مرد با خدا مرحوم جعفری دامدا

تحریر:سید ابو الحسن ہاشم یس یم

www.fikrokhabar.com

   فجر کے بعد جب میں مطالعہ میں مشغول تھا  کہ اچانک بھائی حماد نے آکر اک افسوسناک خبر دی کہ والد محترم نے بذریعہ فون اس بات کی اطلاع دی ہے کہ ان  کے  خالو جناب جعفری صاحب دامدا عین بوقت اذان فجر سفر آخرت پر روانہ ہو چکے ہیں، یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ والد محترم ہندوستان سے کوسوں میل دور متحدہ عرب امارات میں مقیم ہیں اور ساتوں سمندر پار سے ہمیں اس سانحہ ارتحال کی اطلاع دے رہے ہیں، جب کہ یہ واقعہ ہمارے ہی شہر میں پیش آیا اور ہمیں اس کی بھنک بھی نہیں لگ سکی۔ اس سے سوشیل نیٹورکنگ نے پھر اک بار اپنا جوھر دکھایا اور انسانی قیاس آرائیوں کو غلط ثابت کردیا۔
بہر کیف! اس خبر کے سنتے ہی میرے ذہن ودماغ میں ماضی قریب کا اک واقعہ گردش  کرنے لگا، لیکن قبل اس کے کہ اس کی تفصیل بتاؤں اس حقیقت کا اعتراف بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ ان سطور کے لکھنے پر مجھے خصوصییت کے ساتھ دو چیزیں ابھار رہی ہیں، ایک طرف جہاں ہمارا خاندانی تعلق کارفرما ہے وہیں دوسری طرف ان کے وصال کی خبر پاتے ہی جو جذبات ابھرنے لگے اور بیتا ہوئے کچھ لمحات ذہن میں مستحضر ہونے لگے ہیں ان کی تسکین پہنچانا بھی مقصود ہے.
قارئین کرام:مرحوم کی وفات نے زندگی کی بے ثباتی اور بے حقیقتی کا پھر اک بار پیغام دیا، اورعین اس وقت کہ جب دنیا کے نام نہاد حکمراں یہ تصور کر بیٹھے ہیں کہ دنیا میں لوگ اپنے گھروں سے نکلنے کے لیے بھی ہمارے ہی محتاج ہیں، خدا نے اعلان کردیا کہ ظاھرا تو تم لوگوں کو اپنے قبضہ میں تصور کرسکتے ہو لیکن جب کسی کا وقت موعود آجائے تو خدائے قہار کو نہ تمہارے پاسپورٹ اور ویزا کی ضرورت ہے نہ کسی لاک ڈاون کے کھلنے کا انتظار، بلکہ اختیار ازل سے ہمارا تھا اور ابد تک ہمارا ہی رہیگا۔
بہر کیف! چونکہ مرحوم کی اتنی طویل رفاقت نصیب نہیں ہوئی کہ ان کے عادات واطوار اور اخلاق وکردار کو شمار کیا جائے، البتہ اختصار کے ساتھ یہ سنتے چلیے کہ موصوف صابر وشاکر ہونے کے ساتھ ساتھ صوم وصلاۃ کے بھی پابند تھے، اور عام طور پر یہ تصور کیا جاتا ہے کہ شہر کے ماحول میں آدمی اپنی گوناگوں مشغولیات کی بنا پر فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کرتا ہے، اور اس پر مزید یہ کہ اگر وہ بمبئ جیسا اقتصادی شہر ہو تو پھر آدمی کی حالت کا خدا ہی محافظ!!! لیکن مرحوم نے اپنی جوانی کے دن بمبئ جیسے شہر اور ماحول میں رہتے ہوئے بھی شریعت کا پورا پاس ولحاظ رکھا اور فرائض کی ادائیگی میں حتی الامکان کوتاہیوں سے گریز کرتے رہے، اور شاید اسی کی بدولت خدا نے اس مبارک مہینے کی  آج کی اس طاق رات میں انھیں اپنے پاس بلا لیا، ساتھ ہی موقع کی مناسبت سے اپنے ساتھ بیتا ہوا ایک واقعہ قارئین کے حوالہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں، جو میر اس تحریر کا بھی بنیادی سبب بنا ہے اورجس سے مستقبل میں جب کبھی اس پر غور کروںگا تو اپنی غفلت اور حکم عدولی پر شرمندہ ہونگا اور ان شاء اللہ خدا کے حضور اپنے اور ان کے لیے دعائے رحمت ومغفرت کرتا رہونگا.
ابھی کچھ مہینوں پہلے کا واقعہ ہے کہ میں مرحوم کے مکان پر کچھ ضروری کام لیے حاضر ہوا تھا، اس وقت ان کی اہلیہ کی درخواست پر میں ان پر دم کرنے کی غرض سے ان کے کمرہ میں داخل ہوا، جاتے ہوئے انھوں مجھ سے اس بات کی فرمائش کی کہ اگر موقع ملے تو جلد ہی مکتبہ علی سے مسواک لیتے آنا، اب آپ اسے میری بے توفیقی پر محمول کریں یا غفلت سے تعبیر کریں کہ میں اس کام کو جلد انجام دینے کے بجائے ٹال مٹول کرتا رہا اور غالبا انھوں نے کسی عزیز سے فون کے ذریعے مجھے یاد دہانی بھی کرائی، پھر بھی شاید میری شرم وحیا کہیں کھو چکی تھی اور میرا ضمیر مر چکا تھا کہ اک بیمار شخص کو راحت وسکون پہنچانے کے بجائے اس پر بھی میں تأخیر کرتا رہا، اور ان کے سانحۂ ارتحال نے ہمیشہ کے لیے اس دروازہ کو بند کردیا جس کا  قلق اور افسوس تا دم آخر مجھے ستاتا رہے گا.
ان کے وصال کی خبر پاتے ہی میرے ذہن میں اپنی بے توفیقی کا یہی واقعہ گردش کرنے لگا، اور اپنی اس محرومی پر بہت افسوس بھی ہوا کہ میں نے حصول ثواب اور رفع درجات کا کتنا زریں موقع گنوادیا، بہر حال! اللہ سے دعا ہے کہ وہ انھیں اپنی رحمت بے پایاں کے شایان شان بدلہ عطا کرے اور ہماری کوتاہیوں سے در گزر فرمائے۔ آمین 
           آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے

«
»

مجتبی حسین ، ایک تاثر ایک احساس

نکمی حکومت اورمرتے ہوئے مزدور

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے