مولانا فیصل احمد ندوی بھٹکلی ۱۹۷۵ء

از: ڈاکٹر محمد طارق ایوبی

(ماخوذ: فضلائے ندوہ کی قرآنی خدمات)

 ندوۃ العلماء کے علمی و تحقیقی مزاج کے امین، عہد حاضر کے نامور محقق مولانا فیصل احمد بھٹکلی ندوی کا آبائی وطن صوبہ کرناٹک کا شاداب خطہ بھٹکل ہے، مولانا موصوف کی ابتدائی تعلیم و تربیت وہیں ہوئی، ۱۹۹۵ء میں وہ جامعہ اسلامیہ سے عا  لمیت کرکے دار العلوم ندوۃ العلماء آئے اور یہاں سے سند فضیلت حاصل کی۔ بعد ازاں انھوں نے لکھنؤ یونیورسٹی سے ایم اے کیا، اور اب ان کی پی ایچ ڈی جاری ہے۔
 ندوۃ العلماء سے فراغت کے بعد وہ اپنی مادر علمی میں ہی استاد مقرر ہوئے، ان کے ذمہ زیادہ تر تفسیر اور حدیث کے موضوعات رہے، مولانا موصوف کو اللہ نے بلا کی ذہانت عطا کی ہے، کتابوں میں غرق رہنے کا مزاج ہے، ان کے کمرہ میں محض ان کے لیٹنے بھر کی جگہ ہوتی ہے، گویا وہ کتابوں کی دنیا کے درویش ہیں، وہ لکھتے ہیں اور خوب لکھتے ہیں، ناپ تول کر لکھتے ہیں، محقق و مؤکد بات ہی لکھتے ہیں، اب کہاں ہیں ایسے لوگ جو تلاش و جستجو اور بحث و تحقیق میں خود کو گھلائیں، مگر مولانا فیصل ندوی ان ہی لوگوں کی یاد گار ہیں، ہمارے یہاں ایک کہاوت مشہور ہے ’’ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات‘‘ یعنی جو درخت اچھااور ثمر آور ہوتا ہے، شروع سے ہی اس کی علامتیں ظاہر ہوجاتی ہیں، اس کے پتے چکنے ہوتے ہیں، مولانا فیصل صاحب بھی شروع سے ہی علم وتحقیق کے دیوانے، مطالعہ کے رسیا اور کتابوں کے مشتاق تھے، ان کے سب انداز ان بزرگوں کے سے ہیں، جنہوں نے اپنی زندگیاں وقف کرکے دنیا کو بہت کچھ دے دیا، خود تو فنا فی العلم ہوگئے مگر دنیا میں بسنے والوں کو اندھیروں میں بھٹکنے سے بچا لیا، مولانا فیصل ندوی جس قدر نحیف الجثہ ہیں علمی اعتبار سے اسی قدر عظیم المرتبت اور عمیق العلم ہیں، جسم کے اعتبار سے نہایت ہلکے پھلکے ہیں مگر وسعت مطالعہ، عمق علم اور فہم قرآن و سنت میں ان کی شخصیت بہت بھاری بھرکم ہے۔
 مولانا فیصل ندوی کے قلم سے متعدد کتابیں نکل کر اہل علم اور محققین زمانہ سے داد تحسین حاصل کر چکی ہیں، انھوں نے ’’تحریک آزادی میں علماء کے کردار‘‘ پر کام کرنا شروع کیا، ۱۸۵۷ء سے پہلے کے دور پر مشتمل جب اپنی پہلی ضخیم جلد پیش کی تو بہت سے لوگوں کی آنکھیں کھلی رہ گئیں، اس موضوع پر کام تو ہوئے ہیں مگر وہ نام کے کام ہیں، مولانا موصوف نے واقعی موضوع کا حق ادا کر دیا، اس کی بقیہ جلدیں آئیں گی تو نہ صرف یہ کہ تاریخ آزادی ہند کے نئے باب روشن ہوں گے بلکہ اس موضوع پر حقیقی معنی میں یہ ایک انسائیکلو پیڈیا تیار ہوجائے گا۔
 بزرگوں کی مجالس کے ملفوظات بہت سے لوگوں نے جمع کیا ہے، مگر مولانا فیصل ندوی نے ’’مجالس حسنہ‘‘ کے نام سے جس طرح مولانا سید ابو الحسن علی حسنیؒ کی مجلسوں اور ان کے ملفوظات کو قلم بند کیا ہے، وہ نہ صرف اپنی مثال آپ ہے، بلکہ مولانا موصوف کے علمی و تحقیقی مزاج کی غمازی کے لیے بہت بہترین نمونہ ہے۔
 ابھی تازہ تالیف اسی موضوع پر ’’مجالس محدث العصر‘‘ آئی ہے، جس میں وسعت مطالعہ اور شوق تحقیق اور زیادہ نکھر کر سامنے آیا ہے۔
 اس کے علاوہ بھی ان کے قلم سے متعدد کتابیں نکلی ہیں، جن میں خصوصیت سے ان کی عربی تصنیف مظاہر الرحمۃ للبشر فی شخصیۃ النبی ﷺکا تذکرہ کیا جا سکتا ہے، یہ در اصل مولانا کا وہ مقالہ ہے جو انھوں نے ۱۱/۹ کے تناظر میں سعودیہ کی جانب سے منعقد کیے گئے ’’مسابقہ سیرت‘‘ میں پیش کیا تھا، جس میں دنیا بھر کے محققین و اسکالرز نے شرکت کی تھی، مصر کے ایک فاضل کے ساتھ مولانا موصوف کو مشترکہ طور پر اول پوزیشن کا مستحق قرار دیا گیا تھا۔
 صاحب تدبر قرآن کے رجم سے متعلق تفرد سے اہل علم واقف ہیں، مولانا موصوف نے ایک رسالہ ’’تدبر قرآن میں رجم – ایک مطالعہ‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے، انتہائی دقت نظری کے ساتھ صاحب تدبر کے دلائل کا جائزہ لیا ہے اور اس کے ثبوت کے دلائل دیے ہیں، نہایت سنجیدہ اور علمی انداز میں تنقید کرتے ہوئے اپنا مدعا ثابت کیا ہے۔
 الآثار البیات فی فضائل الآیات: یہ دراصل مولانا فیصل بھٹکلی کا وہ مقالہ ہے، جو انھوں نے ندوہ کے نظام کے مطابق فضیلت کی سند حاصل کرنے کے لیے لکھا تھا، یہ مقالہ مولانا سید سلمان حسینی صاحب کی نگرانی میں لکھا گیا، ۲۰۰۵ء میں دمشق و بیروت سے اس کی اشاعت ہوئی، یہ کتاب ۴۶۴ صفحات پر مشتمل ہے۔
 سورتوں اور آیات کے فضائل میں مفسرین عام طور پر بہت کثرت سے روایات نقل کرتے ہیں، اس سلسلہ میں بڑی بے احتیاطی اور کوتاہی ہوئی ہے، ترغیب کے لیے فضائل سے متعلق روایات گڑھنے کے بھی ثبوت ملتے ہیں، اس کتاب میں موصوف محقق نے بڑی باریک بینی کے ساتھ آیات کی فضیلت بیان کرنے والی احادیث اور ان کی سندوں کا جائزہ لیا ہے، جہاں جو کمی، کوتاہی نظر آئی ہے، اس کو بہت مدلل انداز میں واضح کیا ہے، واقعہ یہ ہے کہ انھوں نے اس کتاب میں موضوع کا حق ادا کیا ہے اور ایک نہایت اہم کام انجام دیاہے۔

 تفسیر اور اصول تفسیر: 
 ۲۵۶ صفحات پر مشتمل یہ کتاب پہلی بار ۲۰۱۶ء میں لکھنؤ سے شائع ہوئی ہے، اس کتاب میں بنیادی طور پر تفسیر و اصول تفسیر کا تعارف کرایا گیا ہے، اس کی ضروت پر روشنی ڈالی گئی ہے اور تفسیر کی اہم کتابوں پر مختصر و جامع تبصرے کیے گئے ہیں، یہ کتاب اپنے حجم اور اپنے مواد کے اعتبار سے اردو خواں طبقہ کو اس موضوع پر بنیادی اور اہم معلومات فراہم کرنے کے لیے بے حد مفید ہے، بالخصوص اس کا جو حصہ اصول سے متعلق ہے، اس کا مطالعہ لوگوں کے لیے ضروری بھی ہے اور مفید بھی، کیوں کہ جس طرح مطالعۂ قرآن کا رجحان بڑھا ہے، اسی طرح من مانے طریقہ سے قرآن مجید کی تفسیر کرنے اور آیت کو اپنے نظریہ کے مطابق ڈھال لینے کا بھی رجحان بڑھا ہے، جو کہ انتہائی خطرناک ہے، اس تناظر میں اس کتاب کی اہمیت دو چند ہوجاتی ہے، دوسری طرف علم بیزاری کے اس دور میں طلبۂ مدارس کے لیے بھی اس کی افادیت کچھ کم نہیں۔ مصنف کا ذوق ندوی اور مزاج علمی ہے، اس کی صاف جھلک متعدد تفسیروں کے تعارف و تبصرے میں نظر آتی ہے، انھوں نے عہد حاضر کی اہم تفسیروں اور ترجموں کا بہت جامع، متوازن اور مختصر تعارف کرایا ہے، ان کی خوبیوں اور نمایاں پہلوؤں کو پیش کرنے کے ساتھ ان میں موجود تفردات یا فرو گذاشتوں سے بھی آگاہ کیا ہے، یہی علمی دیانت داری ہے اور اسی کو علمی تنقید کہا جا سکتا ہے۔
 یہ کتاب ۱۱/ابواب پر مشتمل ہے، باب اول میں ’’تفسیر کے سلسلہ میں بنیادی باتیں‘‘ لکھی گئی ہیں، دوسرے باب میں ’’تفسیر ماثور کی اہم کتابوں‘‘ پر جامع وواضح انداز میں گفتگو کی ہے، تیسرے باب میں ’’مختلف ذوق کی تفسیروں‘‘ پر گفتگو کی گئی ہے، حسب ضرورت حسن و قبح کو واضح کیا گیا ہے، چوتھے باب میں ’’قرآن مجید کا ترجمہ و تفسیر ہندستان میں‘‘ کے عنوان سے انتہائی مختصر و جامع انداز سے موضوع پر روشنی ڈالی گئی ہے، عربی اردو اور فارسی میں ہوئے کام پر وقیع اور علمی گفتگو کرنے کے ساتھ اہم تفاسیر و تراجم پر مختصر و جامع تبصرہ کیا گیا ہے، جدید ترین تراجم کا بھی ذکر کیاگیا ہے، یہ بات قابل تعریف ہے کہ مصنف نے کہیں بھی توازن و اعتدال اور علمیت کا دامن نہیں چھوڑا ہے، خوبیوں اور خامیوں کا برملا اظہار کیاہے، خوبیوں اور تراجم و تفاسیر کے قابل استفادہ پہلوؤں کے تعین کی کوشش کی ہے، پانچویں باب میں ’’علمائے کبار کے تفسیری افادات‘‘ کو موضوع بنایا ہے، چھٹے باب میں فہم قرآن کے لیے ضروری موضوعات اور اہم کتابوں پر گفتگو کی ہے، اسے مصنف کی وسیع النظری اور علمی مزاج کی دلیل ہی کہا جائے گا کہ ساتویں باب میں انھوں نے قرآن کے سائنسی اعجاز اور اس سلسلہ کی اہم کتابوں کا جائزہ پیش کیا ہے، پھر آٹھویں باب میں علوم القرآن کی اہم کتابوں کا مختصر تعارف پیش کیا ہے، نواں باب اصول تفسیر اور اس کی اہم کتابوں کے تعارف پر مشتمل ہے، دسویں باب میں مفسر کے آداب و شرائط پر تفصیل سے گفتگو کی گئی ہے، گیارہویں اور آخری باب میں مطالعہ قرآن کے سلسلہ میں مصنف نے چند مشورے دیے ہیں، جن کا تعلق طلبہ سے بھی ہے، مدرسین سے بھی ہے، عوام سے بھی ہے اور عوامی درس کی تیاری سے بھی، یہ مشورے صرف ذاتی آرا اور ذاتی تجربات کی بنا پر نہیں بلکہ علمی و تجرباتی تناظر میں دیے گئے ہیں، جو قرآن مجید سے استفادے کی راہ ہموار کرتے ہیں۔

«
»

قوم کے نوجوانوں کو ہنر مند بنانے کی ضرورت

کورونا وائرس کی وبا اور ماہِ رمضان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے