پامال ہوتے ہوتے بھی خوشبو لٹا گئے سیکھا نہیں بشر نے گلوں کا چلن ابھی

بقلم: محمد حارث اکرمی ندوی

ایک پھول اگر اسکو ہاتھ رگڑیں گے تو وہ اپنی خوشبو اور پھیلائے گا لیکن انسان جسکو اللہ نے أشرف المخلوقات بنایا، عقل دی، اسکو پھول سے سبق حاصل کرنا چاہیے تھامگر بشر نے پھولوں کا چلن نہیں سیکھا۔
شعر کا پہیلا مصرعہ جس پر ہمارے انبیاء، صحابہ، اولیاء اور علماءِ اسلام جن کی زندگی پر صادق آتا ہے انھوں نے اپنے اپ کو پامال کیا برباد کیا اور ظاھرا اپنے اپ کو ذلیل کیا، مگر اپنے اپ کو پامال کر کے دنیا میں ایسی خوشبو اور بہار لا گئے جس سے آج بھی دنیا لطف اٹھا رہی ہے اور فائدہ اٹھا رہے ہیں انھوں نے اپنی زندگی میں چین وسکون نہیں ڈھونڈا مگر اپنے بعد انے والوں کیلئے راحت کا انتظام کر گئے۔
آج ہمکو بھی اسی نہج پر چلنا چاہیے تھا مگر ہم نے اپنے اپ کو دوسرے مصرعے کا مصداق ٹہرایا کہ اب ہمارے پاس وہ اخلاق نہیں ویسی زندگی نہیں جس زندگی اور اخلاق سے وہ اپنے اپ کو پامال کرکے اپنا چین گنوا کر دوسروں کے لیے راحت کا انتظام کر گئے۔ہمارے پاس وہ اخلاق بھی نہیں کہ ہمارے بڑوں کو لوگ جب دیکھتے تو انہیں دیکھتے ہی حلقہ بگوش اسلام ہو جاتے۔
ایک معمولی سا پھول جبکہ اللہ نے اسے عقل نہیں دی اگر ہم اسکو رگڑتے ہیں تو اور خوشبو پھیلاتا ہے مگر انسان جب اس پر تباہی اتی خود بھی برباد ہوتا ہے اور نہ دوسروں کے لیے راحت کا انتظام کرتا ہے، یا اپنا نفع اور فائدہ کسی طرح نکال دے گا جس کے نتیجہ میں پوری قوم کا نقصان ہوگا۔۔
یا اپنے فائدے کو کے نفع پر ترجیح دے گاقربانی خود کےلیے دے گا خود فائدہ اٹھایے گا۔ مگر قوم کو اپنے ذریعے سے کوئی فائدہ نہیں پہونچاےگا، ہم کہ اپنے ابا سے اپنے علماء، انبیاء اور صحابہ کی زندگی سے سبق حاصل کرنا چاہیے،جو چلن وہ چل کر دنیا کو دکھا گئے گویا شاعر کی زبان میں وہ پھول کا چلن ہے جو انھوں نے کر دکھایا تھا، مگر عام انسان اور خاص کر اس دور میں کوئی سبق حاصل نہیں کر رہا ہے۔۔
ہم اس شعر کو اپنے دل پر لکھ لیں، اس میں ہماری زندگی کو سنبھالنے اور سنوارنے کیلئے ایک اہم پیغام ملتا ہے۔ اور سمجھیں کہ یہ ہمارا اپنے آپکو ذلیل کرنا اور پامال کرنا یہ ظاھری طور پر ذلت ہے۔ مگر کامیابی ہمارے ہی قدم چومے گی۔ہم اپنے اسلاف کی زندگیوں میں رنگ جائیں انھیں کے نقش قدم پر چلیں، دنیا سے لینے والے نہ بنے بلکہ دنیا کو دینے والے بنیں۔
یہی وہ ہمارے اسلاف تھے جنہوں نے اپنے اپ کو پامال کرکے قربان کرکے قیصر و کسریٰ تاج کی تخت وتاج کے مالک بن گئے۔ ساری دنیا انکےقدموں میں آکر گری مگر انہوں نے ٹکڑا دیا دنیا کو اپنے قریب آنے ہی نہیں دیا انہوں نے اس دنیا کی راحت کو چھوڑ کر اخروی زندگی کی راحت کو ترجیح دی. کیسے کیا؟ یہی گلوں کا چلن چل کر اپنے اپکو فنا کر کے تاکہ ائندہ انے والی نسل اس خوشبو کا فائدہ اٹھا کر اور وہ بھی گلوں کا چلن سیکھ جائیں۔ مگر ہم نے ایسا نہیں ہم نے صرف دنیوی راحت و آرام کو ترجیح دی ۔
اللہ تعالیٰ مجھے اور آپکو بھی توفیق عطا فرمائیں۔ امین

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔ 
30؍ ستمبر 2018
ادارہ فکروخبر بھٹکل

«
»

کس منھ سے اپنے آپ کو کہتے ہو عشق باز

بچوں کی جنسی تربیت :وقت کی اہم ضرورت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے