جناب عبد اللہ دامودی شخصیت اور تاثرات

تحریر ۔ مولانا محمد ناصر اکرمی ( ناظم ۔ معہد حسن البناء ، بھٹکل )

جناب عبد اللہ دامودی مرحوم۱۹/ذی قعدہ ۱۴۳۹ ؁ھ یکم اگست ۲۰۱۸ ؁ء تین ماہ کی مسلسل علالت کے بعد اس دنیائے فانی کو الوداع کہتے ہوئے آخرت کو سدھار گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون 
دل یقین نہیں کرتا کہ دامودی عبداللہ بھی اتنی جلدی دنیا سے رخصت ہو گئے،رمضان میں ان کی جان لیوا بیماری کا پتہ چلا،مدراس (چنائی)عائشہ اسپتال میں لے جایا گیا،جب ان کی بیماری کی تشخیص ہوئی،تو ڈاکٹروں نے اگر چہ بیماری کے بارے میں انہیں نہیں بتایا،لیکن انہوں نے گوگل کے ذریعے اس کا پتہ لگایا، کینسر کا علم ہونے کے بعد وہاں موجود اپنے احباب سے کہا کہ زندگی میں مجھ پر بہت سے حالات آئے لیکن میں نے کبھی ہمت نہیں ہاری ،لیکن اس بیماری نے میری ہمت توڑدی،ان کو پیٹھ میں کینسر لاحق ہوگیا تھا،جس کی وجہ سے شدید تکلیف میں مبتلا تھے،راقم ان کی بیماری کے ایام میں بھٹکل میں موجود نہیں تھا،بیرون ملک سفر پر تھا،رمضان کے آخری عشرے میں بھٹکل پہونچا تو فورا عیادت کے لیے گھر گیا، اس وقت حالت کچھ ٹھیک تھی، باتیں کیں، چند دنوں کے بعد پھر گیا، تو پہلے والی کیفیت نہیں تھی، حالت میں کچھ سدھار آگیا تھا،تکلیف میں بھی کچھ کمی محسوس ہورہی تھی، اسی دوران مجھے ندوہ سے مولانا خالد غازیپوری ندوی کا فون آیاکہ مولانا غزالی صاحب ندوی پر لکھا ہوا مضمون ارسال کرچکا ہوں، اس وقت احقر نے عبد اللہ مرحوم کی بیماری کی اطلاع کی، تو مولانا نے عبد اللہ صاحب سے فون پر بات کی، عبد اللہ صاحب نے دعا کی درخواست کی،حسن اتفاق یہ ہوا کہ مولانا خالد صاحب یکم اگست کو بھٹکل میں مسجد بلال کی نو تعمیر کی افتتاح کے موقعہ پر مدعو تھے،تومولانا عبد اللہ مرحوم کے جنازے میں بھی شریک ہوئے،یہ محبت اور تعلق کی علامت ہے۔
مرحوم عبد اللہ دامودی صاحب کی پیدائش ۱۹۳۵ ؁ء کی ہے،بھٹکل جامع محلہ میں ان کا مکان تھا، بچپن ہی سے نیک اور صالح اور صوم وصلاۃ کے پابند تھے،صلحاء اور علماء کے ساتھ اٹھنا بیٹھناتھا، علماء سے محبت شروع سے اخیر تک رہی، رسالہ نقوش طیبات کے خصوصی دوشمارے میں سابق امام وخطیب جامع مسجد بھٹکل مولانا عبد الباری صاحب ندویؒ اور اسی طرح ڈاکٹر علی ملپاؒ (بانی جامعہ اسلامیہ بھٹکل)میں راقم کی فرمائش پر مرحوم عبد اللہ صاحب کے مضامین شائع ہونے کی وجہ سے مولانا غزالی خطیبی ندوی مرحوم پر لکھنے کی درخواست کی ،تو اس بیماری کے ایام میں بھی چند سطریں اپنے قلم سے لکھ کر دیدیں،جو ان کی زندگی کی آخری اور یادگار تحریرثابت ہوئی۔
مرحوم عبد اللہ صاحب ۱۹۶۰ ؁ء میں انجمن ہائی اسکول بھٹکل میں میٹرک پاس کیا،انگریزی اچھی لکھ پڑھ لیتے تھے، اردو ادب کا بھی اچھا ذوق تھا، یہ ذوق ان کو مطالعہ کتب کی وجہ سے ملاتھا، اکثر مولانا مودودی کی کتابیں زیر مطالعہ رہتی تھیں،اس طرح مولانا محمود خیال مرحوم کے زیر تربیت رہنے کی وجہ سے اس ذوق میں اورنکھار آگیا تھا،مولانا محمود خیال بھٹکل کی ایک بزرگ شخصیت تھی،اچھے شاعر تھے،خیال اپنا تخلص لکھتے تھے ،اور بھٹکل میں کئی علماء کے استاد تھے،مرحوم کا ایک شعر آج تک راقم کویاد ہے، جس کو مرحوم نے کسی خاص پس منظر میں کہاتھا:
یہ دیوبند یہ ندوہ یہ جامعات علوم
انہی سے زندہ ہے نام ونشان ملت کا
مرحوم عبد اللہ صاحب کو مولانا مودویؒ سے بے پناہ محبت وعقیدت تھی،مولانا کے لٹریچر کو مرحوم نے گھول کر پی لیا تھا،اپنے ایک فرزند کا نام بھی عقیدت میں ابوالاعلی دامودی رکھ لیا تھا،لیکن تقدیرکے فیصلہ سے وہ دامودی بچہ مودودی بن نہ سکا بچپن ہی میں اللہ کو پیارا ہوگیا۔
راقم نے جب سے ہوش سبنھالا ،مرحوم عبد اللہ کے بارے میں سنا اور سنتا رہا، مرحوم بڑے متحرک اور فعال شخصیت کے مالک تھے،ہر طرح کی صلاحیت رکھتے تھے،انجمن کے جلسے ہوں یا تنظیم کے اس طرح کسی اور ادارے کا کوئی پروگرام ہو، مرحوم کو ان جلسوں کی نظامت کرتے دیکھا،بڑی اچھی نظامت کرتے تھے، اردو بولتے تو معلوم ہوتا کہ لکھنو کا کوئی ادیب بول رہا ہے، برمحل عمدہ اور اچھے اشعاراور ادبی جملے پیش کرتے تھے،جس سے سامعین خوب محظوظ ہوتے تھے۔
شمع روشن بجھ گئی بزم سخن ماتم میں ہے
مرحوم عبد اللہ کے مطالعہ اورکتب بینی کا یہ ذوق اوراردو سے والہانہ محبت اخیر تک رہا،ادھر انتقال سے چار پانچ ماہ پہلے تک معہد امام حسن البنا میں کئی مرتبہ آئے،اورکہا کہ دہلی سے نکلنے والا رسالہ ’’اردو دنیا‘‘گھر لے جاکرمطالعہ کیا کروں گا،عصری علوم پڑھا ہوا شخص اس قدر اردو سے محبت اور لکھ پڑھ لینا تعجب خیزبھی ہے اور خوش آئین بھی، آج کل جو پود اور نسل آرہی ہے، وہ اردو سے بالکل نابلد اورناواقف ہوتی جارہیہے،اردو کا صحیح تلفظ ادا کرنابھی مشکل ہے۔الا ماشا ء اللہ 
مرحوم عبد اللہ صاحب کی زندگی کا ایک بڑا کارنامہ مادرحواکا قیام ہے، یہ ۲۰۰۰ ؁ء میں قائم ہوا، اس کے بانی ومنتظم مرحوم دامودی صاحب ہی تھے، اللہ تعالی ان کے بعد اس کے چلانے والوں کو اخلاص ہمت وقوت عطا کرے۔ اور خصوصیت سے اردوزبان پر جس کے مرحوم شیدائی تھے،زیادہ زور اور توجہ دینے کی توفیق دے،تاکہ مرحوم کی روح کو اس سے تسکین ملے۔
مرحوم عبد اللہ صاحب ذریعہ معاش کے لیے پہلے ممبئ گئے، وہاں کچھ مدت رہے،یہاں جماعتی کاموں سے منسلک رہے، سعودیہ میں ینبع میں کچھ مدت قیام کیا، وہاں ینبع مسلم جماعت کا وجود عمل میں آیا،تو آپ ہی اس کے کرتا دھرتا تھے،اس طرح آپ نے وہاں درس قرآن کا سلسلہ بھی شروع کیا، جس کی وجہ سے وہاں لوگوں میں ایک اچھا ماحول فہم قرآن کا پیدا ہوا، مرحوم عبد اللہ صاحب جہاں بھی رہے، نمایاں رہے،جماعتی کام ہو یا کوئی پروگرام ہو ہر کام میں آگے آگے رہے، بڑے خوش مزاج اور ہنس مکھ چہرے کے مالک تھے۔
۱۹۶۶ ؁ء کی بات ہے کہ ایک زبردست ٹرین حادثہ ہوا تھا،اس میں کئی لوگ ہلاک ہوئے تھے، اس ٹرین میں مرحوم عبد اللہ صاحب بھی تھے،جس بوگی میں آپ تھے، اس کوکاٹ کرکے لوگوں کو نکالا گیا تھا، لیکن اللہ جسے رکھے، اسے کون چکھے، والی بات مرحوم عبد اللہ صاحب بال بال اس حادثے میں بچ نکلے،اللہ تعالی کو یہی مقصود تھا کہ ان سے اور قوم وملت کا کام لے، اس حادثے کے بعد آپ مزید ۵۰/سال سے زیادہ عرصہ زندہ رہے،اورحسب توفیق دین وملت کاکام کیا، اللہ تعالی ان کے جملہ مساعئ جمیلہ کو شرف قبولیت بخشے۔
مرحوم عبد اللہ صاحب ہر کام میں پیش پیش رہتے، چاہے وہ ریلف کاکام ہو،یا طوفان زدہ اور سیلاب زدہ لوگوں کی خبر گیری کا ہو، قحط سالی میں مبتلا اشخاص کی امداد ہو، اس کے لیے دور دور کے اسفار کرنا پڑے، اس کے لیے کبھی پیچھے نہیں ہٹے ،ملت کے ہرکام کو انہوں نے اپنا کام سمجھا، اس جذبے کے ساتھ انہوں نے ان کاموں کوانجام دیا،جس کے دل میں ملت کادرد ہوتواس کے لیے ہر کام آسان بن جاتاہے،خوشی خوشی وہ ان کاموں کوانجام دیتاہے، اب ایسے بے لوث خدمت کرنے والے افراد کی کمی محسوس ہوتی جارہی ہے،مرحوم عبد اللہ صاحب کے اندر ہر طرح کی صلاحیت موجود تھی، دنیا کمانا چاہتے تو بہت کچھ کما سکتے تھے، لیکن جو ملت کے لیے وقف ہوجاتاہے، وہ اپنی دنیا نہیں آخرت بناتاہے، اس لیے مرحوم نے زندگی بھر اپنا کوئی ذاتی مکان بھی نہیں بنوایا، نرینہ اولاد سے محرومی رہی، بڑی آرزوں کے بعد ایک لڑکا پیدا ہوا تھا ،وہ بھی بچپن ہی میں قضاء کی نذر ہوگیا،بیٹیوں کے گھر میں رہ کر زندگی گزاری، اوردم واپسیں بھی انہی کے مکان میں ہوئی، خدا مرحوم کو اپنی آغوش رحمت میں جگہ دے، عجب آزاد مرد تھا۔
مرحوم عبد اللہ دامودی صاحب دینی اداروں سے بھی بے پناہ محبت کرتے تھے،خصوصا جامعہ اسلامیہ سے مرحوم کوبڑی عقیدت ومحبت تھی، وہاں کے اساتذہ وطلبہ سے بھی بڑا گہرا تعلق تھا، جامعہ کے ہر چھوٹے بڑے پروگرام میں شرکت کرتے، دعوت نہ دینے پر شکایت کرتے،جامعہ اسلامیہ کے پچاس سالہ پروگرام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، نوائطی تہذیب وثقافت کے بڑے دلدادہ تھے،اس کی حفاظت کے بڑے امین تھے، پچاس سالہ موقعہ پر نوائطی ثقافت کے پروگرام میں نمایاں کردار ادا کیا، اس کے لیے دن رات کام کیا، اس کی تیاری کے لیے کئی کئی راتیں جامعہ میں گزاریں،اس پروگرام کے بعد بھی مرحوم اس فکر میں تھے کہ نوائط تہذیب وثقافت کو باقی رکھنے کے لیے ایک مستقل متحف (میوزیم) کا قیام عمل میں آنا چاہیے،اس کے لیے مرحوم نے کافی اثاثہ بھی جمع کیاتھا، اب قوم کوچاہیے کہ ان کے جمع کردہ اثاثے کو محفوظ رکھے اوراس کو آگے بڑھانے کی فکر کرے،اس کے لیے مستقل ایک کمیٹی وجود میں آئے،جو اس کو باقی رکھنے اورآگے بڑھانے کی کوشش کرے۔اس کے لیے ایک ایسی بڑی جگہ کا انتخاب کیا جائے، جہاں پرانے طرز کی عمارت تعمیر ہو،کسی بھی ایسی تہذیب وثقافت کوجو دین وشریعت سے ٹکراتی نہ ہو، وجود میں آئے تو کیا حرج ہے، نوائطی قلمی اثاثہ بھٹکل اور اطراف بھٹکل میں ڈھیر سارے مل سکتے ہیں، اس کو اکٹھا کرنے اور محفوظ رکھنے کی سخت ضرورت ہے، ورنہ وہ ضائع ہوجائے گا،اس کام کے لیے چند صاحب ذوق افراد کو منتخب کرکے یہ کام ان کے سپرد کردینا چاہیے،یہ کام کسی ایک فرد کاکام نہیں ہے ،بلکہ پوری قوم کو مل کر اس کام کو انجام دینا پڑے گا۔
مرحوم عبد اللہ صاحب اپنی عمر مستعارکی ۸۰/بہاریں اس دنیائے فانی میں گذار کر اللہ کی دعوت پر لیبک کہتے ہوئے آخرت کو سدھار گئے، اللہ تعالی مرحوم کے کئے تمام حسنات کو شرف قبولیت بخشے ،ان کے قوم وملت کے لیے سوچے گئے اچھے منصوبوں کو بروئے کار لانے اور ان کے قائم کیے ہوئے مادر حوا کو حقیقی معنی میں مادر حوا بنائے۔اللہ تعالی ان کی بال بال مغفرت فرماکر جنت الفردوس میں اعلی مقام عطاکرے ،اور ان کے جملہ پس ماندگان کو صبرجمیل سے نوازے۔آمین
مرحوم کے نقوش طیبات میں شائع شدہ مولانا عبد الباری اور ڈاکٹر علی ملپا مرحوم پر لکھی گئی تحریر کے چند اقتباسات کو یہاں نقل کرتا ہوں تاکہ قارئین کو اندازہ ہوجائے کہ مرحوم کی تحریر ادبی شہ پارے سے کم نہیں تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’ماشاء اللہ گورا گورا سا بچہ، دنیائے دنی میں اپنی آنکھ کھول رہا تھا، لقد خلقنا الإنسان فی أحسن تقویم کی تصویر۔۔۔ اس پیکر تخلیق کا نام ’’عبدالباری‘‘ رکھا گیا۔ خاندان والوں کے چہروں پر خوشیاں رقص کرنے لگیں۔ بڑے لاڈ اور چاؤ سے بچے کی پرورش ہونے لگی۔ ماں کی آنکھوں کی ٹھنڈک ۔۔۔ باپ کے جگر کا ٹکڑا۔۔۔ عبدالباری۔۔۔ سب کا راج دُلارا بن گیا۔ ہر کوئی بچے کو دیکھ کر مسکر ا اٹھتا۔ اس ننھی سی جان کی آنکھوں میں ایک طلسماتی کشش تھی، ان آنکھوں میں مستقبل کی ایک تاریخ پنہاں تھی۔۔۔ کچھ تو تھا جس کی پردہ داری تھی۔‘‘(ماخود :نقوش طیبات دوماہی شمارہ نمبر ۲۳)
’’۔۔۔۔۔۔۔۔۔میری جان۔۔۔ ابھی سوجاؤ۔۔۔ کل سوتے ہوؤں کو جگانا ہے تمھیں۔ دھیرے دھیرے گودی کا بچہ زمین پر ہمکنے لگا۔ پھر گھٹنوں کے بل چلنے لگا۔ کبھی گرتا۔ کبھی اٹھتا۔ یہ بچہ اب پاؤں پاؤں چلنے لگا۔ اندر سے باہر برآمدے میں آنے کی ضد کرتا۔ کبھی دھول سے اٹے کچے راستہ پر آنے کے لیے مچل جاتا۔
جامعہ مسجد کے جنوبی بغلی سمت میں واقع جاکٹی گھر ۔۔۔مسجدسے گونجتی ہوئی اللہ اکبر کی صدائے سرمدی۔۔۔ گھر کے سامنے قبرستان اک شہر خموشاں گویا زبانِ حال سے کہہ رہا ہو
دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو‘‘
(ماخود :نقوش طیبات دوماہی شمارہ نمبر ۲۳)
’’۔۔۔۔۔۔۔۔۔قبرستان کے سناٹے کو چیرتی ہوئی (کل من علیہا فان ) کی خاموش صدا عبدالباری کے پھول سے دل پر دعوتِ فکر و عمل دیتی رہتی تھی۔ مسجد سے اٹھنے والی پنج وقتہ اذانیں ۔ اللہ اکبر۔ اللہ اکبر۔۔۔ روح بلالی بن کر عبدالباری کے رگ و پے میں سرایت کر رہی تھیں۔ گھر کے کسی بزرگ کو علامہ اقبال کا یہ شعر بھی یاد آیا ہوگا۔
سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا

لیا جائے گا تجھ سے کام دُنیا کی امامت کا
(ماخود :نقوش طیبات دوماہی شمارہ نمبر ۲۳)
’’۔۔۔۔۔۔۔۔۔استاذ کی نبض شناس نظروں نے عبدالباری کے اندونی خوف کو بھانپ لیا اور بڑے پیار سے چمکار کر کہا: بیٹا یہ چھڑی بہت شریر بچوں کے لیے ہے ، تم تو بہت اچھے بچے ہو، ہم تمھیں نہیں ماریں گے۔ اس طرح کچھ خوف و ہراس کم ہوا۔ داخلہ فارم پر نام درج کیا گیا۔ عبدالباری نے جامعہ اسلامیہ میں زانوئے تلمذ تہہ کیا۔ اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔ تعلیمی سفر کی پہلی ساعت بسم اللہ سے شروع ہوئی۔ وقت گزرتا رہا ۔ شب و روز رنگ بدلتے رہے، لیکن عبدالباری کو قرآن حکیم کی یہ آیت شعور کے ہر گوشے سے سنائی دیتی رہی۔ (صبغۃ اللہ ومن أحسن من اللہ صبغۃ)تمام رنگوں میں بہتر رنگ اللہ ہی کا رنگ ہے۔‘‘ (ماخود :نقوش طیبات دوماہی شمارہ نمبر ۲۳)
’’۔۔۔۔۔۔ماضی کے جھروکوں میں جھانکیے تو ڈاکٹر علی ملپا صاحب کے سرپرستوں اور شیوخ کی جھلکیاں دیکھیے توکیسی کیسی انقلابی اور مسلمانوں کی حالت زار پر رونے والی اور ان کی اصلاح کی خاطر زندگی نچھاور کرنے والی شخصیتوں کی یادیں خوشبوکی طرح مشام جاں کو معطر کریں گی۔
(ماخود :نقوش طیبات دوماہی شمارہ نمبر ۳۳۔۳۴)
’’سچ‘‘اور’’صدق جدید‘‘کے ایڈیٹر__سچی باتیں لکھنے والے،جاء الحق کا پیغام سنانے والے طرزصحافت میں منفرد،سحرانگیزقلم کے مالک ،شہرہ آفاق تفسیر ماجدی کے مؤلف مولانا عبدالماجد دریاآبادی جن کے صدق جدید میں صرف نام کا چھپنا ہی ایک سعادت اور قرب ماجدی کی دلیل سمجھی جاتی تھی۔ڈاکٹر صاحب کی رہنمائی وشخصیت سازی میں انھیں کا بڑا دخل رہا۔‘‘ (ماخود :نقوش طیبات دوماہی شمارہ نمبر ۳۳۔۳۴)
’’۔۔۔۔۔۔شاہدلی مسجد کی پاکیزہ فضائیں مسجدکے قدم چومتی ہوئی مستانہ وار بہتی ہوئی ندی گواہ ہیں کہ ڈاکٹر علی ملپا صاحب اس مسجد میں چالیس(۴۰)سال تک مستقل درس دیتے رہے۔عصر بعد ان کے بیانات، موضوع پر ان کی گہری نظر، زبان پر گرفت، جذباتی لب ولہجہ سے گریز مزاج صوفیانہ مسلمانوں کی اصلاح کی فکر، غریبوں اور ناداروں کی خاموش اعانت ڈسپنسری گویا ملنے ملانے اور ملاقاتوں کی آماجگاہ، مریضوں کے ساتھ حسن سلوک۔‘‘ (ماخود :نقوش طیبات دوماہی شمارہ نمبر ۳۳۔۳۴)

06؍ستمبر2018(ادارہ فکروخبر)

«
»

ان تہی دستوں کے ہاتھوں میں نہ چادر ہے نہ خاک

کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حجابِ صنفِ نازک ہے وبال؟؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے