق اورارباب نظر ہی نہیں بلکہ عوام کے ذہن میں بھی دیر تک تازہ رہیں گی۔

 کل رات کے مشاعرے میں ہمارے حلقہ کے ممتاز شاعر اور ادب اسلامی ہند کے کاز کےلئے اپنا تن من قربان کرنے والے حضرت مظہر محی الدین صاحب کی  ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی خدمت میں سپاس نامہ پیش کیا گیا ۔رفقائے ادب اسلامی بھٹکل نے مظہر صاحب کی شال پوشی و گل پیشی کی ۔ایک ادب نواز نے مظہر محی الدین کا تازہ مجموعہ کلام "بشارت" کی 10عدد کاپیاں10ہزار روپیوں میں خرید کر اپنی سخن نوازی کا ثبوت دیا۔

 مظہر صاحب کی تہنیت کا اعزاز بھی بھٹکل کے اس مختصر قافلہ کو حاصل ہوا۔ اس سے پہلے ڈاکٹر محمد حسین فطرت صاحب کو بھی عوامی سطح پر کسی بڑے پروگرام میں عزت افزائی کا شرف بھی ادارہ ادب اسلامی ہند بھٹکل شاخ کو حاصل ہوا ہے ۔ مشاعرہ راست دیکھنے کا بھی اتفاق ہوا، نئے فنکاروں کواسٹیج سے پڑھنے کا جو موقع دیاگیا وہ ادب اسلامی بھٹکل کے اس قافلہ کے خوش گوار مستقبل کی طرف اشارہ کررہا تھا۔ مشاعرہ اشرف صاحب کی یاد میں تھاجس کی وجہ سے مجھے بھی شریک نہ ہونے کا افسوس ہوا اور شباب صاحب نے اخیر میں جو بات کہی اس نے گویا میرے وجود کو ہلا کر رکھ دیا اور ایک عجیب بے چینی پیدا ہو گئی۔ ڈاکٹر صاحب نے اشرف صاحب کا ذکر چھیڑ کرپہلے ہی نم دیدہ کردیاتھا۔

اب جب کہ اسلامی ادب کو مدتوں اپنی آنکھوں کی روشنی بنانے والی بوڑھی آنکھیں بجھنے لگی ہیں اور تازہ دم فنکار اُس جذبے کے ساتھ آگے نہیں بڑھ رہے ہیں جسکی امید ان سے لگائی جا رہی ہے، بازاری شاعری عام ہو رہی ہے اور مقصدی شعرا کی آواز اس بھیڑ میں مؤثر ثابت نہیں ہو رہی ہے ۔ اب یہی فکر ہے کہ فطرت صاحب اور اشرف صاحب کی کمی ابھی نہ جانے کب پوری ہوگی اور شباب جیسے جیالےاور مظہرمحی الدین جیسے جنوں کی کیفیات لئے کون آگے بڑھے گا ۔

 

«
»

الوداع دو ہزار اٹھارہ

اسلامی ماحول کے معیاری اداروں کی ضرورت اور نصاب۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے