خْودکشی : خرافات وحقائق

ڈاکٹر نذیر مشتاق

انسان خود کشی کیوں کرتاہے ؟ خالقِ کائنات کی طرف سے عطا کردہ عظیم ترین نعمت کو بنی نوع انسان کیوں اپنے ہی ہاتھوں سے اختتام کو پہنچاتاہے۔
بنی نوع انسان میں سے شائد ہی کوئی ایسا ہوگا جس نے زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر خودکشی کے بارے میں نہیں سوچاہوگا۔ خودکشی کے خیالات کا انسان کے ذہن میں آنا اسکے ذاتی ، جسمانی ،دماغی ، نفسیاتی ، سماجی ، اقتصادی ،سیاسی ، روحانی حالات پر منحصر ہے۔ دورِ حاضر میں دنیا کے ہرگوشے میں خودکشی کے واقعات میں روزافزوں اضافہ ہوتا جارہاہے۔ کشمیر میں عمر رسیدہ لوگوں کی نسبت نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اس کی لپیٹ میں آرہے ہیں۔ خودکشی یعنی ’’اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کا کام تمام کرنا، اپنے آپ کو قتل کرنا‘‘ یا اپنے آپ کو سماجی طور غیر پسندیدہ اور ذہنی طور ناجائز طریقوں سے ہلاکت میں ڈالنا ‘‘ اپنے آپ کو دانستہ یا غیر دانستہ طور اتنا نقصان پہنچانا کہ زندگی سے ہاتھ دھونا پڑے۔
خودکشی زمانہ قدیم سے بنی نوع انسان کے لئے ایک معمہ بنی رہی ہے۔ دنیا میں بسنے والے ہرعمر، رنگ ونسل اور مذہب سے وابستہ لوگ اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس میں امیر وغریب ، اعلیٰ و ادنیٰ ،ذہین و ناسمجھ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتاہے۔ ہر کوئی اسکی لپیٹ میںآسکتاہے۔ ۰۳۹۱ء4 کے آغاز میں محققین کا اندازہ تھاکہ خود کشی کی کوشش میں ’’تکمیل ‘‘ کرنے والوں کے درمیان ایک واضح فرق ہوتاہے لیکن بعد میں ثابت کیا گیا کہ خودکشی کی کوشش کرنے والے آخر کار اپنی کوششوں میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ حالیہ تحقیق سے ثابت ہواہے کہ زیادہ ترلوگ (دس سے بیس فیصد) خودکشی کی کوشش کرتے ہیں (بہ نسبت ان کے جو اِسے تکمیل تک پہنچاتے ہیں)۔ خود کشی کی کوشش کسی دوسرے مسئلہ (یا بیماری)کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق خودکشی کی شرح کچھ اس طرح ہے۔

*70%لوگ نفسیاتی امراض میں مبتلا یا کثرتِ شراب نوشی کے مرتکب ہوتے ہیں۔
*5%دماغی امراض بشمول سیکزوفرینیا 
*01%امراض اعصاب بشمول ہسٹریا (بے ہوشی کے دورے)
*14%وجوہات غیر مشخص شدہ۔

جسمانی بیماریوں(سرطان) میں مبتلا مریضوں میں خود کشی کی شرح بہت ہی کم پائی جاتی ہے حتیٰ کہ ان افراد میں بھی جو خطرناک امراض کی پیچیدگیوں کے شکار ہو چکے ہوتے ہیں۔ 
مردوں کے مقابلے میں عورتیں زیادہ خودکشی کی کوشش کرتی ہیں لیکن مرد اپنے ارادہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں عورتوں سے آگے ہیں۔چالیس برس کی عمر میں خودکشی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ پچاس سے اسی فیصد افراد خودکشی کرنے سے پہلے اس کااظہار کرتے ہیں۔ خودکشی کی کوشش وہ لوگ زیادہ کرتے ہیں جن کی شخصیت ضد سماج یا ہسٹریائی ہوتی ہے اور جنسی مسائل کے علاوہ کچھ دیگر الجھنوں میں الجھے ہوئے ہیں۔ جو بھی شخص(مردیازن) خودکشی کرتاہے وہ پہلے اس بارے میں سوچتاہے پھر کوشش کرتاہے اور کئی ناکامیوں کے بعدانجام کار وہ موت کو گلے لگاتاہے۔

خودکشی کی وجوہات:
کثرتِ شراب نوشی :جولوگ کثرتِ شراب نوشی کے شکارہوتے ہیں وہ خودکشی کا ارتکاب اسلئے کرتے ہیں کیونکہ وہ سماجی زندگی سے الگ تھلگ پڑجاتے ہیں۔
ان کی ازدواجی زندگی ان کے لئے بوجھ بن جاتی ہے۔ 
تنہائی کاشدید احساس(طلاق یا ہمسرکے فوت ہوجانے کے بعد)۔
کسی عزیز یا اپنے کی جدائی کا غم۔
*نشہ آور دوائیوں کے عادی افراد میں خودکشی کی شرح بہت زیادہ ہوتی ہے۔ 
گھریلوجھگڑے ،میاں بیوی کے درمیان مسلسل جھگڑے۔ طلاق (اور پھر تنہائی کا اذیت ناک سامنا)۔ازدواجی زندگی کے بعد تنہائی۔ lملازمت کا تسلی بخش نہ ہونا۔ کام میں دل نہ لگنا۔lمحبت میں ناکامی۔l اقتصادی حالات کا حد سے زیادہ بگڑجانا۔lگھرکی چار دیواری کے اندر اختلافاتlکسی ’’اپنے ‘‘ کی موت کا غم۔lکسی اپنے کا کسی موذی مرض میں مبتلا ہونا۔l اکیلے پن کا زہر۔lغیر متوقع اور ناپسندیدہ حاملگیl ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کرنا۔ lقانونی مسائل۔

کون افراد خودکشی کے مرتکب ہوسکتے ہیں ؟
ذہنی امراض میں مبتلا افراد اکثر خودکشی کی کوشش کرتے ہیں۔ افسردگی (ڈپریشن) و بشانتیت میں مبتلاافراد میں خودکشی کی شرح ، عام اور صحت مند افراد کے مقابلے میں پچیس فیصد زیادہ ہوتی ہے۔ 
بے تحاشہ شراب نوشی کرنے والوں اور نشہ آور ادویات کا استعمال کرنے والے معتادین میں خودکشی کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔
دماغی امراض جیسے کہ ’پاگل پن‘کے مریض۔
بکھری ہوئی شخصیت ، ضدِسماجی شخصیت کے مالک افراد۔

جسمانی بیماریوں ، لگاتار ویرسیبخار،ہپا ٹائٹس(بی اور سی) کے شکار یاوہ جن کے گردے ناکارہ ہوئے ہوں۔

بْری طرح مجرو ح ہونے والے۔
سرطانی بیماریوں میں مبتلا افراد۔
مرِگی کے مریض۔
ادویات یاخواب آور گولیوں ، ضدِ بلند فشار خون دوائیوں ، مانع حمل گولیوں وغیرہ کا کثرت استعمال کر نے والے۔
انسان خودکشی کیوں کرتا ہے ؟
جب کوئی انسان (باالخصوص نوجوان)زندگی کی شاہراہ پر چلتے چلتے نا مساعد شخصی، گھریلو ، سماجی ، اقتصادی یا سیاسی حالات کا شکار ہوجاتاہے تو وہ ایک انجانے اور اَن دیکھے بوجھ تلے دب جاتاہے۔ اگر اسے بچپن ہی سے حالات کا بہادری وجوانمردی سے مقابلہ کرنا سکھایا گیا ہو تو وہ اس بوجھ سے اپنے آپ کو آزاد کرسکتاہے البتہ اگر وہ زندگی کے مسائل کا مقابلہ کرنے کے فن سے ناآشنا ہو تو وہ اس بوجھ تلے دب کر زندگی کے ’’دیو‘‘کے آگے ہتھیار ڈالتاہے اور ’’انجانے میں‘‘ ایک ایسا قدم اٹھاتاہے جو اسکی زندگی کا آخری قدم ثابت ہوتاہے۔ معروف محققین اور سائنس دانوں(ٹیچر اور جیکوب) کی تحقیق کے مطابق ایک نوجوان تین مراحل پر خود کشی کو اپنے مسائل کا واحد حل سمجھتاہے۔ 
۱۔طویل مدت تک مسائل کے جال میں اْلجھے رہنا اور ان مسائل کا حل نہ ہو پانا۔ 
۲۔مسائل میں روزافزوں اضافہ ہونا اور ایک کے بعد دوسرا نیا مسئلہ پیدا ہونا۔

آخری مرحلہ: 
کسی بھی مسئلہ کو حل کرنے کی نااہلی جس سے زندگی اور سماج اس کے لئے اپنے معنیٰ کھودیتے ہیں ۔۔۔اور اسکے لئے زندگی ،رشتے اور سماج کوئی اہمیت نہیں رکھتے ہیں۔ 
خودکشی میں تین عوامل کار فرما ہوتے ہیں ۔۔۔قتل کرنے کی خواہش ،قتل ہونے کی خواہش اور زندگی سے چھٹکارا پانے کی خواہش۔۔۔ خودکشی میں سب سے اہم رول اس بات کا ہے کہ انسان کے لئے زندگی ناقابل برداشت بوجھ بن جاتی ہے ایسا محسوس کر نے پر ایک انسان ذہنی طور ماوف ہوجاتا ہے اور پھر اپنے ہی ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کر دیتاہے۔ مشہور سائنس دان ڈیوزکھمِ نے خودکشی کو تین قسموں میں تقسیم کیا ہے۔
۱۔ شخصیت بکھر جانے کی وجہ سے احساس تنہائی میں مبتلا ہوکر کسی فرد کے لئے زندگی بے معنیٰ ہو جائے اور وہ خود کشی کرے۔
۲۔ کسی شخص کاجنگ وجدل میں ملک کے لئے اپنی جان دے دینا۔
۳۔ انسان سماجی اقدار اور اپنے آپ کے درمیان توازن برقرار رکھنے میں ناکام ہوکر خود کشی کرے۔ 
خودکشی کرنے کے طریقے :
خودکشی کا عمل انجام دینے کے لئے انسان اپنے سماج اور ذاتی پسند کے طریقوں کو ملحوظ نظرکھتاہے اور مجموعی طور درج ذیل طریقے خودکشی کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔ 

اپنے آپ کو نذرِ آتش کرنا۔ 
حد سے زیادہ مقدار میں خواب آور گولیوں کا استعمال۔

پھانسی پر لٹکنا۔ 
دریا ، سمندر میں کود پڑنا۔
اپنے آپ کو زخمی کرنا ، شریانوں یا وریدوں کا کاٹنا۔
کسی ریل گاڑی یا تیزی سے دوڑتی کار کے سامنے اپنے آپ کو لاکھڑا کرکے خود کو حادثے کا شکار بنوانا۔ 
گھر میں موجود زہریلی اشیاء4 (چوہے مار دوائی یا کھاد) کھانا۔
گھرمیں موجودادویات کاحد سے زیادہ استعمال ، بلندی سے چھلانگ لگانا۔
خرافات:
۱۔ خودکشی کرنے والا کسی کو اطلاع نہیں دیتا ہے۔جی نہیں! ۔۔۔یہ غلط ہے،خودکشی کرنے والا فرد، یہ قدم اْٹھانے سے پہلے باتوں باتوں میں یا اشاروں میں گھر کے دوسرے افراد یا دوستوں کو اپنے منصوبہ کے بارے میں خبردار کرتاہے لیکن کوئی اسکی بات کو اہمیت نہیں دیتا۔گھر میں اگر کوئی یہ کہے ’’میں اپنے آپ کوختم کروں گا‘‘ تو اس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ ہرڈاکٹر کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے مریض کا ذہنی معائنہ کرتے وقت ضرور یہ سوال پوچھے کہ ’’ کہیں آپ کو خودکشی کے بارے میں خیالات تو نہیں آتے ہیں‘‘۔
خودکشی کرنے والے نے مصمم ارادہ کرلیا ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگی کا خاتمہ کرے گا ، اسلئے اسے بچانا مشکل ہوتاہے۔
جوافراد خودکشی کے بارے میں سوچتے ہیں وہ’’اپنوں‘‘ کے سامنے اظہارِ خیال کرتے ہیں اور اگر اس وقت اْن کی طرف بھرپور توجہ دی جائے اور اْن کے مسائل کا حل ڈھونڈاجائے تو انہیں خودکشی کرنے سے بچایا جا سکتا ہے۔

خودکشی کرنے والافرددماغی مریض ہوتاہے۔
جی نہیں ! ایسا ضروری نہیں ہے۔۔۔ البتہ دماغی مریضو ں میں خودکشی کی شرح بہت زیادہ ہوتی ہے۔
’’ڈپریشن‘‘سے نجات حاصل کرنے کے بعد مریض خودکشی نہیں کرسکتا۔
جی نہیں! برعکس اس باطل عقیدہ کے کہ ڈپریشن سے صحت یاب ہونے کے بعد مریض خودکشی نہیں کرے گا، حقیقت یہ ہے کہ’’ ڈپریشن ‘‘سے رو بہ صحت ہونے کے بعد ہی اکثر مریض خودکشی کرتے ہیں کیونکہ اس بیماری سے نجات پانے کے بعد انکے جسم اور ذہن میں زیادہ فعال ہو جاتے ہیں ۔۔۔’’ڈپریشن ‘‘میں مبتلا مریض کو کسی بھی صورت میں ازخود ادویات ترک نہیں کرنی چاہئیں۔ اگردیکھا گیا ہے کہ’’ ڈپریشن‘‘ میں مبتلا مریض اپنی مرضی سے دوائیوں کااستعمال ترک کرتے ہیں اور پھرخودکشی کے مرتکب ہوجاتے ہیں۔ ’’ڈپریشن ‘‘ سے چھٹکارہ پانے کے لئے ادویات کا استعمال کرنے والے مریض کو دوائیاں ترک کرنے سے قبل اپنے معالج سے صلاح مشورہ کرنا چاہئے۔

خودکشی ایک موروثی مسئلہ ہے۔
جی نہیں!۔۔۔ایسا ضروری نہیں ہے۔ طبی کتابوں میں ایسی کوئی شہادت موجود نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہو جائے کہ خودکشی ایک موروثی مسئلہ ہے۔ البتہ ذہنی امراض کی موروثیت سے انکار نہیں کیا جاسکتاہے۔

ایک بار کسی فرد کے ذہن میں خودکشی کا خیال آیا، وہ پھر اْسی پر اڑا رہتاہے۔ 
جی نہیں!۔۔۔ خودکشی کاخیال تو صحت مند انسا ن کو بھی آسکتاہے۔ اگر کسی فرد کے ذہن میں بار بار خودکشی کا خیال آتارہے اور اسے سہارا ملے ،اس کے جسمانی ، ذہنی، نفسیاتی ، جسمانی ،اقتصادی مسائل حل کئے جائیں تو خودکشی کے خیالات اسکے ذہن سے خودبخود رفع ہوجائیں گے۔
خودکشی صرف غریب اور پسماندہ طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی قسمت میں ہی لکھی ہے۔
جو بھی شخص(مردیازن) خودکشی کرتاہے وہ پہلے اس بارے میں سوچتاہے پھر کوشش کرتاہے اور کئی ناکامیوں کے بعدانجام کار وہ موت کو گلے لگاتاہے۔
۱۔ شخصیت بکھر جانے کی وجہ سے احساس تنہائی میں مبتلا ہوکر کسی فرد کے لئے زندگی بے معنیٰ ہو جائے اور وہ خود کشی کرے۔
۲۔ کسی شخص کاجنگ وجدل میں ملک کے لئے اپنی جان دے دینا۔
۳۔ انسان سماجی اقدار اور اپنے آپ کے درمیان توازن برقرار رکھنے میں ناکام ہوکر خود کشی کرے۔ 
گھر میں اگر کوئی یہ کہے ’’میں اپنے آپ کوختم کروں گا‘‘ تو اس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔
ایسی کوئی شہادت موجود نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہو جائے کہ خودکشی ایک موروثی مسئلہ ہے۔ 
اگر کسی فرد کے ذہن میں بار بار خودکشی کا خیال آتارہے اور اسے سہارا ملے ،اس کے جسمانی ، ذہنی ،نفسیاتی ، جسمانی ،اقتصادی مسائل حل کئے جائیں تو خودکشی کے خیالات اسکے ذہن سے خودبخود رفع ہوجائیں گے۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 
02؍ جولائی 2018
ادارہ فکروخبر بھٹکل 
 

«
»

کون اور کیوں اکسا رہا ہے بھیڑ کو؟

موجودہ اُردو ادب کے اہم ستون ظہورالاسلام جاویدسے خصوصی گفتگو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے