دعا! مولا اور بندے کے درمیان اٹوٹ رشتہ

مجاہد شبیراحمد فلاحی 

دْعا کے لغوی معنیٰ پکار ، بلاوے اور آواز کے ہیں جیسے قرآن میں اللہ تعالیٰ نے حضرت شعیب ؑ کی بیٹی کا قول نقل کیا: ’’میرے والد آپ کو بلا رہے ہیں تاکہ آپ نے ہمارے لیے جانوروں کو پانی جو پلایا ہے اس کا اجر آپ کو دیں‘‘۔ (القصص:۵۲) اصطلاح شریعت میں دْعا اس آواز اور پکار اور التجا کو کہتے ہیں جو نہایت ہی عاجزی و انکساری کے ساتھ اللہ کے دربار میں پیش کی جائے اور اس میں خیر کی طلب اور شر سے نجات کی درخواست ہو۔ قرآن کریم میں لفظ دْعا کا استعمال کئی مقامات پر ہوا ہے ذیل میں چند آیات نقل کی جاتی ہیں: (۱)۔’’یہ حال دیکھ کر (حضرت) زکریا علیہ السلام نے اپنے رب کو پکارا، پروردگار اپنی قدرت سے مجھے نیک اولاد عطا کر تو ہی دعا سننے والا ہے‘‘۔ (آل عمران:۸۳)؛(۲)۔ ’’انسان پر جب کوئی آفت آتی ہے تو وہ اپنے رب کی طرف رجوع کر کے اسے پکارتا ہے‘‘۔ (الزمر: ۸) (۳)۔ ’’آخرکار اس نے اپنے رب کو پکارا کہ یہ لوگ مجرم ہیں‘‘۔ (الدخان:۲۲)؛(۴)۔’’آخرکار اس(حضرت نوحؑ ) نے اپنے رب کو پکارا کہ میں مغلوب ہو چکا اب تو ان سے انتقام لے‘‘۔(القمر: ۰۱) دْعا کی فضیلت: قرآن کریم اور احادیث نبویہ میں دْعا کی بہت فضیلت بیان کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’تمہارا رب کہتا ہے مجھے پکارو میں تمہاری دْعا قبول کروں گا۔ جو لوگ گھمنڈ میں میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں، ضرور وہ ذلیل وخوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے‘‘۔ (المومن: ۰۶) مولانا مودودی? اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’اس آیت میں دو باتیں خاص طور پر قابل توجہ ہیں، ایک یہ کہ دعا اور عبادت کو یہاں ہم معنیٰ الفاظ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ کیونکہ پہلے فقرے میں جس چیز کو دعا کے لفظ سے تعبیر کیا گیا تھا اسی کو دوسرے فقرے میں عبادت کے لفظ سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ دْعا عین عبادت اور جانِ عبادت ہے۔ دوسرے یہ کہ اللہ سے دْعا نہ مانگنے والوں کے لیے ’’گھمنڈ میں آکر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں‘‘کے الفاظ استعمال کر لیے گئے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ سے دْعا مانگنا عین تقاضائے بندگی ہے اور اس سے منہ موڑنے کے معنیٰ یہ ہیں کہ آدمی تکبر میں مبتلا ہے۔‘‘ (ترجمۂ قرآن مجید مع مختصر حواشی، ص ۱۹۱۱) دوسری جگہ ارشاد فرمایا: ’’اور اے نبی ?، میرے بندے اگر تم سے میرے متعلق پوچھیں، تو انہیں بتا دو کہ میں ان سے قریب ہوں، پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے، میں اس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔ لہٰذا انہیں چاہیے کہ میری دعوت پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں (یہ بات تم انہیں سنادو) شاید کہ وہ راہ راست پالیں۔‘‘ (البقرہ: ۶۸۱) متعدد احادیث نبوی میں دْعا کی فضیلت و اہمیت بیان کی گئی ہے، چند احادیث درج ذیل ہیں: ’’ نیکی سے ہی عمر میں اضافہ ہوتا ہے اور دْعا ہی تقدیر کو ٹال سکتی ہے‘‘۔ (ابن ماجہ، کتاب السنہ، باب فی القدر:۰۹) ’’دْعا عبادت کا مغز ہے‘‘۔ ’’یقیناًدْعا ہی عبادت ہے‘‘۔ (ابن ماجہ، ابواب الدعا، باب فضل الدعا: ۲۳۲) شرائط دْعا: ہر چیز کے کچھ شرائط اور تقاضے ہوا کرتے ہیں اسی طرح دْعا کے بھی کچھ شرائط اور آداب ہیں۔ بندے کو چاہیے کہ وہ اپنے رب کے سامنے دْعا کے لیے ہاتھ پھیلاتے وقت ان تمام چیزوں کا اہتمام کرے تاکہ رب کائنات کے دربار میں اس کی دْعا شرف قبولیت حاصل کر لے۔ حضور قلب: سب سے پہلی چیز یہ کہ بندہ دنیا کی تمام چیزوں سے کٹ کر، اور اپنی تمام توجہات کو صرف رب کائنات کی طرف موڑ دے، جس کے سامنے دْعا کرنے کھڑا ہوا ہے۔ قولاً اور فعلاًدونوں سے اس چیز کا اظہار ہو کہ وہ صرف اور صرف اپنے رب کریم کے سامنے اپنی عاجزی اور انکساری کا اظہار کر رہا ہے، اپنی بے بسی اور لاچارگی بیان کر رہا ہے اور اپنے رب سے ہی آس لگائے کھڑا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اپنے رب کو پکارو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے‘‘۔(الاعراف: ۵۵) حرام کھانے، حرام پینے اور حرام لباس سے مکمل اجتناب: دوسری شرط یہ ہے کہ بندہ حرام چیزوں سے مکمل اجتناب کرے۔ اس کا کھانا پاک اور حلال ہو، اس کاپینا صحیح ہو اور اس کا کپڑا بھی حلال کمائی سے حاصل کیا گیا ہو اور شریعت میں اس کی ممانعت بھی نہ ہو۔ حضرت ابوہریرہ ? سے روایت کہ اللہ کے رسول نے فرمایا: ’’اے لوگو! بے شک اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاک (چیزوں کو) ہی قبول کرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو اسی چیز کا حکم دیا جس چیز کا حکم پیغمبروں کو دیا ہے۔ پھر فرمایا : اے پیغمبرو ! کھا? پاک چیزیں اور نیک عمل کرو، تم جو کچھ بھی کرتے ہو میں اس کو خوب جانتا ہوں‘‘۔ (المومنون:۱۵) نیز فرمایا: ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اگر تم حقیقت میں اللہ ہی کی بندگی کرنے والے ہو تو جو پاک چیزیں ہم نے تمہیں بخشی ہیں، انہیں بے تکلف کھا?‘‘۔ (البقرہ: ۲۷۱) پھر( اللہ کے رسول ? نے) ایک آدمی کا ذکر فرمایا جو بہت لمبا سفر طے کر کے اس حال میں آیا کہ اس کے بال بکھرے ہوئے اور غبار آلود تھے، اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف پھیلائے ہوئے (اللہ سے دعاکی) مگر اس کا لباس حرام (کمائی کا) تھا اور اس کا کھانا پینا حرام (طریقے سے حاصل ہوا) تھا، (تو سوچو) اس کی دْعا کیوں کر قبول ہو سکتی ہے‘‘۔ (مسلم، کتاب الزکوٰۃ: باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیب وتربیتھا: ۶۴۳۲) دْعا میں گناہ، قطع رحمی اور عجلت کا اظہار نہ ہو: تیسری شرط یہ ہے کہ بندہ کسی گناہ یا قطع رحمی کی دْعا نہ کرے، مثلاً یہ دْعا کرے کہ میں فلاں کام (جو حرام ہو) کرنے میں کامیاب ہو جا?ں، یا فلاں شخص سے میرا رشتہ ٹوٹ جائے وغیرہ۔ اس کے علاوہ اس بات کا بھی اظہار نہ کرے کہ میں نے دْعا کی تھی اور ابھی تک قبولیت کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔ یا اللہ تو میری دْعا قبول ہی نہیں کرتا وغیرہ۔ اس طرح کی مایوسی انسان کو کفر تک لے جاتی ہے۔ اس لیے کہ اللہ سے مایوس ہو کر انسان غیر اللہ کے سامنے اپنی حاجات و ضروریات اور اپنی تنگدستی اور پریشانی پیش کرنے لگتا ہے، نتیجتاً وہ شرف قبولیت سے محروم ہو جاتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ? سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بندے کی دْعا اْس وقت تک سْنی جاتی ہے جب تک وہ کسی گناہ، قطع رحمی کی دْعا نہ کرے اور اس میں جلد بازی کا اظہار نہ کرے‘‘۔ کسی نے دریافت کیا، اے اللہ کے رسول جلد بازی سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: ’’بندہ یہ کہے کہ میں نے خوب خوب دْعائیں کیں مگر میں ان کی قبولیت کے آثار نہیں دیکھتا ہوں، اس وقت وہ تھک (کر مایوس ہو) جاتا ہے اور دْعا کرنا چھوڑ دیتا ہے‘‘۔ (ترمزی، کتاب الدعوات:۰۱۱) اللہ کی حمد و ثنا اور اس کے رسول پر صلاۃ وسلام کے ذریعے دْعا شروع کی جائے: چوتھی شرط یہ ہے کہ دْعا کرتے وقت بندہ سب سے پہلے اپنے رب کریم کی حمد و ثنا بیان کرے، اس کی عظمت، جلال، کمال، رفعت، تقدیس، کبریائی کا اظہار کرے اس کے بعد اپنے سب سے بڑے محسن پیغمبر پر جن کے ذریعے اس کو ہدایت ملی اور وہ ظلمتوں سے نکل کر روشنی میں آیا، درودوسلام بھیجے۔ اس کے بعد جو طلب اور ضرورت ہو اس کو اپنے رب کے سامنے انتہائی عاجزی کے ساتھ بیان کرے۔ یہ چیز آداب دْعا میں بھی شامل ہے۔ فضالہ بن عبید? فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول نے ایک شخص کو دیکھا کہ اس نے اللہ سے دْعا کی مگر نہ تو اللہ کی مجدو شرف بیان کی اور نہ ہی نبی پر درود بھیجا۔ (یہ سن کر) اللہ کے رسول نے فرمایا: ’’اس شخص نے دْعا کرنے میں عجلت کی‘‘۔ پھر اس شخص کو بلایا اور اسے یا کسی دوسرے سے کہا: ’’جب تم میں سے کوئی شخص دْعا کرنا چاہے تو اس کو چاہیے کہ اللہ عظیم و برتر کی حمد و ثنا بیان کرے پھر نبی پر درود بھیجے پھر جو چاہے دْعا کرے۔ (ابودا?د : کتاب الوتر: باب الدعا: ۱۸۴۱) اسی طرح ایک ایسے شخص کو دْعا کرتے سنا جس نے اللہ کی مجدو شرف بیان کی اور نبی پر درود و سلام بھیجا تو اللہ کے رسول نے (اس شخص سے) کہا ’’دْعا کرو تمہاری دْعا قبول کی جائے گی اور مانگو تمہیں عطا کیا جائے گا‘‘۔ (النسائی کتاب السھو: باب التمجید والصلاۃ علی النبی فی الصلوٰۃ: ۵۸۲۱) حضرت علی ? سے موقوفاً روایت ہے ’’ہر دعا اس وقت تک محجوب ہے(جو قبول نہ کی گئی ہو) جب تک کہ اس سے پہلے محمد اور آل محمد پر درود نہ بھیجا جائے‘‘۔ (اخرجہ الطبرانی فی (الاوسط) والبیہقی فی (شعب الایمان) دْعاکے آداب: دْعا کے کچھ آداب بھی ہیں، جن کی رعایت کرنا نہایت اہم ہے۔انہیں سطور ذیل میں بیان کیا جارہا ہے: وضو کا اہتمام: دْعا کرنے سے پہلے بندہ اس بات کا اہتمام کرے کہ وہ باوضو ہو، جہاں دْعا کے لیے اندرونی صفائی اور خلوص مطلوب ہے وہیں ظاہری پاکی اور صفائی کا اہتمام بھی بہتر ہے۔ حضرت ابوموسیٰ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ نبی کریم جب غزوہ حنین سے فارغ ہوئے تو ابو عامر? کو ایک لشکر کی قیادت دے کر اوطاس کی طرف بھیجا۔ ان کا مقابلہ درید بن الصمۃ سے ہوا۔ اس مقابلے میں درید قتل ہوا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے لشکر کو شکست سے دوچار کیا، ابو موسیٰ ?فرماتے ہیں کہ مجھے (بھی) ابو عامر? کے ساتھ بھیجا گیا۔ دوران جنگ ابو عامر کی گردن میں ایک تیر آکر لگا انہوں نے مجھ سے کہا اس تیر کو میری گردن سے نکالو، تو میں نے اسے نکالا تو ان کے خون کا فوارہ جاری ہو گیا۔ حضرت ابو عامر ?نے کہا اے بھتیجے، نبی کے پاس چلے جا? اور انہیں میرا سلام کہو اور ان سے کہو، ابو عامر نے آپ سے دْعائے مغفرت کی درخواست کی ہے۔ فرماتے ہیں کہ ابو عامر نے مجھے لوگوں کا امیر مقرر کیا۔ اس کے بعد ابو عامر? تھوڑی دیر زندہ رہے پھر ان کی وفات ہو گئی،پھر جب میں اللہ کے رسول کے پاس پہنچا تو اللہ کے رسول چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے اس پر (تھوڑا سا) بستر بھی تھا مگر (اس کے باجود) اللہ کے رسول کی پیٹھ اور پہلو?ں پر اس بْنائی کے نات تھے۔ میں نے آپ کو اپنے اور ابو عامر ?کے احوال سے باخبر کیا اور عرض کی کہ ابو عامر نے آپ سے دْعائے مغفرت کی درخواست کی ہے۔ (یہ سن کر) اللہ کے رسول نے پانی منگا کر وضو کی پھر اپنے دونوں ہاتھ بلند کیے اور فرمایا: ’’اے اللہ! اپنے بندے ابو عامر کی مغفرت فرما (آپ نے اپنے ہاتھ اتنے بلند کیے) کہ آپ کی بغل کی سفیدی نظر آنے لگی۔ پھر آپ نے فرمایا: اے اللہ! اس کو قیامت کے دن اپنی کثیر مخلوق سے بلند فرما یا کثیر لوگوں سے۔ میں نے کہا اے اللہ کے رسول میرے لیے بھی دْعائے مغفرت فرما دیجئے تو نبی نے دْعا کی ’’اے اللہ! عبداللہ بن قیس کے گناہوں کو معاف فرما اور قیامت کے دن اسے بہترین جگہ نصیب فرما‘‘۔ (بخاری) دونوں ہاتھ اْٹھا کر دْعا کرے اور دونوں ہاتھ کی ہتھیلی چہرے کے سامنے رکھے: حضرت سلمان ? سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے فرمایا: ’’بے شک تمہارا رب زندہ اور کرم والا ہے، وہ اس بات سے حیا محسوس کرتا ہے کہ جب بندہ اپنے ہاتھ اس کی طرف بلند کرتا ہے تو وہ ان کو خالی لوٹا دے‘‘۔(ابو دا?د: کتاب الوتر، باب الدعا: ۸۸۴۱) ایک اور حدیث میں آپ نے فرمایا: ’’جب تم اللہ سے دعا کیا کرو تو اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں کے ساتھ دْعا کرو اور ان کے باہری حصے کے ساتھ دْعا نہ کرو‘‘۔ (ابودا?د، کتاب الوتر، باب الدعا: ۰۸۴۱) دْعاکا ایک اہم ادب یہ بھی ہے کہ جب بندہ اپنے رب کے سامنے دْعا کرے تو انتہائی عاجزی اور انکساری کے ساتھ ساتھ دھیمی آواز میں دْعا کرے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اے نبی! اپنے رب کو صبح و شام یاد کیا کرو دل ہی دل میں زاری اور خوف کے ساتھ اور زبان سے بھی ہلکی آواز کے ساتھ، تم ان میں سے نہ ہو جا? جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں‘‘۔ (الاعراف: ۵۰۲) ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: ’’اپنے رب کو پکارو گڑگڑاتے ہوئے اور چپکے چپکے، یقیناًوہ حد سے گزرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘۔ (الاعراف:۵۵) اللہ کے رسول نے بھی اپنی امت کو اس کی طرف رہنمائی فرمائی ہے۔ حضرت ابو موسیٰ ? سے روایت ہے کہ ہم ایک سفر میں نبی کریم کے ساتھ تھے اور جب ہم کسی وادی پر چڑھتے تھے تو تکبیر و تحلیل سے ہماری آوازیں بلند ہوتی تھیں۔ نبی نے فرمایا: ’’اپنے اوپر رحم کرو، اس لیے کہ تم کسی بہرے اور غائب کو نہیں پکارتے ہو، (بلکہ) یقیناًوہ تمہارے ساتھ ہے، اور وہ سننے والا (اور) قریب ہے‘‘۔ (بخاری: کتاب الجھاد: باب ما یکرہ من رفع الصوت فی التکبیر: ۲۹۹۲) دْعا میں حد سے تجاوز نہ کیا جائے: دْعا کرتے وقت اس بات کا خیال رکھا جائے کہ غیر ضروری تفصیل بیان نہ کی جائے اور نہ امور محال چیز کی حصولیابی کی دْعا کی جائے۔ عبداللہ بن مقعل ? نے اپنے بیٹے کو دْعا کرتے ہوئے سنا وہ کہہ رہے تھے ’’اے اللہ !میں تجھ سے جنت میں سفید محل کا طالب ہوں‘‘۔ انہوں نے کہا اے میرے بیٹے: اللہ تعالیٰ سے جنت مانگو اور جہنم سے پناہ چاہو۔ اس لیے کہ میں نے اللہ کے رسول کو فرماتے ہوئے سنا ’’عنقریب میری امت میں کچھ لوگ ضرور ہوں گے جو پاکی اور دْعا میں حد سے گزر جائیں گے‘‘۔(ابودا?د کتاب الطھارۃ، باب الاسراف فی الوضو:۶۹۔ ابن ماجہ: ۴۶۸۳) حضرت سعد بن ابی وقاص سے بھی ایسا ہی ایک واقعہ نقل ہوا ہے : حضرت سعد? نے اپنے بیٹے سے فرمایا: ’’اے بیٹے اگر تمہیں جنت دی گئی تو سمجھو تمہیں جنت کے ساتھ وہ تمام چیزیں دی گئیں جو اس میں ہیں، اور اگر تمہیں جہنم سے نجات دی گئی تو سمجھو تمہیں جہنم سے ہی نہیں بلکہ جو کچھ بھی اس میں ہے، اس سے تمہیں نجات دی گئی۔‘‘ قبلہ کی طرف منہ کرنا: بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دْعا کرتے وقت قبلہ کی طرف منہ کر لینا چاہیے۔ عبداللہ بن زید الانصاری ے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نماز استسقا ء4 کے لیے عیدگاہ کی طرف نکلے، اور جب آپ نے دْعا کا ارادہ کیا تو قبلہ کی طرف اپنا چہرہ کیا اور اپنی چادر کو پلٹ دیا۔ (مسلم، کتاب صلوٰۃ الاستسقاء: ۱۷۰۲) دْعا کرنے والا پہلے اپنی ذات سے شروع کرے: قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر پیغمبروں کی دعا ئیں نقل کی ہیں۔ ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ بندہ پہلے اپنے لیے دْعا کرے اور اس کے بعد دوسروں کے لیے۔ حضرت ابراہیم کی دْعا قرآن نے ان الفاظ میں بیان کی ہے:’’اے میرے پروردگار! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد سے بھی۔ (ایسے لوگ اْٹھا جو یہ کام کریں گے) پروردگار! میری دْعا قبول کر۔ پروردگار مجھے اور میرے والدین کو اور سب ایمان لانے والوں کو اس دن معاف کر دیجیو جب کہ حساب قائم ہو گا‘‘۔(ابراہیم: ۰۴۔۱۴) حضرت نوح? نے ان الفاظ میں دعا کی: ’’میرے رب! مجھے اور میرے والدین کو، اور ہر اس شخص کو جو میرے گھر میں مومن کی حیثیت سے داخل ہوا ہے، اور سب مومن مردوں اور عورتوں کو معاف فرمادے، اور ظالموں کے لیے ہلاکت کے سوا کسی چیز میں اضافہ نہ کر‘‘۔ (نوح: ۸۲) حضرت ابی بن کعب? سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول جب کسی کا ذکر کرتے تو اس کے لیے دْعا فرماتے (مگر) دْعا اپنے آپ سے شروع کرتے۔ (ابودا دکتاب الدعوات، باب ماجاء4 أن الداعی یبدأ بنفسہ: ۵۸۳۳: احمد: ۴۴۴۱۲) جامع اور بہتر کلام سے دْعا کی جائے: دْعا کے آداب میں سے ایک یہ ہے کہ غیر ضروری طول کلام سے گریز کیا جائے اور کوشش کی جائے کہ الفاظ مختصر اور جامع ہوں۔ اللہ کے رسول کے بارے میں آتا ہے کہ آپ جامع ترین دعائیں پسند فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ سے روایت ہے، اللہ کے رسول جامع ترین دعائیں پسند فرماتے تھے اور ان سے کم تر چھوڑ دیتے تھے۔ (احمد:۶/۰۴۱۔ ۶۶۶۰۲۔ ابودا?د: کتاب الوتر، باب الدعا، ۲۸۴۱) دْعا پورے عزم اور طلب کے ساتھ مانگی جائے: دْعا کرتے وقت بندہ جو چیز طلب کرے اس کے سلسلے میں یہی امید رکھے کہ اللہ تعالیٰ ضرور اسے عطا فرمائے گا۔ اور کسی ایسے رویہ کا مظاہرہ نہ کرے جس سے بے نیازی کا اظہار ہو رہا ہو۔ مثلاً یہ نہ کہے کہ اے اللہ اگر تو چاہے تو میری مغفرت فرما وغیرہ۔ بلکہ پورے عزم اور طلب کا اظہار کرے۔ حضرت ابوہریرہ? سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے فرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی دْعا کرے تو وہ یہ نہ کہے: اے اللہ تو اگر چاہے تو میری مغفرت فرما بلکہ پورے عزم اور طلب کے ساتھ دْعا کرے، اور خوب رغبت و اشتیاق کا اظہار کرے۔ اس لیے کہ اللہ کے مقابلے میں کوئی چیز بڑی نہیں ہے جس کو وہ عطا کرے۔ (مسلم :کتاب الذکر و الدعا۔ باب العزم بالدعا، ولا یقل ان شئت، ۲۱۸۶) اور ایک روایت میں ہے کہ ’’بے شک اللہ تعالیٰ جو چیز بھی چاہے پیدا کر سکتا ہے اس پرکوئی زبردستی کرنے والا نہیں ہے۔‘‘ دْعا بار بار کی جائے: ایک ادب یہ بھی ہے کہ جب اللہ سے دْعا کی جائے تو دْعا کے الفاظ بار بار دہرائے جائیں۔ اسوہ نبوی سے معلوم ہوتا ہے کہ کم از کم تین مرتبہ دْعا کی جائے
 

«
»

کیا مطلقہ کیلئے عدت کے بعد نفقہ کیلئے عدالت سے رجوع کرنا شرعاً درست ہے؟

شہادت ہے مطلوب ومقصودِ مومن۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے