عہدحاضر میں سرسیداحمدخان کی معنویت

تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی

سرسید احمد خان اور ا ن کے علی گڑھ کالج کے خلاف ملک بھر میں خوب فتوے جاری ہوئے۔ یہاں تک کہ مخالفین نے ایک فتویٰ علمائے مکّہ سے بھی منگوایا جس میں تحریر تھا کہ ایمان والوں پر یہ فرض ہے کہ وہ اس درسگاہ کو منہدم کردیں۔ اس کی سخت مذمت کرتے ہوئے سرسید نے انجمن اسلامیہ لاہور میں ایک عظیم الشان جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا۔
’’میں عرض کرتا ہوں کہ میں ایک کافر ہوں مگر میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ اگر ایک کافر، آپ کی قوم کی بھلائی کے لئے کوشش کرے تو آپ اس کو اپنا خادم اور خیر خواہ نہیں سمجھیں گے۔ آپ میری محنت اور اپنی مشقت سے اپنے بچوں کے لئے ایک عظیم تعلیمی ادارہ بننے دیجئے اس کالج کو قائم کرنے میں مجھے دس سال لگے ہیں اور آپ ایک ہی دن میں برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔‘‘
سرسید احمد خان کے عہد میں مسلمانوں کے جو مسائل تھے ،آج بھی تقریباً وہی مسائل ہیں،بلکہ کچھ اضافہ ہی ہوا ہے اور ان تمام مسائل کا حل سرسید نے تعلیم میں دیکھا تھا۔ اسی لئے انھوں نے علی گڑھ کالج کو ایک تحریک بنادیا تھا۔ آج یہ تعلیمی ادارہ موجود ہے اور مزید بڑا ہوگیا ہے مگر اب یہ صرف ایک تعلیمی ادارہ ہے، نہ کہ تحریک۔ اگر سرسید کی تحریک انھیں کے جوش وجذبے کے ساتھ جاری رہتی تو آج عالم اسلام کو جو مسائل درپیش ہیں، وہ نہیں رہتے۔
عالم اسلام کے مسائل کیا ہیں؟
آج عالم اسلام کے مسائل کیا ہیں؟کیا دنیابھر میں مسلمان دوسری اقوام سے پیچھے نہیں ہیں؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ مسلم ممالک میں جمہوریت کم، تاناشاہی زیادہ ہے؟ کیا یہ درست نہیں ہے کہ مسلم ملکوں کے قدرتی وسائل پر خود وہاں کے باشندوں کے بجائے مغرب قابض ہے؟ کیا مسلمان، معاشی اعتبار سے پسماندہ نہیں ہیں؟ کیا مسلمان، سائنس اور تیکنالوجی میں پیچھے نہیں ہیں؟کیا یہ درست نہیں ہے کہ مغربی ممالک میں جو ریسرچ ورک ہوتا ہے، اس کے مقابلے ایک فیصد بھی، مسلم ملکوں میں نہیں ہوتا؟ کیا یہ درست نہیں ہے کہ مسلم ممالک میں تعلیمی اداروں کا فقدان ہے اور تعلیم کے میدان میں مسلمان سب سے پیچھے ہیں؟ سوال یہ بھی ہے کہ اگر مسلمانوں نے سرسید کی بتلائی ہوئی راہ اپنائی ہوتی تو کیا یہ مسائل باقی رہتے؟جی ہاں! یہ تمام مسائل صرف اسلئے ہیں کہ ہم نے سرسید کے راستے کو اختیار نہیں کیا اور تعلیم سے کنارہ کشی اختیار کئے رکھا۔ سرسید، مسلمانوں کے تمام مسائل کا حل تعلیم میں مضمردیکھتے تھے۔ انھوں نے1857ء کے پرآشوب حالات دیکھے تھے اور عہد مغل کے زوال میں مسلمانوں کی ابتری بھی دیکھی تھی۔ عام مسلمان، اپنی عظمت رفتہ کا ماتم کرنے میں مصروف تھے اور انھیں لگتا تھا کہ اگر ہندوستان کو انگریزوں سے آزاد کرالیا گیا تو ان کی پرانی شان وشوکت واپس آجائے گی مگر سرسید اسے دیوانے کا خواب سمجھتے تھے۔ انھوں نے حالات کو حقیقت پسندی کی عینک سے دیکھا۔ وہ برطانیہ جاکر وہاں کی ترقی بھی دیکھ آئے تھے۔ انھیں احساس ہوگیا تھا کہ علم وفن اور سائنس و تیکنالوجی کے بغیر مغربی استعمار کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتالہٰذا وہ مسلمانوں کو سمجھانے کی کوشش کرتے رہے کہ وہ سیاست سے دور رہیں اور انگریزوں سے لڑنے کے بجائے،ان سے جدید علوم سیکھیں۔سرسید کی دوررس نگاہوں نے دیکھ لیا تھا کہ جدید دنیا پر وہی راج کرے گاجس کے پاس سائنس اور تیکنالوجی کی قوت ہوگی۔ وہ بار بار کہتے تھے کہ مسلمان بچے ایسی تعلیم حاصل کریں کہ ان کے دائیں ہاتھ میں حکمت و فلسفہ، بائیں ہاتھ میں سائنس کے تکنیکی علوم اور سر پر لا الہٰ الا اللہ محمد رسول اللہ کا تاج ہو۔ کتنا خوبصورت خواب تھا سر سید کا اور کیا نرالا انداز تھا،ان کا۔
اپنے وقت سے آگے کی سوچ رکھتے تھے سرسید
سرسید احمد خان نے اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعے مسلمانوں کو احساس دلانے کی کوشش کی کہ وہ کس مقام پر کھڑے ہیں۔ وہ زنگ آلودہ تلواروں کے ذریعے انگریزوں کے ٹینکوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اگر وہ چاہتے ہیں کہ مغرب کے مقابلے پر آئیں تو پہلے انھیں سائنس اور تیکنالوجی میں آگے آنا پڑے گا اور جس طرح دنیا کی معیشت پر مغرب نے قبضہ کیا ہے،اسی طرح اس کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ انہوں نے اپنے ہم مذہبوں اور ہم وطنوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ اپنی معاشرتی حالت کو بدلیں اور یہ ذہن نشین کر لیں کہ اس وقت وہ نہایت ہی کمزور ہیں ،وہ طاقت کے بل پر کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ انہیں اپنے بچوں کی علمی ترقی پر ہر حال میں توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔ سرسید کی باتوں پر مسلمانوں کے صرف ایک طبقے نے کان دھرا اور انھوں نے جان لیا کہ اب منہ چرانے، سر چھپانے اور ہائے ہائے کرنے کا کوئی فائدہ نہیں، سر سید ٹھیک ہی کہتے ہیں۔ علم و ہنر کے ہتھیار کے بغیر ہم نہتے ہیں۔سرسید ،مسلمانوں کے تمام مسائل کا حل تعلیم میں مضمر سمجھتے تھے اور اس کے لئے انتہائی خلوص کے ساتھ کوشاں تھے۔یہاں ایک واقعے کا ذکر برمحل ہوگا۔
’’ بمقام بنارس ’کمیٹی خواستگار ترقی تعلیم مسلمانان ہندوستان‘منعقد ہو گئی، جس کے سیکرٹری سر سید قرار پائے۔ اس کمیٹی کا کام یہ تھا کہ وہ جہاں تک ہو سکے، اس بات کے دریافت کرنے میں کوشش کرے کہ سرکاری کالجوں اور اسکولوں میں مسلمان طالبِ علم کس لئے کم پڑھتے ہیں، علومِ قدیمہ ان میں کیوں گھٹ گئے اور علومِ جدیدہ ان میں کیوں نہیں رواج پاتے، اور جب یہ موانع ٹھیک ٹھیک دریافت ہو جائیں تو ان کے رفع کرنے کی تدبیریں دریافت کرے اور ان تدبیروں پر عمل درآمد کرنے میں کوشش کرے۔‘‘
نواب محسن الملک کا بیان ہے کہ، ’’جس تاریخ کو کمیٹی مذ کور کے انعقاد کے لئے جلسہ قرار پایا تھا اس سے ایک روز پہلے میں بنارس میں پہنچ گیا تھا۔ رات کو سر سید نے میرا پلنگ بھی اپنے ہی کمرے میں بچھوایا تھا۔ گیارہ بجے تک مسلمانوں کی تعلیم کے متعلق باتیں ہوتی رہیں، اس کے بعد میری آنکھ لگ گئی۔ دو بجے کے قریب میری آنکھ کھلی تو میں نے سر سید کو ان کے پلنگ پر نہ پایا۔ میں اْن کے دیکھنے کو کمرے سے باہر نکلا، دیکھتا کیا ہوں کہ برآمدے میں ٹہل رہے ہیں اور زار و قطار روتے جاتے ہیں، میں نے گھبرا کر پْوچھا کہ کیا خدانخواستہ کہیں سے کوئی افسوسناک خبر آئی ہے؟ یہ سن کر اور زیادہ رونے لگے اور کہا کہ:
اس سے زیادہ اور کیا مْصیبت ہو سکتی ہے کہ مسلمان بگڑ گئے، اور بگڑتے جاتے ہیں، اور کوئی صورت ان کی بھلائی کی نظر نہیں آتی۔
پھر آپ ہی کہنے لگے کہ:
جو جلسہ کل ہونے والا ہے، مجھے امید نہیں کہ اس سے کوئی عمدہ نتیجہ پیدا ہو۔ ساری رات اْدھیڑ بن میں گزر گئی ہے کہ دیکھیے، کل کے جلسے کا انجام کیا ہوتا ہے اور کسی کے کان پر جْوں چلتی ہے یا نہیں۔
نواب محسن الملک کہتے ہیں کہ سر سید کی یہ حالت دیکھ کر جو کیفیت میرے دل پر گزری اس کو بیان نہیں کر سکتا اور جو عظمت اس شخص کی اس دن سے میرے دل میں بیٹھی ہوئی ہے اس کو میں ہی خوب جانتا ہوں۔ ‘‘
علی گڑھ تحریک کی فکری بنیادیں
عہد حاضر میں ترقی کا راز اخلاقی قدروں کی بلندی کے ساتھ ساتھ جدید علوم میں مہارت بھی ہے اور اس بات کو سرسید نے بہت پہلے سمجھ لیا تھا۔اسی لئے انھوں نے علی گڑھ کی پہلی فکری بنیاد اخلاقی ترقی کے ساتھ ساتھ مادی ترقی پررکھی تھی۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ 1857 کی جنگ آزادی میں شکست کا خمیازہ ہندوستانی مسلمانوں کو زیادہ اٹھانا پڑا۔ اس کی وجہ سے ہندوستانی مسلمانوں کو معاشی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ سرسید نے اس کے بعدمان لیا کہ مادی خوش حالی مغربی علوم و فنون کو حاصل کیے بغیر نہیں آسکتی ہے۔ انھوں نے علم کے قدیم تصورپر اصرار نہیں کیااور ایسے علم کو حاصل کرنے کا مشورہ دیا جس سے قوم کی ترقی ہو اور معاشی زندگی میں دشواریاں نہ پیش آئیں۔ علی گڑھ تحریک کی دوسری فکری بنیاد، انھوں نے عقلیت پر مرکوزکی تھی۔ سرسید کا ماننا تھا کہ مذہبی معاملات میں عقل کا دخل ہونا چاہیے اور بغیر عقلی استدلال کے آنکھ بند کرکے مذہبی مسائل کو قبول نہیں کرنا چاہیے۔ اسی لیے انھوں نے مذہب اسلام کو سائنس، فلسفے اور قانون فطرت کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی۔ علی گڑھ تحریک کی تیسری بنیادی فکر اجتماعیت پر تھی۔ سرسید مانتے تھے کہ اجتماعیت میں برکت ہے اور اس سے پوری قوم کو متحرک رکھا جاسکتا ہے۔ انھوں نے ایک لکچر میں کہا:
’’تعلیم و تربیت کی مثال کمہار کے آوے کی سی ہے کہ جب تک تمام کچے برتن ، بہ ترتیب ایک جگہ نہیں چنے جاتے اور ایک قاعدہ داں کمہار کے ہاتھ سے نہیں پکائے جاتے کبھی نہیں پکتے پھر اگر تم چاہو کہ ایک ہانڈی کو آوے میں رکھ کر پکالو ہرگز درستی سے نہیں پک سکتی۔‘‘
اگر بہ غور دیکھیں تو سرسید کی علی گڑھ تحریک جدید تعلیم کی تحریک تھی۔ وہ ایسی تعلیم مسلمانوں کو دلانا چاہتے تھے جو ان کے تمام مسائل کا حل بن جائے اور اگر ان کے راستے پر مسلمان چلتے اور یہ تحریک آج بھی جاری ہوتی تو عالم اسلام کے تمام مسائل حل ہوچکے ہوتے۔اس تحریک کو ڈیڑھ سو سال گزر چکے ہیں اور اس کے زیر اثر ساری مسلم دنیا میں تعلیمی اداروں کا قیام ہونا چاہئے تھا اور ملت کے ایک ایک فرد کو تعلیم یافتہ ہونا چاہئے تھامگر افسوس ایسا نہیں ہوا۔بقول اکبرالٰہ آبادی:
ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سید کام کرتا تھا
نہ بھولو فرق جو ہے کہنے والے کرنے والے میں
کہے جو چاہے کوئی میں تو یہ کہتا ہوں اے اکبرؔ 
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں

(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے ) 
15؍اکتوبر2018(ادارہ فکروخبر)

«
»

عدالت عظمیٰ میں بابری مسجد کا قضیہ

ماہِ صفر المظفر اسلام کی نظر میں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے