امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابتؓ

محمد عبدالرحیم گلبرگوی

تبع تابعین میں سے امام طریقت ، امام الائمہ مقتدائے اہل سنت ، شرف فقہا، عزعلماء سید نا امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت خزاریؓ ہیں آپ عبادات و مجاہدات اور طریقت کے اصول میں عظیم الشان مرتبہ پر فائز ہیں ابتدائی زندگی میں آپ نے لوگوں کے اژدہام سے کنارہ کش ہوکر گوشہ نشینی کا قصد فرمایا تاکہ لوگوں میں عزت و حشمت پانے سے دل کو پاک وصاف رکھیں اور دن ورات اللہ تعالیٰ کے عبادت میں مصروف و منمہک رہیں مگر ایک رات آپ نے خواب میں دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کے استخوان مبارک کو جمع کررہے ہیں اور بعض کو بعض کے مقابلے میں انتخاب کررہے ہیں اس خواب سے آپ بہت پریشان ہوئے اور حضرت محمد بن سیر ینؓ کے ایک مصاحب سے اس خواب کی تعبیر دریافت کی انھوں نے جواب د یاکہ آپ رسول اللہ ﷺ کے علم مبارک اور آپ کی سنت کی حفاظت میں ایسے بلند درجہ پر فائز ہوں گے گویا آپ ان میں تصرف کرکے صحیح و سقیم کو جداجدا کریں گے دوسری مرتبہ رسول کریم ﷺ کو خواب میں دیکھا حضور نے فرمایا اے حنیفہ !تمہیں میری سنت کے زندہ کرنے کے لیے پیدا کیا گیا ہے تم گوشہ نشینی کا خیال دل سے نکال دو ۔ آپ بکثرت مشائخ متقدمین کے استاد ہیں چنانچہ حضرت ابراہیم بن ادہم فضیل بن عیاض، داؤد طائی اور حضرت بشر حانی رحمہم اللہ وغیرہ نے آپ سے اکتساب فیض کیا ہے۔ علماء کے درمیان یہ واقعہ مشہور ہے کہ آپ کے زمانہ میں ابو جعفر المنصور خلیفہ تھا اس نے یہ انتظام کیا کہ چار علماء میں سے کسی ایک کو قاضی بنادیا جائے ان چاروں میں امام اعظمؓ کا نام بھی شامل تھا۔ بقیہ تین فرد حضرت سفیان ثوری، صلہ بن الشیم اور شریک رحمہم اللہ تھے۔ یہ چاروں بڑے متبحر عالم تھے۔ فرستادہ کو بھیجا کہ ان چاروں کو دربار میں لے کر آئے چنانچہ جب یہ چاروں یکجا ہو کر روانہ ہوئے تو راہ میں امام ابو حنیفہ ؒ نے فرمایا میں اپنی فراست کے مطابق ہر ایک کے لیے ایک ایک بات تجویز کرتا ہوں سب نے کہا آپ جو تجویز فرمائیں گے درست ہی ہوگا۔ آپ نے فرمایا میں تو کسی حیلہ سے اس منصب قضا کو خود سے دور کردوں گا۔ صلہ بن الشیم خود کو دیوانہ بنالیں، سفیان ثوری بھاگ جائیں اور شریک قاضی بن جائیں چنانچہ حضرت ثفیان ثوری نے اس تجویز کو پسند کیا اور راستے ہی سے بھاگ کھڑے ہوئے ۔ ایک کشتی میں گھس کر کہنے لگے مجھے پناہ دو لوگ میراسر کا ٹنا چاہتے ہیں ایسا کہنے میں ان کا اشارہ حضور اکرم ﷺ کے اس ارشاد کی طرف تھا کہ ’’ جسے قاضی بنایا گیا اسے بغیر چھری کے ذبح کیا گیا ‘‘ ملاح نے انھیں کشتی کے اندر چھپادیا بقیہ تینوں علماء کو منصور کے روبرو پہنچادیا گیا منصورنے امام اعظم کی طرف متوجہ ہوکر کہاکہ آپ منصب قضا کے لیے بہت مناسب ہیں؟ امام اعظم نے فرمایا ،اے امیر میں عربی نہین ہوں اس لیے سردار عرب میرے حاکم بننے پر راضی نہ ہو ں گے منصور نے کہا اول تو یہ منصب نسب و نسل سے تعلق نہیں رکھتا ۔ یہ علم و فراست سے تعلق رکھتا ہے چونکہ آپ تمام علمائے زمانہ سے افضؒ ہیں اس لیے ’’آپ ہی اس کے لیے زیادہ موزوں و لائق ہیں امام اعظم نے فرمایا میں اس منصب کے لائق نہیں پھر فرمایا میرا یہ کہنا کہ میں اس منصب کے لائق نہیں اگر سچ ہے تو اس کے لائق نہیں اور اگر جھوٹ ہے تو جھوٹے کو مسلمانوں کا قاضی نہیں بنانا چاہیئے چونکہ تم خدا کی مخلوق کے حاکم ہو تو ہمارے لیے ایک جھوٹے کو اپنا نائب بنانا اور لوگوں کے اموال کا معتمد او مسلمانوں کے ناموس کا محافظ مقرر کرنا مناسب نہیں ہے اس صیلہ سے آپ نے منصب قضا سے نجات پائی۔ اس کے بعد منصور نے حضرت صلہ بن ایشم کو بلایا۔ انھوں نے خلیفہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا اے منصور تیرا کیا حال ہے اور تیرے بال بچے کیسے ہیں؟ منصور نے کہا یہ تو دیوانہ ہے۔ اسے نکال دو اس کے بعد حضرت شریک کی باری آئی ان سے کہا آپ کو منصب قضا ملنا چاہیے انھوں نے فرمایا میں سودائی مزاج کا آدمی ہوں اور میرا دماغ بھی کمزور ہے منصور نے جواب دیا اعتدال مزاج کے لیے شربت و شیر ے وغیرہ استعمال کرنا تاکہ دماغی کمزوری دور ہوکر عقل کا مل حاصل ہوجائے غرضکہ منصب قضا حضرت شریک کے حوالے کردیا گیا اور امام اعظم نے انھیں چھوڑ دیا اور پھر کبھی بات نہ کی اس واقعہ سے آپ کا کمال دو حیثیت سے ظاہر ہے ایک یہ کہ آپ کی فراست اتنی ارفع و اعلیٰ تھی کہ آپ پہلے ہی سب کی خصلت و عادت کا جائزہ لے کر صحیح اندازہ لگالیا کرتے تھے اور دوسرے یہ کہ سلامتی کی راہ پر گامزن رہ کر خود کو مخلوق سے بچائے رکھنا تاکہ مخلوق میں ریاست وجاہ کے ذریعہ نخوت نہ پیدا ہو جائے یہ حکایت اس امر کی قومی دلیل ہے کہ اپنی صحت وسلامتی کے لیے کنارہ کشی بہتر ہے حالانکہ آج حصول جاہ و مرتبہ اور منصب قضا کی خاطر لوگ سرگرداں رہتے ہیں کیوں کہ لوگ خواہش نفسانی میں مبتلا ہوکر راہ حق و صواب سے دور ہوچکے ہیں اور لوگوں نے امراکے دروازوں کو قبول حاجات بنارکھا ہے اور ظالموں کے گھروں کو اپنا بیت المعمور سمجھ لیا ہے اور جابروں کی مسند کو ’’قاب قوسین اوادنیٰ‘‘ کے برابر جان رکھا ہے جو بات بھی ان کی مرضی کے خلاف ہو وہ اس سے انکار کردیتے ہیں۔ غزنی میں ایک مدعی علم و امامت سے ملاقات ہوئی اس نے کہاکہ گدڑی پہنا بدعت ہے تو انھیں جوابا گہاکیا کہ حشیشی اور ذذیبقی لباس جو کہ خالص ریشم کا ہوتا ہے جسے شریعت نے حرام قرار دیا ہے اسی کو پہننا اور ظالموں کی منت و سماجت اور تملق و چاپلوسی کرنا تاکہ امول حرام مطلق مل سکے کیا یہ جائزہے ؟ کیا شریعت نے اسے حرام نہیں کیا ہے؟ اسے بدعت کیوں نہیں کہتے ؟ بھلا وہ لباس جو حلال ہو اور حلال سے بنا ہو وہ کیسے حرام ہوسکتا ہے۔ اگر تم پر رعونت اور طبیوت کی ضلالت مسلط نہ ہوتی تو تم اس سے زیادہ پختہ بات کہتے کیوں کہ ریشمی لباس عورتوں کے لیے حلال ہے اور مردوں پر حرام اور جو دیوانے اور پاگل ہیں جن میں عقل وشعور نہیں ان کے لیے وہ مباح ہے اگر ان دونوں باتوں کے قائل ہوکر خود کو معذور گردانتے ہوتو افسوس کامقام ہے۔
سید نا امام اعظم ابوحنیفہ ؒ فرماتے ہیں کہ جب حضرت نوفل بن حبانؓ کا انتقال ہوا تو میں نے خواب میں دیکھا کہ قیامت برپا ہے اور تمام لوگ حساب گاہ میں کھڑے ہیں میں نے حضور اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپ حوض کوثر کے کنارے کھڑے ہیں اورآپ کے دائیں بائیں بہت سے بزرگ موجود ہیں میں نے دیکھا کہ ایک بزرگ جن کا چہرہ نورانی اور بال سفید ہیں حضور کے رخسار مبارک پر اپنا رخسار رکھے ہوئے ہیں اور ان کے ساتھ حضرت نوفل موجود ہیں جب حضرت نوفل نے مجھے دیکھا تو وہ میری طرف تشریف لائے اور سلام کیا میں نے ان سے کہا مجھے پانی عنایت فرمائیں۔ انھوں نے فرمایا میں حضورؐسے اجازت لے لوں پھر حضور نے انگشت مبارک سے اجازت مرحمت فرمائی اور انھوں نے مجھے پانی دیا۔ اس میں سے کچھ پانی تو میں نے پیا اورکچھ اپنے رفقا کو پلایا لیکن اس پیالے کا پانی ویسا کا ویسا ہی رہا کم نہیں ہوا۔پھر میں نے حضرت نوفل سے پوچھا حضورؐ کی داہنی جانب کون بزرگ ہیں؟ فرمایا یہ حضرت ابراہیم خلیل ؑ ہیں اور حضور کی بائیں جانب حضرت صدیق اکبرؓ ہیں اسی طرح میں معلوم کرتا رہا یہاں تک کہ سترہ (17)بزرگوں کی باتبہ دریافت کیا جب میری آنکھ کھلی تو ہاتھ کی انگلیاں سترہ عدد پر پہنچ چکی تھیں ۔ حضرت یحیٰی بن معاذ رازی ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو خواب میں دیکھا تو میں نے عرض کیا ’’یا رسوال اللہ آپ کو روز قیامت کہاں تلاش کروں ‘‘ابو حنیفہ کے علم یا جھنڈے کے پاس‘‘ حضرت امام اعظمؓ کا ورع او رآپ کے فضائل و مناقب اس کثرت سے منقول و مشہور ہیں کہ ان سب کا احاطہ کیے جانا یہاں ممکن نہیں۔ حضرت داتا گنج بخش ؒ فرماتے ہیں کہ میں ملک شام میں مسجد نبوی شریف کے موذن حضرت بلال حبشیؓ کے روضۃ مبارک کے سرہانے سویا ہواتھا خواب میں دیکھا کہ میں مکہ مکرمہ میں ہوں اور حضور اکرم ﷺ ایک بزرگ کو آغوش میں بچے کی طرح لیے ہوئے باب شیبہ سے داخل ہورہے ہیں میں نے فرط محبت میں دوڑ کر حضور ﷺ کے قدم مبارک کو بوسہ دیا میں اسی حیرت و تعجب میں تھا کہ یہ بزرگ کون ہیں حضورﷺکو اپنی معجزانہ شان سے میری باطنی حالت کا اندازہ ہوا تو حضور نے فرمایا یہ تمہارے امام ہیں تمہارے ہی ولایت کے ہیں یعنی ’’ابو حنیفہؓ ‘‘ ہیں اس خواب سے یہ بات منکشف ہوئی کہ آپ کا اجتہاد حضور اکرم ؐ کی متابعت میں بے خطا ہے اس لیے کہ وہ حضور کے پیچھے خود نہیں جارہے بلکہ حضور خود انھیں اٹھائے لیے جارہے تھے کیوں کہ وہ باقی الصفت یعنی تکلف و کوشش سے چلنے والے نہیں تھے بلکہ فانی الصفت ہو کر نبی کریم ﷺ کی صفت بقا کے ساتھ قائم ہوئے چونکہ حضورؐ سے خطا کے صدور کا امکان ہی نہیں اس لیے جو حضورؐ کے ساتھ قائم ہو اس سے خطا کا امکان نہیں۔ یہ ایک لطیف اشارہ ہے۔
حضرت داؤد طائی ؒ جب حصول علم سے فارغ ہوگئے اور ان کا شہرہ آفاق میں پھیل گیا ور لگانہ روریگانہ عالم تسلیم کرلیے گئے تب وہ حضرت امام اعظم ؒ کی خدمت میں اکتساب فیض کے لیے حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اب کیا کروں ؟ امام اعظم ؒ نے فرمایا ’’اب تمہیں اپنے علم پر عمل کرنا چاہیئے کیوں کہ بلا عمل کے علم ایسا ہے جیسے بلاروح کے جسم ہوتا ہے عالم جب تک باعمل نہیں ہوتااسے صفائے قلب اور اخلاص حاصل نہیں ہوتا جو شخص محض علم پر اکتفا کرے وہ عالم نہیں ہے۔ عالم کے لیے لازم ہے کہ وہ محض علم پر قناعت نہ کرے کیونکہ عین علم کا اقتضا یہی ہے کہ باعمل بن جائے جس طرح کہ عین ہدایت مجاہدے کی مقتضی ہے اور جس طرح مشاہدہ بغیر مجاہدے کے حاصل نہیں ہوتا اسی طرح علم بغیر عمل کے سود مند نہیں ہوتا۔ علم عمل کی میراث ہے علم میں نورو و سعت اور ان کی منفعت عمل ہی کی برکت کا ثمرہ ہوتا ہے کسی صورت سے بھی علم عمل سے جدا نہیں کیا جاسکتا جیسا کہ آفتاب کا نور کہ وہ عین آفتاب سے ہے اس سے جدا نہیں ہوسکتا ۔ یہی حال علم و عمل کے مابین ہے وباللہ التوفیق۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ 
26؍ جون 2018
ادارہ فکروخبر بھٹکل 

«
»

کون اور کیوں اکسا رہا ہے بھیڑ کو؟

موجودہ اُردو ادب کے اہم ستون ظہورالاسلام جاویدسے خصوصی گفتگو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے