تمہیں خود اپنے اندھیر و ں کودور کرنا ہے

شفاء اللہ ندویؔ 

مسلم قوم کی پسماندگی ، زبوں حالی ،بیچارگی ، ناکامی ، نامرادی ، بدحالی اور دنیا کے نقشہ کے میں چھائی اس کی بے وقعتی کی سب سے بڑی وجہ اس کا اپنے پیش آمدہ حالات پر رونا، اپنے تئیں زمانہ کی ناہمواریوں کا شکوہ کرنا اور مخالفین اسلام یا معاندین قرآن کی جانب سے اسلام اور مسلمانوں کے حوالہ سے پیش آنے والے ناخوش گوار اور ناروا واقعات یا عدم رواداری کے بے رحم مظاہروں پر ماتم وگریہ زاری کرنا ، بے حس اور مفاد پرست حکمرانوں اور بے غیرت اور ضمیر فروش سیاست دانوں سے وہی گھسی پٹی ناکام توقعات وابستہ رکھنا ،خود خد ا کی عطا کردہ اپنی ہمت و جوانمردی سے کام لے کر میدان عمل میں مردانہ وار نہ کودنا ، اسی طرح خود کچھ کرنے کے بجائے دوسرے جانبازوں کی ان کی اعلیٰ اور پرشکوہ خدمات و کارناموں پر ان کی قصیدہ خوانی یا غلطی ہونے پر اور مطلوبہ معیار پر کھرا نہ اترنے پر ان کی مذمت کرنا ہے ۔بقول شاعر 
دوڑ میں وہ لوگ جیتے جن کے تھی بیساکھیاں 
پاؤں والے راستوں پر تبصرہ کرتے رہے 
غیبت ، چغلخوری ،احسان جتلانا ، دوسروں کو اپنے سے کمتر گرداننا ، اوروں کی گردنوں پر لات رکھ کر اپنی منزل مقصود کی راہ پر گامزن رہنا یہ وہ امراض ہیں جو اکیسویں صدی کی دوسری دہائی کے مسلمانوں کو لاحق ہیں۔ان ہی بیماریوں نے مسلمانوں کو ہر پہلو سے کمزور کیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد کے باوجود آج ہم مسلمانوں کو خود اپنے وطن میں اپنی شہریت ثابت کرنی پڑ رہی ہے۔ اس جمہوری ملک میں جگہ جگہ ہمیں ہراساں کیا جاتا ۔کبھی گائے کے گوشت کے نام پر کبھی لو جہاد کے نام پر ، کبھی نماز کے نام پر کبھی مسجدوں میں اذان کے نام پر اور کبھی رمضان کے مہینوں میں سحری کے لیے جگائے جانے کے لیے استعمال کیے جانے والے چند مخصوص بول کے نام پر ہمیں ستایا جارہا ہے ۔ہماری پریشانی یہیں نہیں تھمتی بلکہ یہاں کے سرکاری تعلیمی اداروں میں بھی ہمارے لیے مناسب تحفظات مختص نہیں ہیں۔ ہمارے کالجوں کو سند اعتراف فراہم نہیں ہوپارہی ہے ۔نیز ہندویونی ورسٹیوں میں تو ہماراگزر بسر بہت مشکل سے ہوتا ہے مگر ہماری اقلیتی یونی ورسٹیوں میں ان کا تناسب تحفظ نسبتاً کہیں زیادہ ہے ۔غرض یہ کہ ملازمت گاہوں ، تعلیم گاہوں ، تجارت گاہوں ،رہائش گاہوں ،سفرگاہوں ،سیر گاہوں ہر جگہ پر ہمارے تئیں سخت نگرانی کا جال منصوبہ بند سازش کے تحت بڑے پیمانے پر بچھایا جا چکاہے ۔جن سے مقابلہ کے لیے ہمیں بہرحال اپنے اندر موجود بیماریوں کے ازالہ کی فکر کرنی ہوگی ۔تب ہی ہم زندگی کے مسابقہ میں بڑھ چڑ ھ کر حصہ لے کر اپنی مشکلات کا حل سامنے لا سکتے ہیں ۔ 
اس وقت پو رے ملک میں ہر چہار جانب سے یعنی ممبئی سے لے کر بنگال تک اور کشمیر سے لے کر کوچین تک مسلمانوں کے خلاف ہندو فرقہ پرستوں نے ایک سازش رچ رکھی ہے اور اسی سازش کے تحت ہندو انتہا پسند تنظیموں اور تحریکوں کے باعث قائم شداس ماحول میں جسے ہر طرف سے بھگوا رنگ نے گنگا جمنی تہذیب کو اپنے زہریلے سیاست دانوں کی زہر افشاں تقریروں سے آلودہ کردیا ہے ،وشو ہندوپریشد جیسی انتہاپسند ہندو تحریکات نے مصدرشریعت قرآن پاک کو بھی اپنے بدبودار طنزیہ الفاظ کا ناکام و نامراد نشانہ بنالیا ہے، یوگی آدتیہ ناتھ جیسے متعصب وزیر اعلیٰ نے تھالی کے بینگن اور گھرکے بھیدی زرخرید شخص وسیم رضوی کو خرید سے اخباربازی کراتے ہوئے ملک میں نفرت و عداوت کی آگ بھڑکا کر اور ملک کی دوسری بڑی اکثریت مسلمانوں پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑ کر ، ایودھیا کی دھرتی کی اور سیاسی قوت اور اقتدار کے نشہ سے شرسار ہوکر با بری مسجد کی مقبوضہ اور غیر قانونی زمین پر رام مندر کی تعمیر کے نام پر بڑھنے کی ٹھان لی ہے اور اس مجرمانہ عمل کی انجام دہی کے لیے ایسی شرمناک حرکتوں کے کر نے کا تہیہ کرلیا ہے کہ جن سے رام خود ہی شرمندہ ہوجائیں۔ اسی طرح مرکز میں حکومت کی گدی پر بیٹھ کر سیاسی صلاحیت سے یکسر خالی ہوچکی بھارتی جنتا پارٹی کے اکثر کارکنا ن مالیخولیائی امراض میں مبتلا ہوکر ہندو مسلم فرقہ وارانہ فسادات کروارہے ہیں،ہر ہندو اکثریت والی جگہ پر معمولی معمولی وجوہات پر مسلم کش فسادات کی راہیں ہموار کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور ہجومی قتل کا بازار ہر طرف گرم کررہے ہیں ۔جب کہ معصوم اور نابالغ بچیوں تک کے ساتھ دن بہ دن گہراتی جارہی جنسی زیادتی اور جوان لڑکیوں کے ساتھ اجتماعی عصمت دری اور ملازمت پیشہ لڑکیوں اور عورتوں کے ساتھ کی جانے والی گینگ ریپ جیسی وحشت ناک اور گھناؤنی حرکتوں میں خود اسی پارٹی کے لیڈران ملوث دکھائی دے رہے اور شریک پائے جارہے ہیں۔ جو پکڑے جانے پر یا پکڑے جانے کے خطرہ کو محسوس کرکے متاثرہ لڑکی کو قتل کردیتے اور اس کے باپ یا بھائی یا اس کے سرپرست کو اپنی سیاسی پہنچ اور نامراد خاکی وردیوں پر اپنی دبنگیت کا سکہ چلاتے ہوئے حوالات میں بند کروادیتے ہیں جہاں ثبوت و شواہد مٹائے جانے کی کی خاطر ان کی پر اسرار موت واقع ہوجاتی ہے ، مگر حکومت اس مجرم کا نہ تو کچھ بگاڑ پاتی ہے ،نہ پولیس والے اس طرح کے مقدموں اپنی چابکدستی یا دیانت داری دکھا پاتے ہیں ، مسلمانوں کی ذمہ داری دینی ، سماجی ، تعلیمی ، تمدنی ، سیاسی اور اقتصادی ہر لحاظ سے دو چند ہوجاتی ہے ۔اسی طرح یہ حقیقت بھی سامنے آجاتے ہے کہ ہمیں اپنے اپنے حصہ کی شمع جلانی ہے چاہے آندھی جس قدر تیز اور طوفانی ہو۔کیوں کہ 
تمہیں خود اپنے اندھیر وں کو دور کرنا 
دیے جلانے کہیں آفتاب آتاہے 
اتنی بات طے ہے کہ ہم حق پر ہوں اور ہم میں مطلوبہ اہلیت ہوتو کوئی شخص ہم سے ہمارا حق نہیں چھین سکتا اور اگر چھیننے کی کوشش کرے تو ہم اپنی اسی اہلیت اور صلاحیت اور حقداریت کی بنیاد پر اس سے اپنے حقوق کی بازیافت باعزت طریقہ پر کرسکتے ہیں ۔ اس ضمن میں خود میر ایک ا ذاتی تجربہ ہے جسے یہاں بیان کرنا یقیناًبے جا نہ ہوگا ۔ چنانچہ سن 2010 ؁ء کی بات ہے میں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے بی ۔اے ۔ آنرس عربی کی تین سالہ ڈگری کی تحصیل کے بعد اپنے بڑے بھائی جو اس وقت ریاض میں کسی کمپنی ملازم ہیں کی سرپرستی میں مزید تعلیم کی تحصیل کے لیے شہر دار السرور بنگلور حاضر ہوا ۔کچھ عرصہ کے بعد ملت ڈائرکٹری کے بعض صفحوں کے مطالعہ کے بعد میر نظر مسلمانوں کے ادارے والے کالم میں مذکور شعبہ اردو بنگلور یونی ورسٹی پر پڑی ۔اس وقت میں متمنی تھا ایم ۔ اے عربی کا جو بعد میں میں نے مدارس یونی ورسٹی سے پروفیسر سجاد صاحب اور پروفیسر سہیل اختر صاحب کے مشورے سے کیا ۔اس لیے میں نے موقع غنیمت جانتے ہوئے اور یہ ذہن میں رکھتے ہوئے صباحی اور مسائی مدرسہ ’’جامعہ امینیہ منگاپور‘‘جس کی قیادت حضرت مولانا محمد ظفر الحق کررہے تھے میں ملازم ہوں اور میری یہ ملازمت ایک پنتھ دوکاج کے مترادف ثابت ہوگی اگر میں پہلے ایم اے اردو بنگلور یونی ورسٹی سے کرلوں۔غرض یہ کہ برادر اکبر کے مشورے سے ان کی ہمراہی میں یونی ورسٹی کے اعلامیہ کے مطابق سنٹر ل کالج کیمپس مہارانی باغ میجسٹک میں جاکر فارم مخصوص کاؤنٹر بھر جمع کر کے واپس ہوا۔تمام روایتی طور طریقوں سے گزرتے ہوئے میری مارک شیٹ اور میری تعلیمی اہلیت نے مجھے چھٹا رینگ عطا کر دیا۔داخلہ کی کارروائی سینٹر ل کالج کیمپس میں ہی ہونی تھی ۔کاؤنسلنگ کے مرحلہ سے گزرنے کے بعد میں آڈیٹوریم کے اندر داخل ہورہا تھا کہ ایک شخص جو غالبا یونی ورسٹی کے ملازم اور مجلس منتظمہ سے متعلق تھے نے مجھے اپنے قریب بلا کر کہا کہ آپ اپنے کاغذات دکھائیں گے ؟ میں نے دیا انہوں نے دیکھتے ہی کہا کہ آپ بیرون ریاست کے ہیں اس لیے ابھی آپ کو داخلہ نہیں مل سکتا ۔ہماری ریاست کرناٹک کے جو طلبا ہیں پہلے انہیں داخلہ کا حق ہے اس کے بعد جب سیٹ بچ جائے گی تب آپ کے داخلہ کے لیے کوئی گنجائش سامنے آسکے گی ۔اس کے بعد وہ کچھ کنڈ زبان میں بڑبڑا رہے تھے جنہیں میں نہیں سمجھ سکا کیوں کہ میں یہ زبان اس وقت نہیں جانتا تھا۔چند لمحے میں پریشان رہا اس کے بعد مجھ سے رہا نہ گیا میں نے تہذیب کا دامن تھامے ہوئے اس شخص سے کہا کہ محترم پہلے مجھے میرے کاغذات واپس دیجیے اور یہ ذہن میں رکھ لیجیے کہ میں نے رینک حاصل کیا ہے اور یہ میرا حق ہے جو مجھے سے کوئی کسی حال میں نہیں چھین سکتا ۔میری اور اس شخص کی اس باہمی گفتگو جو ظا ہر ہے تلخ کلامی پر مبنی تھی پر پروفیسر یاسمین محمدی بیگم رحمۃ اللہ علیہا صدر شعبہ اردو بنگلور یونی ورسٹی کی نظر پڑی۔ انہوں نے قریب سے جب میری آواز سنی تو تیز رفتاری سے میرے پاس آکر مجھ سے اس الجھن کا سبب پوچھا میں نے صاف صاف انہیں بتا دیا ۔تب انہوں نے مجھے سیدھے آڈیٹور یم میں اپنا رجسٹریشن اور ایڈمیشن کرانے کے لیے بھیج دیا اور خود اس سے مخاطب ہوگئیں۔میں نے جاتے ہوئے صدر صاحبہ کی یہ آواز سنی کہ یہ چاہے جہاں کا ہو اس نے
رینک حاصل کی ہے اور یڈمیشن اس کا حق ہے ۔لیکن اس سلسلہ میں یہ حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت ہے کہ سامنے والے کو غصہ ، ہاتھ اور اپنی چرب زبانی سے قائل اور مطمئن کرنے کے بجائے نرمی اور مؤ دب زبان اور موثر بیانی سے لاجواب کردیا جائے ۔بقول پروفیسر وسیم بریلوی 
وہ میرے چہرے تک اپنی نفرتیں لایا تو تھا 
میں نے اس کے ہاتھ چومے اور بے بس کردیا
اسی طرح مناسب ذہن سازی اور موزوں ماحول نگاری کے بعد موقع کی نزاکت کو سامنے رکھ کر اپنی بات دلچسپ اور اطمینان بخش پیرایہ میں کہی جائے کیونکہ بات جب حکمت کے ساتھ کہی جاتی ہے تو چاہے جیسی بھی ہو بہرحال سنی جاتی ہے ۔
کون سی بات کہاں کیسے کہی جائے 
یہ سلیقہ ہو تو ہر بات سنی جاتی ہے 
پریشانی جیسی ہو اس کے لیے حل بھی ویسا ہی تلاش کرنا عین دانش مندی ہے ۔ مسئلہ اگر ملت کا ہوتو ملی طور پر تمام مسلمان متحد ہو کر اس کا حل تلاش کریں اور بلا کسی تفریق مسلک وملت اور نظریہ و رائے سر جوڑ کر متحدانہ کوششیں انجام دیں اورسردھڑ کی بازی لگادیں ۔ہر مرض کا ایک الگ اور مخصوص نسخہ ہو تا ہے ۔ہر نسخہ ہر علاج کے لیے مفید نہیں ہوسکتا بلکہ نقصان دہ ثابت ہوتاہے۔ہمارے مسائل سیاسی ہیں تو ہمیں سیاست کے راستہ سے ہی ان کے حل تلاش کرنے ہوں گے ۔دینی ہیں تواسی دین متین کی روشنی میں اور اس کے بتائے ہوئے طریقہ سے ہی ان مسائل کو حل کرنا ہوگا۔قانون ساز اگر ہماری شریعت کے مخالف قوانین بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں ایسے افراد تلاش کرنے ہوں جو دین میں ماہر ہوں اور اسلامی قوانین پر ان کی گہری دسترس ہو۔غرض یہ کہ ہر مرض کا ایک الگ معالج ہوتا ہے اور وہی قوم اس ضمن میں کامیاب ہوتی ہے جس نے اپنے مخصوص مسائل کے لیے مخصوص معالج تیار کرتی ہے ۔وقت کی رفتا ر پر نظر رکھتی اور ہر دور جدید کے نقاضوں کو پورا کرتی ہے ۔غیر ضروری امور میں اپنے اوقات اور اسباب ضائع نہیں کرتی ۔من وتو کے امتیاز میں نہیں اپنے سر نہیں کھپاتی ۔وہ دوست اور دشمن کو اچھی طرح شناخت کرتی ہے ۔سیاسی بازیگروں ، جھوٹے لیڈروں اور مکار رہبروں کی چکنی چپڑی باتوں میں کبھی نہیں آتی ۔تعلیم اس کا زیور ، تربیت اس کا جوہر ، دین اس کا ہتھیار ہوتا ہے ۔بقول اقبال
قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہیں تم بھی نہیں 
جذب باہم جو نہیں محفل انجم بھی نہیں 
حقیقی بات یہ کہ تاریخ کایہ صبر آزماں دور جس سے ہم ہندوستانی مسلمان گزر ہے ہیں، دراصل ہماری بد اعمالی کانتیجہ، مذہب اسلام کی اطاعت کاملہ سے محرومی کی سزا ، مستقبل کے حوالہ سے ہماری عدم دوراندیشی کا کڑوا پھل اور ہم ہندوستانی مسلمانوں کے موجودہ باہمی افتراق و انتشار کا ثمرہ ہے ۔اس لیے سب سے پہلے ہمیں اپنے اعمال کا جائزہ لینا ہے ۔ مذہب اسلام جو مکمل ضابطہ حیات ہے کو دل و جان سے ہر حال میں گلے لگانا ہے ،ہر مشکل اور ہر الجھن میں ہمیں اس کے دستور قرآن پاک سے اور احایث شریفہ سے رہنمائی لینی ہے ۔اس ملک میں اگر باعزت زندگی گزارنا ہے تو ہمیں اپنے روشن مستقبل کی تعمیر کے لیے بڑی دو ر اندیشی کے ساتھ ایک مرتب اور منظم ضابطہ کے تحت ایک طویل مدتی منصوبہ بنا نا ازحد ضروری ہے ۔نیز ایک ایسا سیاسی محاذ قائم کرنا ہے جو ہر لحاظ سے پر دم اور طاقتور ہو اور اگر پہلے سے کوئی سیاسی محاذ قائم ہے تو کسی نئے محاذ کی تشکیل کے بجائے اسی پہلے سے قائم شدہ سیاسی محاذ کو اپنے باہمی اتفاق و اتحاد سے مضبوطی اور طاقت فراہم کرنا ہے ۔ یعنی ڈیڑھ اینٹ کی کوئی نئی مسجد تعمیر کرنے کے بجائے پہلے سے قائم شدہ مسجدمیں باضابطہ نماز پڑھنے کی عادت ڈالنی ہے ۔حق کا برملا اظہار کرنا ہے ۔ہمت و جوانمردی سے کام لینا ہے ۔آپسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اور مسلکی لڑائیوں کو زیر زمین دفن کرکے ہمیں ہر طرح کی نظریاتی جنگوں کو ختم کردینا ہے ۔رہے جزوی اختلافات اور فقہ کے چند فروعی اختلافات تو وہ بجا طور پر باقی رہیں گے مگر جب اپنے مخالفیں سے مقابلہ درپیش ہوتو حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ کے سے اتحاد و اتفاق اور خلوص ومحبت کے ساتھ ہمیں میدان میں آنا پڑے گا ۔اس وقت ہم مسلمانوں کو اسی مؤخر الذکر اتحاد،حسینی غوروفکر ، اور عبد الرحمان بن عوف کی دور اندیشی کی ضرورت ہے ۔تعلیم کے باب میں ہمیں اپنے گراف اوپراُٹھانے کے علاوہ کمیت سے زیادہ کیفیت پر نظر رکھتے ہو ئے اپنے تعلیمی ادارے کو جدید وسائل اور مضبوط مدرسین و معلمین سے آراستہ کرنے اور انہیں حکومت وقت کے مطلوبہ معیار سے بھی آگے لیجانے کی سچی کوشش کرنی ہے ۔اسی طرح ہمیں علوم جدید ہ اور علوم دینیہ ہر دو قسموں کے علوم وفنون سے اپنی مسلم نسل کو بہر خوب اور بہر حال واقف کرانے کی بھی ذمہ داری قبول کرنی ہے ۔ان کی دینی اور روحانی تربیت کو پیش نظر رکھ کردور حاضر کے متقاضی علوم جدیدہ اور علوم عصریہ کی تحصیل کے لیے ایسے معتبر تعلیمی اداروں کا انتخاب کرنا ہے جن کا رشتہ اقر باسم ربک سے جڑا ہوا ہواور دین محمدی سے ان کا تعلق استوار ہو۔ تاکہ ان اداروں سے تعلیم پاکر اور تربیت سے سرفراز ہو کر عملی میدان میں آنے والی ہماری نسل مسلم میں بھی دین دار وکلاء،انصاف پسند منصفین ، ربانی علماء ، موحد مفکرین ، اسلا م پسند دانشور ، خداپرست فلاسفر ، شریعت شناس سیاست داں اور کل کے سچے، ہمدرد، رحمدل ، مخلص ،سخی ، نرم دل ، عدل ومساوات پسنداور متوازن رہبران قوم وملت پیدا ہوں جو دین کی چھتری کے نیچے اور اس کے احکام و قوانین کو مد نظر رکھ کر دنیا کے پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل کا حل تلاش کرسکیں اورجن کی نظر وں میں اس دنیا ئے فانی کی ناپائیداری ، بے استقلالی اوربے وقعتی بیٹھ گئی اور آخر ت کی سرمدیت و ابدیت ، قیامت کی پوچھ تاچھ اور دین کی بالادستی رچ بس چکی ہو۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 
02؍ جولائی 2018
ادارہ فکروخبر بھٹکل 
 

«
»

کون اور کیوں اکسا رہا ہے بھیڑ کو؟

موجودہ اُردو ادب کے اہم ستون ظہورالاسلام جاویدسے خصوصی گفتگو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے