تن ہمہ داغ داغ شد بدن زخموں سے چُور چُور ہے

محمد الیاس محی الدین ندوی

(صدر ادارہ فکروخبر)

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے آج جب رات کو لیٹنے کے لیے بستر پر گیا تو بہت دیر تک نیند نہیں آئی،غیر محسوس بے چینی وبے قراری ساتھ نہیں چھوڑ رہی تھی، گزشتہ تین دنوں میں عالم اسلام میں پیش آنے والے مختلف اندوہناک واقعات کے تصور ہی سے اپنے کمزور ایمان کے احساس کے باوجود دل ودماغ متاثرتھا، وہ کیا پریشان کُن واقعات تھے جنھوں نے میری آنکھوں سے بہت دیر تک نیند کو کوسوں دور کردیاتھا، آپ بھی سن لیجیے اور شریکِ غم ہوجائیے:۔
جب معمول کے مطابق کل میں نے فجر بعد تازہ عالمی وملکی خبریں دیکھنے کے لیے انٹرنیٹ کھولاتھا تو صرف سرخیاں پڑھ کر ہی دل بہت اداس ہواتھا اور طبیعت بجھ سی گئی تھی، عالمی سطح پر صرف ایک دن میں تین سو کے قریب مسلمان لقمہ اجل بنے تھے، یمن میں حوثیوں کے میزائیل حملہ میں ستائیس معصوم اہل ایمان نشانہ بنے جن میں پندرہ بچے بھی شامل تھے، شام کی خانہ جنگی میں تازہ ترین واقعہ میں دیڑھ سو سے زائد شامی مسلمان شہید ہوئے ،ادھرلیبیامیں طرابلس کے قریب عوامی بھیڑمیں بم دھماکہ سے سترّ کے قریب بے قصور اہلِ اسلام ابدی نیند کی آغوش میں پہنچ گئے اور کابل میں طالبان اور سیکورٹی فورسز میں جھڑپ کے دوران سات پولس والے اور پچیس طالبان کام آئے۔
ایک صاحب ایمان کے حزن وملال کے لیے یہ المیہ کیا کم تھا کہ صرف چوبیس گھنٹہ میں عالمی سطح پربغیرکسی جرم کے موت کی آغوش میں جانے والے سب کے سب ہمارے ملّی بھائی تھے،لیکن اس سے زیادہ افسوس ناک بات یہ تھی کہ ان سب کو شہید کرنے والے بھی خود ہمارے ایمانی بھائی ہی تھے،دوسرے الفاظ میں ظالم ومظلوم دونوں کا ہماری ہی ملت سے تعلق تھا، کسی تیسرے غیر مسلم بھائی نے ان کو نشانہ نہیں بنایاتھا،میں نے صبح اٹھ کر پچھلے ایک ہفتہ کی پرانی خبروں کوکھنگالا اور اس میں اس بات کو بہت تلاش کیا کہ شایدماضی قریب میں غیرمسلم ملکوں میں بھی مسیحی، یہودی یا دوسرے مذہب والوں میں بھی اس طرح کی خانہ جنگی کے حادثات رونما ہوئے ہوں،اگر کوئی خبر اس طرح کی مل جاتی تو میراغم شایدہلکا ہوتا اور اُداسی کے بوجھ میں تخفیف ہوتی،لیکن تلاش بسیار کے بعد بھی کوئی خبر نظر سے نہیں گزری۔
دوسری خبر جس نے بے چینی میں اضافہ کیاوہ ایک عرب ملک سے آنے والی یہ خبر تھی کہ ان کے یوم الوطنی یعنی نیشنل ڈے کے جشن میں کرسمس کی طرح دنیا کااب تک کا عالمی ریکارڈ توڑنے والا سب سے بڑا کیک کاٹا گیا اور رات بھر عوام کی طرف سے ہی نہیں بلکہ خود حکومت کی طرف سے سرکاری سطح پر وہ تاریخی آتش بازی ہوئی کہ شاید شیطان بھی شرماگیا اور اس پر اس قدربے تحاشہ خرچ کیا گیاکہ اس کا تخمینہ ایک غریب افریقی ملک کے سالانہ بجٹ کا ایک چوتھائی حصہ بنتاتھا۔
تیسری المناک خبر یہ تھی کہ اقوامِ متحدہ کے بچوں سے متعلق ادارہ کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق دنیا میں موجود دس فیصد سے زائد بچے غذائی کمیت کا شکار ہیں ،بالفاظ دیگرپانچ کروڑ سے زائد بچوں کو وقت پر کھانا نہیں ملتا اور وہ نانِ شبینہ کے محتاج بن کر جی رہے ہیں،بحیثیت انسان ہم سب کے لیے یہ کربناک خبرتھی ہی لیکن بحیثیت مؤمن ومسلم المناک اس لیے تھی کہ اس فقروفاقہ میں مبتلابچے اکثر مسلم افریقی ممالک سے تعلق رکھتے تھے،یعنی ہماری ملت کا ہر دسواں بچہ اپنی جان بچانے والے لقموں سے اب بھی محروم ہے، ایک طرف مسلم امت کی فضول خرچی اور اسراف وتبذیر کا وہ عالم جو اوپر بیان ہوچکا اور دوسری طرف ملت اسلامیہ میں غربت وفاقہ کشی کا یہ حال کہ شام میں مسلم مہاجرین کے کیمپس میں جان بچانے کے لیے دو سال قبل مردہ گوشت سے پیٹ کی آگ بجھائی گئی تھی۔
چوتھی اہم بات جس نے بے قراری اور بے کلی کومزید بڑھادیا تھاوہ بھی سنیے، کل عصر بعد جب معمول کے مطابق دفتر گیاتو ڈاک ٹیبل پر رکھی ہوئی تھی، اس میں درجنوں رسائل ومجلات کے ساتھ ایک دعوتی وعلمی ادارہ کا خصوصی نمبر بھی تھا جس کا عنوان تھا ’’مسلم امت کو درپیش مسائل وچیلنجز اور اس کا حل ‘‘ کئی سو صفحات پر مشتمل یہ شمارہ تھا ، اس تاریخی دستاویز میں موجود ملت کے قائدین اور اربابِ فکر کے مضامین نہ صرف دیکھنے بلکہ سطر سطر پڑھنے سے تعلق رکھتے تھے ، مسلمانوں کے اکثر سیاسی، سماجی ،تعلیمی اور داخلی وخارجی مسائل کا اس میں احاطہ کیا گیا تھااور اس پر سیر حاصل بحث کی گئی تھی اور ان مسائل سے نپٹنے کا معقول حل بھی تجویز کیاگیا تھا،لیکن میرے لیے تشویشناک پہلو یہ تھا کہ اس خصوصی شمارہ میں امتِ مسلمہ کو اس وقت درپیش سب سے اہم چیلنج اور المیہ یعنی نئی نسل میں بڑھتے ارتداد کا دور دور تک ذکر نہیں تھا،مستقل موضوع بنا کر نہ کوئی مضمون تھا،نہ کسی عالمِ دین یاقائدِ ملت کا انٹرویو، کسی صاحب قلم کے مضمون میں بھی دور دور تک ضمناً بھی اس کا اشارہ نہیں تھا جب کہ گزشتہ صرف چند مہینوں میں امت کا یہ سب سے سلگتا مسئلہ تھا ، ابھی عیدالاضحی کے بعد دوماہ میں میں نے پنجاب سے کشمیر ،ہریانہ ، اترپردیش،مدھیہ پردیش،مہاراشٹرا اور گوا تک مختلف صوبوں کے درجنوں شہروں کا اسی مقصدکے تحت دورہ کیا،دہلی،چندی گڑھ،سری نگر ، لکھنؤ،بھوپال،ممبئی،رتناگیری،میسور، بنگلور،حیدرآباد،محبوب نگر،مراد آباد،ہلدوانی،رامپور،بجنور اور سونی پت وغیرہ درجنوں شہروں میں دعوتی مقصد کے تحت جانے کا موقع ملا اس دوران ہر جگہ ہماری بچیوں اور بچوں کے اسلام کو خیر باد کہہ کر کفروشرک کے دلدل میں جانے کے جو ہولناک واقعات سننے کو ملے وہ رات کی نیند اڑادینے کے لیے کافی تھے،لیکن افسوس اکثر جگہوں پر مقامی دیندار طبقہ کو بھی دیکھا کہ وہ اب بھی بالعموم اس مسئلہ کی ہولناکی کو سمجھنے سے کوسوں دور تھے،حکیم الامت حضرت تھانویؒ کے پاس جب ایک شخص نے آکر بتایا کہ فلاں شہر سے ارتداد کی خبریں سننے میں آرہی ہیں تو آپ بے چین وبے قرار ہوگئے ،اپنی پیرانہ سالی کے باوجود اس جگہ جاکر مسئلہ کی تحقیق کی ،اس کے بعد بھی کئی دنوں تک حضرت مولاناپراس کا اثررہا ،فرماتے رہے کہ اس خبر کو جب بھی میں سوچتاہوں تو دسترخوان پرمجھ سے کھانا نہیں کھایا جاتااور بھوک اڑ جاتی ہے ،رات کو جب بستر پر لیٹتاہوں تو نیند نہیں آتی۔
تشویشناک پہلو:۔ امتِ دعوت ہونے کی حیثیت سے ان واقعات پر نگاہ دوڑانے اور نگاہ بصارت کے بجائے نگاہِ بصیرت سے اس کو دیکھنے اور سننے اور مستقبل میں اس بڑھتے طوفان کی خطرناکی کو محسوس کرتے ہوئے ہمارا تشویش میں مبتلاہونا فطری بات ہے ، لیکن ان خبروں کا تشویشناک پہلو یہ ہے کہ پانی سر سے اونچا ہونے کے باوجود عوام ہی نہیں بلکہ خواص کی ایک بڑی تعداد بھی اب تک اس المیہ کی سنگینی وخطرناکی کو سمجھنے سے بہت دور نظر آرہی ہے، نہ ہمارے ملکی وبین الاقوامی مسلم اداروں حتی کہ دعوتی وتحریکی جماعتوں اورانجمنوں میں اس کومستقل موضوع بناکر تبادلۂ خیال کیا جارہاہے اور نہ اس کو اس وقت پورے ملت کا سب سے بڑا چیلنج مان کر اس کے مقابلے کی کوشش کی جارہی ہے،آج ہمارے کمزور ایمان کا یہ حال ہوگیا ہے کہ پے درپے اس طرح کے واقعات کو سننے کے باوجود ہم میں سے اکثریت کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگتی۔
یادآگئی مفکر اسلامؒ کی نگاہِ بصیرت کی:۔ مخدومِ گرامی مفکرِ اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ ظاہری اعتبار سے اپنی ایک آنکھ سے محروم تھے ،دوسری آنکھ بھی کمزور تھی لیکن نصف بصارت سے محرومی کے باوجود ان کی نگاہِ بصیرت کا اس پورے برِ صغیر ہی نہیں بلکہ عالمِ اسلام کی گزشتہ سوسالہ تاریخ میں جواب نہیں تھا ، ا ن کی عالم عرب اور عالم اسلام کے تعلق سے پچاس سال پہلے کی گئی متعدد پیشین گوئیاں آج حقیقت بن کر سامنے آرہی ہیں ،مولانا نے بہت پہلے اس ارتدادی طوفان کابھی اندازہ لگالیا تھا،بالعموم ان کے دعوتی دوروں اور جلسوں میں گفتگوکامحور یہی فکری ارتداد کا موضوع ہوتا،اس وقت دردِ دل سے کہی گئی مولانا کی وہ باتیں آج بھی پڑھنے والوں کو رلادیتی ہیں،حضرت مولانا کی ملت کے اس المیہ کے تعلق سے فکرمندی کامیں خود ایک عینی شاہدہوں ، مولانا آخری سفر سے تین سفر پہلے مغربی ساحل پر واقع تاریخی شہر بھٹکل تشریف لائے تھے جس کو وہ اپناوطنِ ثانی اور اس کے جامعہ کو ندوہ ثانی کہتے تھے ، منگلور کے ایک اخبار (Mesco)کے ایڈیٹر نے ان سے جامعہ کے مہمان خانہ میں انٹرویولیا، میں خود حضرت مولانا کے ساتھ اس کمرہ میں موجود تھا ، اس نے پوچھا : سر! بتائیے کہ ہندوستانی مسلمانوں کو اس وقت کئی طرح کے مسائل درپیش ہیں ، بابری مسجدکا مسئلہ ،شاہ بانوکا قضیہ اورپارلیمنٹ میں طلاق بل، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کا مسئلہ ،فسادات میں بے گناہ مسلمانوں کی گرفتاری کا مسئلہ ،مسلم نونہالوں میں تعلیمی تناسب کی کمی کا مسئلہ وغیرہ وغیرہ، ان میں آپ کے نزدیک سب سے اہم مسئلہ کیا ہے ؟ مولانا نے فرمایا: میرے نزدیک یہ سب وقتی مسائل ہیں جو وقت کے ساتھ ان شاء اللہ حل ہوتے جائیں گے، لیکن برِصغیر کے مسلمانوں کا اس وقت میرے نزدیک سب سے اہم ترین مسئلہ جس کو وہ خود مسئلہ نہیں سمجھ رہے ہیں اور اس کی سنگینی وہولناکی کا خود ان کو اندازہ نہیں ہے وہ نئی نسل میں بڑھتے فکری ارتداد کا ہے ، میری گناہ گار آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ اگر اس کی نزاکت کا امت کو احساس نہیں ہوا تویہ تہذیبی وفکری ارتداد امت کو اندر سے کھوکھلا کرکے رکھ دے گا اور اس ملک میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کچھ دنوں کے بعد نام کی مسلمان رہ جائے گی اور غیر شعوری طور پر وہ بتدریج ایمان وتوحید کی نعمت سے محروم ہوتی جائے گی۔
مفکراسلام ؒ کی دوررس نگاہوں نے نصف صدی قبل جس طوفان کی پیشین گوئی کی تھی آج وہ حقیقت واقعہ بن کر سامنے آگئی ہے، نئے نظامِ تعلیم ونصابِ تعلیم نے امت کے ایک بڑے تعلیم یافتہ طبقہ کو اسلام پر اعتماد کی کمی سے دوچار کردیا ہے اور غیر محسوس طریقہ سے وہ اسلام سے نکل رہے ہیں جس کا احساس نہ خود ان کوہے اور نہ ان کے والدین و سرپرستوں کو،صبح کو ہمارے بچے گھر وں سے ایمان کے ساتھ جاتے ہیں لیکن اپنے مشنری وغیر مسلم اسکولوں کی صبح کی اسمبلی اوردعا ؤں میں ایسے جملے دہراتے ہیں کہ اس کے تصور ہی سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ،جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا خود فرمان ہے کہ اس کی شان میں ان نازیبا کلمات کے اظہار پر اگر آسمان پھٹ جائے اور زمین شق ہوجائے تب بھی بعید نہ سمجھو،لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نعوذ باللہ اللہ کا بیٹا کہنے والاجملہ اسکولوں میں دہرانا والدین کے نزدیک اب شرک نہیں ر ہا بلکہ نصابِ تعلیم کی ضرورت اور اس کا ناگزیر حصہ بن گیاہے ، اس پورے پس منظر میں صبح کو ایمان کے ساتھ جاکر بچہ شام کو شرک کے ساتھ لوٹتاہے لیکن والدین کے کانوں میں جوں تک بھی نہیں رینگتی، اب وہ حدیث پورے مالہ وماعلیہ کے ساتھ ہمارے سامنے آجاتی ہے جس میں اللہ کے رسول ﷺ نے پیشین گوئی فرمائی تھی کہ قربِ قیامت کی علامت ایک یہ بھی ہے کہ لوگ صبح کو مسلمان ہوں گے اور شام کو کافر اور شام کو کافر تو صبح کو مسلمان، ملت کے موجودہ ناگفتہ بہ حالات میں اس حدیث کے مفہوم کو سمجھنا اس وقت جتنا آسان ہے شایدپہلے کبھی نہیں تھا۔
سب سے زیادہ گھبراہٹ والا پہلو :۔ اس دعوتی تجزیہ میں تشویش کو بڑھانے والااور سب سے زیادہ گھبراہٹ والاایک اور پہلو یہ ہے کہ کل تک بے دین اور اسلام سے دور گھرانوں کے تعلق سے الحاد وارتداد کے واقعات سننے کو ملتے تھے لیکن آج ارتدادکے پیش آمدہ بعض ان واقعات کا تعلق خود ہمارے دیندار گھرانو ں اور خاندانوں سے ہے،ماضی قریب وبعید میں بے حیائی اور اخلاق سوزی کے زیادہ تر واقعات ان گھرانوں میں ہوتے تھے جن کا خاندانی ماحول اچھا نہیں ہوتاتھایاجن کے والدین یاگھروالے اچھے دینی پس منظر کے حامل نہیں ہوتے تھے، لیکن افسوس جدیدوسائل اور ذرائع ابلاغ نے گھروں میں بند رہنے اور نماز، روزوں کی پابندی کے باوجود ہمارے بچے اور بچیوں کوتیزی کے ساتھ غیر محسوس طریقہ پراخلاق وایمان سے دور کردیاہے،اب کوئی آخری درجہ کا دیندار شخص بھی اپنی اولاد کے تعلق سے مطمئن ہوکر نہیں بیٹھ سکتاکہ میرے گھر میں بے دینی نہیں آئے گی یا میرے لختِ جگر بھی تادم حیات ایمان واسلام پر رہیں گے،کسی زمانہ میں محمد علی چھاگلہ اور حمید دلوائی جیسے لوگ انگلیوں پر گنے جاسکتے تھے لیکن آج ظاہری دین داری اور اس کے بڑھتے مظاہر کے باوجود گھرواپسی کے روز واقعات خودہمارے گردوپیش میں پیش آرہے ہیں،اس کا ثبوت یہ ہے کہ دس پندرہ سال پہلے تک مسلم پرسنل لا کے تعلق سے عدالتوں میں رٹ داخل کرنے والے اور مقدمہ دائر کرنے والے غیر مسلم ہواکرتے تھے لیکن افسو س ادھر چند سالوں سے مسلم پرسنل لا بورڈ اور جمعیت العلماء کی طرف سے جو مقدمات کو کروڑ وں روپئے خرچ کرکے ملت کی طرف سے لڑے جارہے ہیں اس میں اکثر فریقِ مخالف خود ہماری مسلم خواتین اور تعلیم یافتہ اہل ایمان ہی ہیں۔
منھ اپنا چھپاتے تھے شرماکے صنم خانے :۔ کہاں اللہ کے رسول ﷺکو اللہ کے حکم پر جزیرۃ العرب کو کفر وشرک سے پاک کرنے کی فکر نے یہ حکم سنانے پر مجبور کردیا کہ جزیرۃ العرب میں آج سے شرک کا شائبہ بھی نہیں ہونا چاہیے، اس لیے شرکیہ مظاہر سے بچنے کے لیے اہلِ شرک وکفر کو جزیرۃ العرب سے دوررکھو ،جس پاک زمین پرکل تک شرک گوارا نہیں تھا ،آج نہ صرف اسی مقدس زمین پر آزادی سے شرک وکفر کی اجازت ہے بلکہ اس سے آگے بڑھ کرخودہمارے عرب بھائیوں میں جو اس روئے زمین پر توحید کے علمبردار اوراپنی ہزاروں کمیوں وکمزوریوں کے باوجود کل تک اپنی اسی ایمانی امتیازی شان کے لیے شہرت رکھتے تھے کھلم کھلا ان میں بھی شرک سرایت ہوتانظر آرہاہے ، ابھی کچھ دن پہلے ایک عرب ملک میں واقع ایک مندر میں علی الاعلان ہمارے عرب بھائیوں کو عربی لباس میں سرپر رومال کے ساتھ بت پرستی اور اس کے متعلق شرکیہ کاموں کو کرتے ہوئے دیکھاگیااور پوری دنیا میں یہ ویڈیو وائرل ہوا،ایک اس وقت کو یادکیجئے جب ایک عرب حکمراں ہندوستان کے دورے پرتھے ، ان کو بنارس میں ان علاقوں سے گزرنا تھا جہاں سرِ راہ مجسمے رکھے ہوئے تھے،ہندوستانی سرکار کی طرف سے اس عرب حکمراں کو ان کے توحیدی مزاج کے پیشِ نظرشرک کے سایہ سے بھی دور رکھنے کے لیے ان کے وہاں سے گزرتے وقت ان مجسموں کو کپڑوں سے ڈھانک دیاگیا تھا ؂ 
ادنیٰ سا غلام ان کا گزرا تھا بنارس سے 
منھ اپنا چھپاتے تھے شرماکے صنم خانے
لیکن افسوس! آج ان ہی عرب ملکوں میں نہ صرف شرک وکفر گوارا ہے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کے ساتھ خود اس میں اپنی شرکت سے بھی ان کو عار محسوس نہیں ہورہا ہے،اہلِ ایمان اورا ہلِ تقوی وباحمیت مسلمانوں کے لیے ان کی سرزمین تنگ ہے لیکن اسلام دشمنوں کے لیے نہ صرف کھلی ہوئی بلکہ وسیع سے وسیع تر ہوتی جارہی ہے اور اللہ کے نیک بندوں کے خلاف سازشوں کے تانے بانے بننے میں اسلام دشمنوں کی ان کی طرف سے نہ صرف حوصلہ افزائی بلکہ مدد بھی کی جارہی ہے۔ وإلی اللہ المشتکی۔
اس وقت امت کا پورا بدن زخموں سے چور چور ہے ،مسائل کا انبار ہے ،ہردن ایک نیا قضیہ سراٹھارہاہے ،ہردوسرا دن ہماری شامت اعمال کی وجہ سے پہلے دن سے خراب بن کر سامنے آرہا ہے ،اوپر بیان کیے گئے ان تمام ناگفتہ والمناک مسائل وچیلنجزمیں سے ہر مسئلہ اورہر قضیہ ایسا تھا کہ عالمی وملکی سطح پرمسلم تنظیموں واداروں کے پلیٹ فارم سے مستقل اس پر غور کیا جاتا اور اس کا حل تلاش کیاجاتا،اس میں فکری ارتداد والحاد کے بڑھتے سیلاب کا مسئلہ خود اتنا اہم تھاکہ تمام تحریکات وتنظیمات اور ادارے اپنے تمام رفاہی ،علمی وتحقیقی اور اصلاحی کاموں کو کچھ دنوں کے لیے موقوف کردیتے اورسب مل کر صرف اسی ایک اہم ترین مسئلہ پر اپنی پوری توجہ مرکوز کرتے تب بھی کوئی بڑی بات نہیں تھی ،ہنگامی حالات میں جس طرح جنگی پیمانہ پر کام کیا جاتاہے اس المیہ کی روک تھام کے لیے بھی اسی طرح کام کیا جانا چاہیے تھا ،لیکن افسوس کہ تاریخ کے اس نازک موڑ پر ملت کو درپیش اس اہم چیلنج کا مقابلہ تو دور کی بات اس کوکوئی مسئلہ بھی نہیں سمجھا جارہاہے،نہ عالم اسلام میں اس سلگتے موضوع پر کسی سیمینار کی خبر ہے اور نہ اس کے تدارک کے لیے کسی اہم میٹنگ وپیش رفت کی اطلاع، البتہ کہیں کہیں محدود پیمانہ پرکچھ فکریں ہورہی ہیں اور چند مضامین مجلات ورسائل میں نظر سے ضرورگزررہے ہیں اور اس کے ازالہ کے لیے ٹھوس عملی تجاویز بھی پیش کی جارہی ہیں،لیکن مسئلہ کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے یہ بہت کم درجہ کی کوششیں اور جدوجہدہے۔
ایک غیر مسلم کا تجزیہ یاد آگیا :۔ ارتداد کے اس اہم مسئلہ میں ہماری گفتگو کا محورہماری تحریروں وتقریروں میں بالعموم ہماری یہ بچیاں اور بچے ہی ہوتے ہیں اور ان ہی کو نشانہ بناکربات کی جاتی ہے کہ ان کی اپنی کوتاہی اوردین و اسلام سے دوری کی وجہ سے ان کو یہ دن دیکھنے کو مل رہے ہیں۔
ہمارے نزدیک ارتداد میں جانے والے ان بچوں سے زیادہ ان کے والدین وسرپرست اس کے ذمہ دارہیں ، اگربچپن سے انھوں نے اپنے جگر گوشوں کی دینی بنیادوں پر صحیح تربیت کی ہوتی اور ان کو بنیادی دینی تعلیم سے آراستہ کرنے کا اپنا فریضہ انجام دیا ہوتا تو شاید یہ دن دیکھنے کو نہ ملتے،مجھے اس موقع پر ماضی قریب میں ایک غیر مسلم تجزیہ نگار کا وہ مضمون یاد آگیا جس کو اس نے دہلی میں دن دہاڑے چلتی بس پر کچھ بچیوں کے ساتھ منھ کالا کرنے کے دردبھرے واقعہ کے پس منظر میں لکھا تھا ، اس نے لکھاتھاکہ یہ درندہ صفت نوجوان جنھوں نے سرِراہ یہ حرکت کی اور ان کو سزا ملی تو میرے نزدیک ان مجرم نوجوانوں سے زیادہ ان کے ہاتھوں شکار ہونے والی بچیوں کے والدین ذمہ دار تھے ، اس لیے کہ اگر وہ اپنی بیٹیوں کو دعوتِ نظارہ دینے والے بے حیا لباس پہنا کرگھر سے باہر نہ بھیجتے تو ان نوجوانوں کی بچیوں کی طرف نگاہیں ہی نہ اٹھتیں، بھوکے بھیڑیے کے سامنے جب تازہ گوشت رکھا جائے تو اس سے یہ امید کرنا بے جا ہے کہ وہ اس سے اپنی بھوک نہیں مٹائے گا ،اسی طرح جوانی کے جذبات میں آوارہ گردی والوں سے ان بے حیا طالبات کی طرف نگاہ نہ اٹھاکر دیکھنے کی توقع کرنا اور اس کے بعد کے غلط مراحل میں داخل نہ ہونے کی ان سے امید رکھنا ہی فضول ہے۔
اس تجزیہ کی روشنی میں جو درحقیقت قرآنی ونبوی تجزیہ ہے ہمیں معلوم ہوتاہے کہ ہماری یہ بچیاں جو فتنۂ ارتداد کا شکار ہوکر اسلام کو خیر باد کہہ کر شرک وکفرکے دلد ل میں جاپھنسی ہیں اور لو میریج کے نام سے غیر مسلم دوستوں سے عشق میں مبتلاہوکر ایمان جیسی عظیم دولت سے محروم ہوچکی ہیں ان کے اپنے قصور سے زیادہ ان کے والدین کابھی قصور ہے جنھوں نے معیاری تعلیم کے شوق میں ان کو ایسی تعلیم گاہوں میں بھیجاتھا جہاں مخلوط تعلیم ہے، جہاں مردوزن کا فرق ختم ہوجاتاہے اورجہاں جاکروہ آزادانہ حیاسوز ماحول میں نہ چاہنے کے باوجود برائی پر آمادہ ہوجاتے ہیں،اسی طرح اس ایمان سوزی کے لیے محرک بننے والے ایک اوردوسرے سبب کے بھی ہم ہی ذمہ دار ہیں ، اپنے بچوں کو ہوش سنبھالتے ہی ان کوتعلیم میں ترقی کے منازل طے کرانے کے نام پر انٹرنیٹ، سوشل میڈیا ،واٹس ایپ ،یوٹیوب، فیس بک، ٹویٹروغیرہ تک رسائی کی ہماری طرف سے نہ صرف اجازت دی جاتی ہے بلکہ حوصلہ افزائی کی جاتی ہے اور اس کو اپنی روشن خیالی اور اس طرح کی سہولت نہ دینے والے سرپرستوں کو انتہاپسند،شدت پسند اور تنگ نظر سمجھاجاتاہے۔
قصور ان دونوں سے بڑھ کر کچھ ہمارا بھی ہے :۔ قرآن وحدیث میں معاشرے میں پنپنے والے مخربِ اخلاق جرائم پر حکمت کے ساتھ نہی عن المنکر کے جو طریقے واصول بیان کیے گئے ہیں ان پر غور کرنے کے بعد یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ ان بچیوں وبچوں اور ان کے سرپرستوں کی طرح قصور کچھ ہمارے دعوتی ودینی طبقہ کا بھی ہے، جب ہمیں معلوم تھا کہ ہمارے محلہ ،گلی ، پڑوس یا خاندان میں اس طرح کے حیاسوز اور اخلاق سوز واقعات پیش آرہے ہیں تو ان بچوں کو اپنے بچے سمجھ کر ہمارا فرض بنتاتھا کہ ابتدائی مرحلہ میں ہی ہم ان کے پاس جاتے ، ان کو، ان کے متعلقین اور سرپرستوں کو سمجھاتے ،فرداً فرداً ان سے ملاقات کرتے ، اور ممکنہ حد تک ان کو کفر وشرک کے دلدل میں پھنسنے سے روکنے کی کوشش کرتے،لیکن ہم نے طوفان کے پیشگی آثار کے باوجود اس کی روک تھام کی کوشش نہیں کی اوراس سلسلہ میں اپنا عالمانہ وداعیانہ فرض ادانہیں کیا ، اگر ادا بھی کیاتو زیادہ سے زیادہ کسی مسجد میں یا محلہ میں یا مجمع عام میں اجمالاً اس مسئلہ پر اظہارِ خیال کیا ،اس قضیہ کی مذمت کی، اس کی شناعت پر کچھ دیر تقریریاگفتگو کی اور سمجھ لیا کہ ہم نے اپنا دینی فریضہ اداکردیا ،جب کہ حکمت کے ساتھ دعوت اور نہی عن المنکر کا مطلب صرف یہی نہیں تھا بلکہ ہمیں جائز حدود کے اندر رہتے ہوئے ہر وہ طریقہ ان معصوم نونہالوں ونوجوانوں کو سمجھانے کے لیے اختیارکرنا چاہیے تھا جس کی ہمیں شریعت میں اجازت تھی اور ان بچوں کی بے حیائی کی آخری حد کوپار کرنے کے باوجود کم از کم ان کے ایمان کو آخری درجہ میں بچانے کی فکر کرنی چاہیے تھی ،ہمارے اس نکتہ کی وضاحت ذیل کے اس کامیاب دعوتی تجربہ سے ہوسکتی ہے۔
کچھ دنوں پہلے ممبئی میں اس مسئلہ پر غور وخوض کے لیے علماء وفکرمند ساتھیوں کی ایک نشست تھی جس میں ہم لوگ بھی حاضر تھے، اس میں I.Tسے وابستہ کچھ نوجوانوں نے بتایا کہ ارتداد کے واقعات سے ہم لوگ بھی بحیثیت مسلمان تشویش میں مبتلاتھے ، لیکن یہ کہہ کرکہ اب معاملہ ہاتھ سے نکل گیاہے ہم مایوس اور خاموش نہیں ہوئے اور آخری امکانی صورت کو اپناتے ہوئے جس سے ایمان میں ان بچوں کی واپسی کی کچھ رمق باقی تھی کوششوں میں لگے رہے، رجسٹرار آفیس میں تبدیلی مذہب کی تفصیلات اب آن لائن دستیاب رہتی ہیں ، ہرجگہ مذہب بدلنے والوں کا لازمی طور پر اس میں اندراج ہوتاہے ،سب سے پہلے آن لائن ان تفصیلات کو حاصل کرتے ہوئے ان بچوں کے والدین سے ملاقات کرکے یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ آپ اپنے ان بچوں کو طعنہ دے کر گھر سے نکال کران کابائیکاٹ نہ کریں اور ان سے بات چیت بند کرکے ایمان میں ان کی واپسی کا دروازہ بندنہ کریں ، الحمدللہ ان کی نیتوں کے مطابق ان میں سے بعض بچوں کو گھرواپس لانے میں ان نوجوانوں کو تھوڑی بہت کامیابی بھی ملی ، لیکن اس سے زیادہ کامیابی ان کو اس وقت ملی جب ان بچیوں اور بچوں کے ذریعے خود ان غیر مسلم دولہا ودلہنوں سے براہِ راست ملاقات کرکے اسلام کی تعلیمات سے ان کوروشناس کراکے اسلام کی دعوت دی گئی اور ان کا ذہن بنا کر الحمدللہ ان کو اسلام قبول کرنے پرآمادہ کیا گیااورپھر تجدید نکاح کے ساتھ ان کوبھی اسلام پرباقی رکھنے میں الحمدللہ وہ کامیاب ہوئے ۔
ان نوجوانوں کے پاس یہ آخری حربہ تھا کہ کم از کم ارتداد میں جانے والے ان کی اس حکمتِ عملی سے الحمدللہ نہ صرف خود اسلام کی طرف لوٹے بلکہ ان کی مشرک بیویوں اور شوہروں کو بھی حلقہ بگوشِ اسلام کرنے کاان کامخلصانہ مشن پائے تکمیل کو پہنچا، مذکورہ بالاحکمتِ عملی کی روشنی میں ہمیں بھی اب ردِ عمل کے طریقہ کار سے ہٹ کر دعوتی میدان میں کام کرنے کی ضرورت ہے ، ان معصوم نونہالوں کو ارتداد والحاد کا طعنہ دے کر گھر سے نکال باہر کرنے یا معاشرہ سے الگ تھلگ کرنے سے اس بڑھتے سیلاب کوروکا نہیں جاسکتا،جو دائرہ اسلام سے نکل چکے ہیں ایک طرف اب ان کو واپس لانے کی مخلصانہ وہمدردانہ فکریں وکوششیں ہوں اوردوسری طرف جو ارتداد کے کنارے واقع ہیں اس دلدل میں ان کو گرنے سے بچانے کی تدبیریں کی جائیں اور الحمدللہ اب تک جو محفوظ ہیں حفظ ماتقدم کے طور پر ان کوایمان پرباقی رکھنے کی منصوبہ بندی کی جائے۔
دو طرح کے خدشات :۔ ان سب دعوتی نکتوں کے ساتھ ہمیں یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ اس ملک میں اگر ہمیں اپنی داعیانہ امتیازی شان کے ساتھ رہنا ہے تو ہمیں اپنے دعوتی فریضہ کے تعلق سے پہلے سے زیادہ چاق وچوبند رہناہوگا، کل تک ہمارا ملک عالمی سطح پر دینی قیادت کے لیے شہرت رکھتا تھا ،یہاں کی عمومی حمیت اسلامی وغیرتِ دینی کا کسی عرب یا اسلامی ملک میں رہنے والے مسلمانوں سے بھی مقابلہ نہیں کیاجاسکتاتھا، یہاں کے آزادانہ ماحول میں دعوتی وعلمی اور دینی سرگرمیوں نے عالم اسلام میں ہمارے ملک کو قائدانہ رول دیا تھا، لیکن دعوتی میدان میں اپنے فریضہ کی ادائیگی میں بالخصوص دینی طبقہ کی بڑھتی کوتاہی اور ادھر دو تین سال سے بڑھتے الحاد وایمان سوز واقعات پرملّی قیادت کی عمومی خاموشی سے اور دیگر بہت ساری وجوہات کی وجہ سے جن میں سرفہرست برادرانِ وطن تک دعوتی پیغام کے پہنچانے میں ہماری کوتاہی بھی ہے، اب اس خدشہ کو تقویت پہنچ رہی ہے کہ یا تو دینی واصلاحی قیادت اور اس کی مرکزیت ہمارے ملک سے منتقل ہوکر کہیں اور جانے والی ہے یا پھر اگر اس ملت ہندیہ ہی میں دینی قیادت ومرکزیت کو باقی رکھنا مشیتِ الہٰی کو منظور ہے تو یہاں کسی اور قوم کو اللہ پاک اس کا م کے لیے کھڑا کرنے والے ہیں جو اس دینی فریضہ میں اپنا قائدانہ رول اداکرکے اور اپنی نفع رسانی ثابت کرکے ہماری جگہ لینے والی ہے، ارشادِ خداوندی ہے وَإِن تَتَوَلَّوْا یَسْتَبْدِلْ قَوْماً غَیْْرَکُمْ ثُمَّ لَا یَکُونُوا أَمْثَالَکُمْ اگر تم روگردانی اختیار کروگے تو تمھاری جگہ وہ دوسری قوم کوکھڑا کردے گا جو تمھاری طرح نہیں ہوگی ، اللہ اپنے دین کو ہر حال میں غالب کرے گا ،اس کا وعدہ ہے لیکن دین کے غلبہ کا ذریعہ کون بنے گا اورقرب قیامت میں اس کا مرکز کہاں ہوگااس کو اللہ نے ظاہر نہیں فرمایاہے، عہدِ نبوی اور عہدِ خلافت راشدہ کے بعد دمشق ،بغداد ، مصر وغیرہ کوصدیوں تک عالمی سطح پر دینی امور میں رہنمائی اور علومِ شرعیہ کی خدمت میں مرکزیت کا شرف حاصل رہا، لیکن ادھر ایک صدی سے برِصغیر بالخصوص ہمارے ملک کو اپنی گوناگوں دینی خصوصیات مثلاً عالمی سطح کے دینی تعلیم کے مراکز کے وجود ،مختلف تحریکاتِ دین کے یہاں جنم لینے اور سینکڑوں عالمی سطح کی مختلف شخصیات کی جائے ولادت ہونے اور دینی وعلمی اور اصلاحی میدانوں میں ان کی ناقابلِ فراموش خدمات کی وجہ سے اس کو عالمِ اسلام میں قائدانہ مقام حاصل تھا اور کسی نہ کسی حالت میں الحمدللہ اب بھی ہے،لیکن کب اس نعمتِ عظیمہ سے اپنی دعوتی غفلت کی وجہ سے محرومی ہوسکتی ہے کہانہیں جاسکتا۔
اس خدشہ کو سامنے رکھتے ہوئے اب ہمارے دینی طبقہ اور خاص کر دینی مدارس کے ذمہ داران اور علماء ودعاۃ کو اپنے دعوت کے دائرہ کو وسیع کرتے ہوئے امت کے ہر فرد کو دین سے وابستہ رکھنے کے فریضہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور یہ ان کو سمجھ لینا چاہیے کہ اپنی چہار دیواری میں رہنے والے چار پانچ فیصد نونہالانِ ملت کودینی تعلیم سے آراستہ کرنے کا فریضہ ہی ہمارے دائرے میں نہیں بلکہ عصری تعلیمی اداروں میں زیرتعلیم اور وہاں سے فارغ طلبہ وطالبات اور نئی آنے والی نسلوں کو توحید خالص پر باقی رکھنے کی ذمہ داری بھی ہماری ہی ہے ، اس کے لیے بنیادی طور پر اس دعوتی نکتہ کو بھی ہمیشہ اپنے سامنے رکھناچاہیے کہ دعوت منصوص ہے نہ کہ طریقۂ دعوت،زمانے کے تقاضوں کے تحت دعوتی حکمتِ عملی میں تبدیلی ہوسکتی ہے،حکمت وموعظت کے ساتھ جدید وسائل کو استعمال کرتے ہوئے اپنے بلند مقصد کو پانے کی ہم کوشش کریں، شریعت کے دائرہ میں رہ کر کم سے کم وقت اور کم خرچ میں اپنا دعوتی فریضہ انجام دیں ،جس طرح باطل طاقتیں اپنی تدبیروں کے ساتھ اپنے مشن کوپایہ تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب ہوئی ہیں ہم بھی اسی میدان میں اترکر ان ہی وسائل کو اختیار کرتے ہوئے اور جہاں سے بے دینی کا سیلاب آرہاہے وہیں گھس کر اس کے دھارے کو موڑنے کی کوشش کریں ۔
یہ بھی اصلاحی نہیں بلکہ دعوتی کام ہے: ۔ ہمیں دعوتی میدان میں کام کرتے ہوئے اس بنیادی اصول کو بھی سمجھنا چاہیے کہ کسی امریکی صدر یا یورپی وزیراعظم کے ہمارے توسط سے اسلام میں داخل ہونے پر ہمیں جو انعام اللہ کے پاس ملے گا اور دنیا میں ہماری شہرت ونیک نامی ہوگی سچی بات یہ ہے کہ الحاد وارتداد میں جانے والے کسی مسلمان بھائی بہن کو واپس لانے میں ہماری کامیابی پر بھی عنداللہ اسی طرح کے صلہ وجزا کے ان شاء اللہ ہم مستحق ہوں گے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کے تمام بندے بحیثیت انسان برابر ہیں ،اللہ جھونپڑی میں رہنے والے اپنے کسی بندہ کے شرک و کفر سے بچنے پر بھی اتنے ہی خوش ہوتے ہیں جتنے دنیا کے کسی ارب پتی یا بڑے سے بڑے ملک کے بادشاہ کے ایمان میں داخل ہونے پر۔
اسی طرح یہ بات بھی ذہن نشین کرنی چاہیے کہ بحیثیت امت دعوت ہم پر اب تک صرف دو کام تھے ،ایک ایمان کی نعمت سے سرفراز اللہ کے بندوں کو ایمان پرباقی رکھتے ہوئے ان کی اصلاح کی کوشش اوردوسرے ایمان سے محروم بندوں تک توحید ورسالت اور آخرت کے پیغام کوپہنچاکر ان کو ہدایت کی طرف لانے کی فکرومحنت ، لیکن عالم اسلام کے موجودہ حالات کے تناظر میں اب اس میں ایک نئے دعوتی محاذ کا اضافہ ہوگیاہے اور وہ محاذیہ ہے کہ ہمارے جو بھائی بہن ایمان سے نکل چکے ہیںیا نکل رہے ہیں ان کو ایمان پرباقی رکھنے کی مخلصانہ وممکنہ کوشش وجدوجہدہماری طرف سے ہو،اگر عالمی سطح پر ہم میں سے اکثریت نے بھی دعوت کے ان تینوں محاذوں پر اپنے فریضہ کو انجام دینے کی بساط بھر کوشش کی تو اللہ تعالیٰ کی مدد کے آنے اور مسلمانوں کے پھر ایک بار غالب ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔
دراصل ہم اس وقت اسلامی تاریخ کے نازک دور سے گزررہے ہیں ،دشمن تاک میں ہے ،چاروں طرف سے کفروشرک کی یلغار ہے ، اب اسلام دشمنوں کو نہ ہماری حکومتوں سے ڈر ہے اور نہ ان کو ہماری مالی ترقی وخوش حالی اور نہ تعلیمی ترقی کا خوف،اسلام کی روح اورحمیت دینی سے دست برداری اور اپنے ملّی تشخص سے علیحدگی کے ہمارے اعلان کے ساتھ ہماری ہردنیاوی اورظاہری ومادّی ترقی ان کوگواراہے،ان کا نشانہ صرف اور صرف ہمارا ایمانی سرمایہ، توحید خالص کی امتیازی شان اور دین سے ہماری وابستگی اور وارفتگی ہے ، ان کو اب یقین ہوگیا ہے کہ چودہ سو سال کی ناکام کوششوں کے بعداس روئے زمین سے مسلمانوں کا خاتمہ ناممکن ہے ، ان کا زور صرف اب اس پر ہے کہ ہم ظاہری شکل وصورت میں تو اسلام سے وابستہ رہیں ،لیکن مذہب وشریعت سے ہماری وابستگی برائے نام رہے ، چند مذہبی رسومات تک ہم محدود رہیں اور اسلام کی عالمگیریت اوراس دنیا میں اس کے غلبہ کا خواب دیکھنا چھوڑ دیں، اگر ہم نے اپنے دشمنوں کی ان چالوں کو نہیں سمجھاتو آنے والی اسلامی تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی ،اور آنے والی تاریخ کا مؤرخ ہمارے تعلق سے یہ لکھنے پر مجبور ہوگا کہ 
لمحوں نے خطاکی تھی صدیوں نے سزاپائی

«
»

تیرے حسن خلق کی ایک رمق میری زندگی میں نہ مل سکی

ملک کی تقسیم کا ذمہ دار کون

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے