کورونا کے زمانے میں بین الاقوامی نظام

عربی تحریر: وضاح خنفر (عربی پوسٹ)

ترجمانی: ڈاکٹر عبد الحمید اطہر ندوی

جیسے جیسے وقت گزرے گا کورونا کی وبا ختم ہوجائے گی، اور انسانیت اس کی خطرناکی کا مقابلہ کرنے میں کامیاب ہوجائے گی، جیسے تاریخ میں ہوتا آیا ہے، بہت سی وبائیں آئیں، طاعون آئے اور جنگیں ہوئیں، البتہ ان سبھوں کے معاشرتی، سیاسی اور معاشی اثرات سالہا سال باقی رہتے ہیں، اور کبھی اثرات سے چھٹکارا پانے میں کئی دہائیاں لگتی ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی عالمی بحران پیدا ہوئے تو ان سے سیاسی اور اقتصادی نظام تشکیل پائے، کیوں کہ یہ بحران تین میدانوں میں تاریخ کے پہیے کو تیزی سے دوڑانے لگتے ہیں۔ ایک یہ کہ ضرورت لوگوں کو چانک آنے والے خطرات سے نمٹنے کے لیے غیر معمولی حل ایجاد کرنے کی ترغیب دیتی ہے، جس کی وجہ سے معاشرے اور افراد کو عام مانوس حالات سے غیر مانوس حالات کی طرف منتقل ہونے کے لیے ضروری طاقت فراہم ہوتی ہے، صرف سلوک اور برتاؤ کی سطح پر ہی نہیں، بلکہ عقیدے اور فکر کی سطح پر بھی یہی حال ہوتا ہے۔
دوسرے یہ کہ بحرانوں کی وجہ سے معاشرتی، سیاسی اور اقتصادی اعتبار سے کمزور نظام گرجاتے ہیں اور دوسرے وہ نظام وجود میں آتے ہیں اور آگے بڑھتے ہیں جن میں بحران کا مقابلہ کرنے کی طاقت پائی جاتی ہے، اسی لیے یہ ایک موقع ہوتا ہے قدیم بوسیدہ نظام کو ختم کرنے کا اور جذبات سے معمور نئے نظام کی ولادت کا، لیکن شرط یہ ہوتی ہے کہ لوگ قدیم نظام کی ناکامی کا یقین رکھتے ہو، اور جدید میں لوگوں کے دلوں میں امید پیدا کرنے کی طاقت اور صلاحیت ہو۔
تیسرے یہ کہ بحران بین الاقوامی معیاروں میں تبدیلی لانے میں تیزی لاتے ہیں، جن کی وجہ سے اسٹریٹیجک رجحانات طاقت ور ہونے لگتے ہیں چاہے یہ رجحانات کمزور اور پوشیدہ ہوں، اور دوسرے رجحانات کمزور ہونے لگتے ہیں چاہے وہ بظاہر طاقت ور نظر آتے ہوں۔

جنگیں اور وبائیں:
یقینی طور پر جنگیں دوسری کسی بھی چیز کے مقابلے میں طاقت کے معیار کو تشکیل دیتے ہیں، ہم جنگوں کے تذکرے کے بغیر بین الاقوامی نظاموں اور اسٹریٹیجک تشکیلات کے بارے میں گفتگو نہیں کرسکتے ہیں،کیوں کہ جنگوں کی وجہ سے حالات تشکیل پاتے ہیں، البتہ وبائیں اور طاعون بھی اہمیت میں کم نہیں ہیں، کیوں کہ وباؤں نے پوری تاریخ میں عالمی طاقت کے معیار تشکیل دینے میں کردار ادا کیا ہے، لیکن ان کا اثر جنگوں کے مقابلے میں الگ اور مختلف ہے، کیوں کہ جنگوں کا اثر اسٹریٹیجک حالات میں تیز بھی ہوتا ہے اور بلاواسطہ بھی ہوتا ہے، جب کہ تاریخ کی حرکت میں وباؤں کا اثرتدریجی اور دور رس ہوتا ہے، عام طور پر طاعون اور وباؤں کا اثر سیاست پر ہوتا ہے، بلکہ آگے بڑھ کر معاشرتی، دینی اور معاشی نظاموں پر بھی ہوتا ہے۔
ہم یہاں دو مثالیں پیش کرتے ہیں:پہلی مثال طاعونِ جستنیان ہے جو ۱۴۵۔۲۴۵ء میں آیا یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے تیس سال پہلے، اس طاعون کا شمار قدیم انسانی تاریخ میں اثر انگیزی کے اعتبار سے بڑے واقعات میں ہوتا ہے، کیوں کہ اس سے پوری دنیا متزلزل ہوگئی تھی، اس سے قسطنطینیہ کی چالیس فیصد آبادی ہلاک ہوگئی تھی، اور اس نے اس وقت کی دونوں سوپر پاور طاقتوں بیزنطینیہ اور ساسانیہ کو معاشی اور آبادی کے اعتبار سے کمزور بنادیا تھا، اس کو بین الاقوامی طاقت کے معیار کا توازن بگڑنے میں ایک اہم سبب مانا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں دونوں سوپر پاور طاقتیں مسلمان فاتحین کے ہاتھوں زوال پذیر ہوئیں۔
ایک بہت بڑا طاعون1346۔1351ء کے سالوں میں آیا تھا، جو انسانیت کے لیے بڑا ہی خطرناک تھا، اس وقت تقریباً دنیا کی ایک چوتھائی آبادی ہلاک ہوگئی تھی، اور یورپ کے ایک تہائی لوگ فنا ہوگئے تھے، اور انسانیت کو اپنے آبادیاتی توازن کو واپس لانے میں دو دہائی لگی تھی، البتہ یہ طاعون اسٹریٹیجک گہرائی میں تبدیلی کا نقطہئ آغاز سمجھا جاتا ہے، خصوصاً یورپ میں، اس طاعون ”کالی موت“ نے فکری اور دینی آزادی کی تحریک شروع کی، اور اس کے بعد یورپ اپنی بوسیدہ تاریک صدیوں سے باہر آنے میں کامیاب ہوا، اس کے نتیجے میں ظالمانہ سرمایہ دارانہ نظام زمین بوس ہوگیا، اور کنیسہ پر یورپ کے لوگوں کا بھروسہ ختم ہوگیا، مفکرین اور سائنس دان زندگی کے نئے معانی تلاش کرنے لگے، اسی طرح زیادہ انصاف اور مساوات پر مشتمل معاشی اور معاشرتی نظاموں کی تلاش شروع کردی، اسی وجہ سے مورخین نے ”کالی موت“ کو یورپی بیداری کا ابتدائی دور مانا ہے۔
ان دو مثالوں میں تبدیلی کے بیج اور رجحانات عملی طور پر پائے جاتے ہیں، البتہ بحران کی وجہ سے یہ تبدیلیاں جلدی رونما ہوئیں، کیوں کہ بیزنطینی اور ساسانی حکومتیں اپنی عمر کے آخری مرحلے میں تھیں، کیوں کہ بے چینی اور خانہ جنگیوں نے ان دونوں کی بنیادوں کو پہلے ہی کھوکھلا بنادیا تھا، اسی طرح ان دونوں حکومتوں کا اخلاقی اور دینی نظام کمزور ہوچکا تھا، اسی زمانے میں طاعون بھی آیا، جس کی وجہ سے قدیم بوسیدہ نظام جلد ہی تباہی کا شکار ہوا اور جدید نظام وجود میں آیا، جس جدید نظام میں اگلے مرحلے کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی صلاحیت موجود تھی، اس کے نتیجے میں پوری تاریخ کا سب سے بڑا اسٹریٹیجک انقلاب آیا۔
یہی بات ہمیں طاعونِ جستنیان کے آٹھ صدیوں بعد یورپی تاریخ میں نظر آتی ہے، کیوں کہ جب عالمِ اسلام اپنے سنہرے دورمیں تھا تو یورپ تاریکی میں بھٹک رہا تھا، سرمایہ دارانہ نظام اور آپسی رسہ کشی نے اسے کمزور بنادیا تھا اور کنیسا کے جمود نے اس کی ترقی روک کر رکھی تھی، یورپ والے جانتے تھے کہ وہ عاجز ہیں، اور اسے سمجھ آگئی تھی کہ یورپ کا قدیم نظام اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے، لیکن قدیم مضبوط نظام کی روانگی آسان بات نہیں تھی، اور جدید نظام تیار نہیں تھا، لیکن اسی وقت طاعون کی وبا آئی، اس نے تاریخ کے پہیے کو تیزی سے دوڑایا اور جو ناممکن تھا اسے ممکن بنادیا، جس کے نتیجے میں جدید پنپنے لگا اور اس کے مضبوط ہونے میں ایک صدی بلکہ اس سے بھی زیادہ کا وقت لگا، پھر قدیم کے ساتھ کشمکش شروع ہوئی اور جدید کو کامیابی ملی، جس کے نتیجے میں یورپ کی بیداری کا دور شروع ہوگیا۔
خطرناکی اور لوگوں کی جانوں کے ضیاع میں کورونا کا مقابلہ طاعون جستنیان یا طاعون ”کالی موت“ سے نہیں کیا جاسکتا، لیکن اس کے معاشی اور اسٹریٹیجک اثرات بڑے خطرناک ہوں گے، کیوں کہ جس تیزی سے کورونا پھیل رہا ہے وہ موجودہ دور کی ایک زندہ مثال بن رہا ہے، ہم گلوبلائزیشن کے زمانے میں جی رہے ہیں، کورونا اس گلوبلائزیشن کی پیٹھ پر سوار ہوکر دنیا کے ہر گوشے تک پہنچ رہا ہے اور اس سے پوری دنیا کے باشندوں کو یکساں طور پر خطرہ ہے۔

موجودہ بین الاقوامی نظام:
عالمی نظام جو کورونا کی مار سے ڈگمگارہا ہے، خصوصاً امریکہ:
موجودہ عالمی نظام کا وجود دوسری عالمی جنگ کے بعد ہوا، اس کے نتیجے میں برطانوی ایمپائر زوال کا شکار ہوا اور اس کی جگہ امریکی ایمپائر نے لی، اس وقت برطانیہ اپنی انتہائی ترقی تک پہنچ چکا تھا اور تاریخ کی سب سے بڑی شہنشاہیت مانا جاتا تھا، ایک صدی تک اسے ”پہلی عالمی طاقت“ کا نام دیا جاتا رہا،جنگ میں فتح حاصل ہونے کے باجود وہ کمزور ہوچکی تھی، اس لیے پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کی وجہ سے اس کی شہنشاہیت کا خاتمہ ہوگیا، پھر اس نے اپنے مقبوضہ علاقوں جہاں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا سے دست بردار ہوگیا۔
امریکہ جنگ میں مجبوراً شریک ہونے سے پہلے دنیا سے کٹا ہوا ملک تھا، یورپ کے جھگڑوں سے دور بالکل محفوظ جزیرہ کی سوچ رکھتا تھا، اس کی فوجوں کی تعداد ایک لاکھ چوہتر ہزار سے زیادہ نہیں تھی، اس وقت وہ عالمی سطح پر چودھویں نمبر پر تھا۔
تیز رفتار اسٹریٹیجک ترقیات حاصل کرنے میں کامیاب ہونے کی وجہ امریکی معاشرے کا کشادہ ماحول ہے، کیوں کہ یہ مہاجرین کا معاشرہ ہے، یہاں بہتتنوع پایا جاتا ہے، یہاں کامیابی اور ایجادات کا استقبال کیا جاتا ہے، جنگ کے پانچ سالوں میں امریکی فوج کی تعداد ایک کروڑ دس لاکھ ہوگئی، جو پوری انسانی تاریخ کے سب سے زیادہ فوجی ساز وسامان سے لیس تھی، امریکہ جنگ میں پوری تیاری کے ساتھ داخل ہوا، پھر ایٹمی ہتھیاروں کی ایجاد کرکے اپنا تسلط قائم کیا، اس نے بے رحمی سے ناگاساکی اور ہیروشیما کے عام لوگوں پر آزمایا، جاپانیوں کے ساتھ جنگ روکنے کے لیے لاکھوں شہریوں کو قتل کرنے کی ضرورت نہیں تھی، کیوں کہ جاپان خود سپردگی کے کئی پیغام بھیج چکا تھا، لیکن صدر ٹرومین نے امریکی غلبے کو دنیا کے سامنے لانے کے لیے ایٹمی ہتھیار کا استعمال کیا تھا، صرف جاپان میں ہی نہیں، بلکہ موجودہ حلیف اور مستقبل کے دشمن سویت یونین کے سامنے بھی اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا چاہ رہا تھا۔
دوسری جنگِ عظیم اختتام کو پہنچی، دو عالمی فوجیں؛مغربی نظام اور سوشلزم ایٹمی ہتھیاروں کے مقابلے میں لگ گئے، جن ہتھیاروں سے زمین کو کئی مرتبہ تباہ کیا جاسکتا ہے،اس طرح ایک فحش غلطی کے رحمِ مادر سے جدید دنیا وجود میں آگئی۔
امریکہ کو فوجی برتری کے ساتھ ڈپلومیٹک اور معاشی برتری بھی حاصل ہوگئی، کیوں کہ جنگ کے بعد کا سب مالِ غنیمت امریکہ کے مفادات میں آگیا، اس کے نتیجے میں اقوامِ متحدہ کا قیام عمل میں آیا جس کا ہیڈ کوارٹر نیویارک میں بنایا گیا،ڈالر بریٹن ووڈز معاہدے کی وجہ سے عالمی کرنسی قرار پایا، اسی طرح بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور ورلڈ بینک قائم ہوئے جن کے ہیڈ کارٹر واشنگٹن میں ہیں۔
جب یورپ سخت ترین معاشی بحران کا شکار تھا اس وقت امریکہ ”مارشل منصوبہ“ لے کر مداخلت کی، تاکہ مغربی یورپ کی از سرِ نو تعمیر کی جائے، امریکہ نے یورپ میں جو سرمایہ لگایا وہ صرف خیراتی کام نہیں تھا، بلکہ یورپ کی طرف سے امریکی قرض کی ادائیگی کے لیے بھی ضروری تھا، اس وقت سے امریکہ سردار بن گیا اور یورپ اپنی تاریخی سرداری سے ہاتھ دھو بیٹھا اور امریکی قیادت کے پیچھے پیچھے چلنے پر راضی ہوگیا۔
عظیم فوجی طاقت اور عالمی معاشی نظام پر قبضہ اور غلبہ نے دو بنیادی ستونوں پر مبنی تکبر کی ثقافت کا امریکہ کو عادی بنادیا:فوجی سرکشی اور معاشی حرص اور لالچ۔
دو سوپر پاور طاقتوں کے درمیان سرد جنگ کا دائرہ وسیع ہونے لگا، اور اس کا اثر پوری دنیا اور زندگی کے تمام پہلؤوں پر ہونے لگا، جس کے نتیجے میں سوشلزم کی جنت کی طرف مائل تیسری دنیا میں انقلابات آئے اور امریکہ نے ڈکٹیٹرشب نظاموں کی مدد کی، اور یہ دونوں طاقتیں بالواسطہ جنگوں میں شریک ہوئیں جن کا ایندھن پوری دنیا تھی۔
سرد جنگ کی دنیا بین الاقوامی نظام کی سچی تصویر تھی:یہ غلبہ اور بقا کی کرو یا مرو کی کشمکش تھی، سویت یونین کی طرف سے رواج دیے ہوئے آزادی اور معاشرتی انصاف کے شعار، اور مغربی دنیا کی طرف سے پھیلائے ہوئے جمہوریت اور حقوقِ انسانی کے وعدے؛سب جنگ کے وسائل کے سوا کچھ نہیں تھے، کشمکش در اصل اسٹریٹیجک تھی، اس میں اخلاق اور اصولوں کی کوئی قیمت نہیں تھی، بس مسلح آئیڈیالوجی کی قیمت تھی یعنی یہ نظریات جن کو دونوں طرف سے عام کیا جارہا تھا؛چاہے سوشلسٹ ہوں یا لیبرل، صرف اپنے غلبے کو بڑھانے اور اپنے تسلط کے دائرے کو وسیع کرنے کے لیے تھا۔
لیبرالزم کی بنیاد سترھویں صدی میں پڑی، جب کہ سوشلزم کی بنیاد اٹھارھویں صدی میں پڑی، ان دونوں میں قابلِ احترام انسانی اصول پائے جاتے ہیں، لیکن بحرانوں نے ان دونوں کو انسانی اصولوں کے خانے سے نکال کر استریٹیجک وظیفے کے خانے کی طرف منتقل کردیا، یہ دوسری غلطی ہے جو عالمی نظام سے ہوئی، اس نے مقدس چیزوں کو کشمکش کی گندگی کے کاموں میں لگایا، اس لیے کہ ہر چیز صرف قیادت کی کشمکش کا وسیلہ اور ذریعہ بن کر رہ گئی، ہر چیز مقابلہ آرائی کے جہنم کا ایندھن بن گئی، پھر1989ء میں برلین کی دیوار گرگئی اور اسی کے ساتھ سوشلسٹ فوج زوال کا شکار ہوئی، اور مغربی لیبرلزم کو اپنی آخری فتح حاصل ہوگئی، جس کے نتیجے میں ترقی پذیر دنیا کے اکثر ملک جن میں مشرقی یورپ کے ممالک بھی شامل ہیں نویں دہائی میں جمہوری انتخابات کا راستہ اپنانا شروع کیا، در اصل عام طور پر یہ ظاہری طور پر جمہوری انتخابات تھے، لیکن در اصل یہ عالمی لیبرالزم کی مزعومہ کامیابی کی طرف رجحان تھا۔ اس کے نتیجے میں امریکہ کو کسی مخالف کی موجودگی کے بغیرعالمی تسلط کا تاج پہنایا گیا، اور پوری دنیا نے بین الاقوامی سیاست کا قبلہ واشنگٹن کو مان لیا۔

 

امریکہ نے خوشیاں منانے میں اپنا وقت ضائع نہیں کیا، بلکہ اپنے نظریے کے مطابق نئی دنیا بنانے پر توجہ مرکوز کی، اس نے اپنے فوجی غلبہ کو دنیا کا پولس بننے کے کام میں لگایا، اور معاشی گلوبلائزیشن پر سوار ہوکر زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہوگیا، اتنی زیادہ دولت کہ انسانیت کو اس سے پہلے ایسی دولت کے بارے میں تصور ہی نہیں تھا، اس کے نتیجے میں مال داروں اور غریبوں کے درمیان ناقابلِ یقین خلیج پیدا ہوگئی۔

1995ء میں عالمی تجارتی تنظیم کی بنیاد اس مقصد سے ڈالی گئی کہ معاشی گلوبلائزیشن کو اپنے قبضے میں لیا جائے اور خام مواد اور ساز وسامان کے ذریعے دنیا سے مستقل مدد کا وعدہ کیا جائے، اس سے سب سے زیادہ فائدہ امریکی معیشت کو ہوا، اس طرح نوّیں دہائی میں امریکہ اپنی ترقی کے سب سے اعلی معیار پر پہنچ گیا:جی ڈی پی بہت زیادہ بڑھ گئی، بیکاری کی شرح پانچ فیصد سے کم ہوگئی، امریکی مصنوعات کے لیے بڑے بازار دستیاب ہوئے جس میں ڈیجیٹل سرمایہ کاری کی قیادت حاصل تھی۔

پھر11ستمبر کے حملوں کے بعد امریکہ کا اسٹریٹیجک اور معاشی توازن بگڑ گیا، اور امریکہ افغانستان اور عراق میں ایک بیکار، طویل اور بہت ہی مہنگی جنگ میں پھنس گیا، جب یہ سوپر پاور طاقت غاروں اور صحراؤوں میں بُتوں کو دوڑانے میں مشغول تھی اس وقت چین اور روس اپنی معاشی ترقی اور بین الاقوامی تسلط کو واپس لانے میں لگ گئے، افغانستان اور عراق میں امریکی جنگ بہت بڑی اسٹریٹیجک غلطی تھی، اس غلطی کے اسباب کو سمجھنا ممکن نہیں ہے، البتہ یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ سرد جنگ کے بعد امریکہ خود کو عالمی سردار سمجھنے لگا تھا۔

پھر2008میں معاشی بحران پیدا ہوا، جس سے امریکہ کے بازاروں پر مندی کی مار پڑی، پھر یورپ کے بازار اور پوری دنیا کے بازار متاثر ہوئے، اس بحران سے عالمی معیشت کی تشکیل میں تبدیلی آنے لگی، اور تدریجی طور پر امریکی تسلط کم ہونے لگا، اور چین نئے مقابل کی شکل میں آہستہ آہستہ لیکن تیز رفتار ترقی کے ساتھ سامنے آیا، جس کے نتیجے میں ایک نئی سرد جنگ شروع ہوئی، لیکن اس مرتبہ ٹرمپ ادارے نے معاشی میدان میں دوٹوک اقدامات کیے اور چینی سامان پر کسٹم ڈیوٹی لگائی، اور کمپنیوں کو امریکہ میں ہی اپنی پیداوار تیار کرنے کی ہمت افزائی کرنا شروع کیا، اور چین کی ٹیکنالوجی کی کمپنیوں پر پابندی عائد کردی، جیسے ھوائی کمپنی، تاکہ اسے عالمی طور پر 5Gبنانے سے روکا جاسکے، امریکہ نے اپنے حلیفوں پر بھی دباؤ بنانا شروع کیا کہ وہ بھی اسی طرح کے اقدامات کریں، تاکہ چین کی ترقی کو روکا جائے اور اس کی ترقی کی رفتار میں کمی لائی جائے، اور امریکی غلبے کو جتنا ممکن ہوسکے باقی رکھا جائے، ان ہی حالات میں کورونا کے زمانے نے ہمارے گھروں پر دستک دی۔

کیا کورونا امریکی گلوبلائزیشن کو ختم کردے گا؟
آج جس دنیا میں ہم زندگی گزار رہے ہیں وہ ایک دوسرے سے مربوط اور جڑا ہوا ہے، اور گلوبلائزیشن عالمی نظام کا بڑاامتیاز اور خصوصیت ہے، گلوبلائزیشن کے دو بنیادی ستون ہیں:ایک معاشی اور دوسرے ٹیکنالوجی۔ جس وقت گلوبلائزیشن کورونا کے بحران کی وجہ سے معاشی طور پر زوال پذیر ہوجائے گا تو ٹیکنالوجی اسے آگے بڑھائے گی، اسی وجہ سے گلوبلائزیشن جاری رہے گا، لیکن مروجہ طریقہ بدل جائے گا اور قیادت بہت سے علاقوں کو حاصل ہوگی۔
سوشلسٹ فوج کے زوال اور عالمی تجارتی تنظیم کے قیام کے بعد فیکٹریوں نے پیداوار کا ایک طریقہ اپنایا جس میں پیداوار کے لیے ضروری خام مواد اور عناصر کے لیے مختلف عالمی مصادر اور سورسس پر اعتماد کیا جانے لگا، مثال کے طور پر جرمنی میں جو کار تیار ہوتی ہے اس کے بعض اجزاء چین سے منگائے جاتے ہیں اور دوسرے اجزاء کوریا وغیرہ سے منگائے جاتے ہیں، امریکی دوا کی تیاری میں ستّر فیصد خام مواد چین سے آتا ہے، ایشیا، میکسیکو اور شمالی افریقہ میں یورپ اورامریکہ کی فیکٹریوں کے لیے پرزے اور اجزاء بنانے والی فیکٹریاں پائی جاتی ہیں، اس کا سبب یہ ہے کہ ان علاقوں میں ملازمین سستے ملتے ہیں اور بین الاقوامی تجارتی قوانین اور دائمی اور تیز رفتار بین الاقوامی مواصلات سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے، اس طرح گلوبلائزیشن نے ایک ایسا معاشی نظام تیار کیا ہے جس کا زیادہ فائدہ مصنوعات بنانے والے کو ملتا ہے، سبھی لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات راسخ اور پیوست ہوچکی تھی کہ یہ درآمد اور برآمد کا تیز رفتار نظام ہمیشہ باقی رہے گا کہ اسی وقت کورونا کا بحران آیا اور اس یقین کو متزلزل کردیا، فیکٹریاں حکومتوں کی قراداد کے نتیجے میں غیر متعینہ مدت کے لیے جزوی یا کلی طور پر بند ہوگئی ہیں، طلب کی کمی یا زیادتی کی وجہ سے ایسا نہیں ہوا ہے، اس کی وجہ سے عالمی بازاروں میں بے چینی کی کیفیت ہے اور وہ مستقبل کے سلسلے میں کچھ کہنے سے عاجز ہیں، اس کے نتیجے میں بازار اور شئیر مارکٹ زوال کا شکار ہیں اور ترقی کی رفتار میں گراوٹ آگئی ہے اور عالمی جمود اور تعطل کا خوف بڑھ گیا ہے۔

اب کیا ہونے والا ہے؟
ہم اس مرحلے میں یقین کے ساتھ عالمی نظام کے مستقبل اور اس کی قوت وطاقت کے معیاروں کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے، لیکن ہم اسٹریٹیجک رجحانوں کی بنیاد پر مستقبل کے خد وخال بیان کرسکتے ہیں، جو رجحانات آخری سالوں میں عملی طور پر تشکیل پانا شروع ہوئے ہیں، اور کورونا ان میں تیزی لانے والا ہے۔
1۔ سب سے پہلے کورونا کا یہ اثر ہوا ہے کہ اس نے معاشی گلوبلائزیشن کی رفتار دھیمی کردی ہے، یہ رجحان نیا نہیں ہے، بلکہ یہ تین سالوں سے جاری ہے، یہ ٹرمپ ادارہ کی وجہ سے ہورہا ہے، البتہ عالمی طور پر اس میں مضبوطی آئے گی، کیوں کہ کمپنیاں اور حکومتیں اپنی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کی صلاحیت حاصل کرنے کے لیے تیز اقدامات کریں گی اور ان کا اعتماد عالمی بازار پر کم ہوجائے گا، خصوصا عام ضرورت کی مصنوعات میں، فطری طور پر کمپنیوں کے فائدوں میں کمی آئے گی، لیکن انھیں اپنی مصنوعات کے خریدار مستقل ملنے کی امید رہے گی۔

2۔ آئندہ سالوں میں دنیا دوسروں کے لیے اپنا بازار کھولنے کے بجائے اپنی ہی پیداوار پر اکتفا کرے گی اور قومی ترقی میں اضافہ ہوگا، اور دنیا کی حکومتوں کا حال نفسا نفسی کا ہوگا، فطری طور پر یہ اکتفا صرف معاشی میدان تک محدود نہیں رہے گا، بلکہ اس کا دائرہ قومی اور قبائلی رجحانات تک وسیع ہوگا، ان رجحانات کو ہم نے گذشتہ سالوں میں دیکھا ہے، اب کورونا کی وجہ سے ایک دوسرے سے خوف اس وجہ سے بڑھ جائے گا کہ لوگوں کو متعدی بیماریوں کا خوف رہے گا، اسی لیے سرحدیں سیل کردی گئی ہیں اور قومی انانیت میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے، جس کے نتیجے میں لوگ اپنی سرحدوں تک محدود ہوجائیں گے، اور دوسروں کے تئیں نفرت کا کا رجحان پیدا ہوجائے گا، اسی طرح اقلیتوں کے خلاف دشمنی پیدا ہوجائے گی اور پناہ گزینوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔

3۔کورونا اور معاشی بحران کی وجہ سے جو نتیجے سامنے آئیں گے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دنیا پر امریکی اجارہ داری ختم ہوجائے گی، کیوں کہ امریکہ کی صدارت ایسے شخص کے ہاتھ میں ہے جو اپنی بڑائی کرنے میں مشغول ہے، عملی طور پر امریکہ کا رعب اور ہیبت ختم ہوگئی ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ امریکہ زوال کا شکار ہوگا یا حاشیہ پر رہنے والی کسی حکومت میں تبدیل ہوجائے گا، اب بھی اس میں عالمی اجارہ داری کو باقی رکھنے کی صلاحیت ہے، لیکن موجودہ معاشی بحران مرض پر جلد قابو نہ پانے کی صورت میں امریکی صلاحیت کے سلسلے میں مزید شک پیدا کردے گا، پھر دنیا کی تنِ تنہا قیادت تو دور کی بات ہے، اسی وجہ سے اس وقت ایک سے زائد اجارہ داروں کے لیے گذشتہ سالوں کے مقابلے میں میدان خالی ہے، لیکن یہ سرد جنگ کے نظام سے مختلف دنیا ہوگی۔

4۔ دو قیادتی لچک دار عالمی نظام:مستقبل کا عالمی نظام کی قیادت دو ملکوں کے ہاتھوں میں ہوگی، ایک چین اور دوسرا امریکہ، لیکن اس وقت کی دنیا سرد جنگ کے موقع پرجو دنیا تھی اس سے بالکل مختلف ہوگی، بلکہ نیا نظام لچک دار ہوگا، دوسرے ممالک بھی اپنا کردار ادا کرنے کے لیے اس سے فائدہ اٹھائیں گے،مثال کے طور پر روس اور یورپی یونین، جب چین اور امریکہ معاشی مقابلہ آرائی اور ذرائع ابلاغ کی جنگ میں مشغول ہوجائیں گے تو دوسرے کھلاڑیوں کو فائدہ ہوگا، بلکہ اس سے مشرق وسطی کے دوسرے علاقائی کھلاڑی جیسے ترکی اور ایران بھی فائدہ اٹھائیں گے، عالمی دیوار میں جتنا شگاف ہوگا اتنا ہی زیادہ فائدہ کم تسلط والے کھلاڑیوں کو ہوگا۔

کیا مستقبل کا گلوبلائزیشن چینی ہوگا؟
چین نے وائرس کے پھیلاؤ کو تین مہینوں تک چھپائے رکھا، اور اس نے بہت بڑی غلطی کی، جس کے نتیجے میں وائرس پوری دنیا میں پھیل گیا، پھر اس نے بڑی کارروائیاں شروع کی، جس کے نتیجے میں اس کی معیشت تیزی سے گرگئی، لیکن وہ کم ازکم اس مرحلے میں وائرس پر قابو پانے میں کامیاب ہوگیا، اس کے بعد چین نے اپنی شبیہ درست کرنی شروع کی، اور ایسے ممالک کی مدد کرنی شروع کی جن ملکوں کا ساتھ ان کے حلیف ملکوں نے چھوڑ دیا تھا، مثال کے طور پر اٹلی اور صربیا کی مدد کی، اور عالمی تعاون کا ایک نمونہ پیش کیا جو امریکی ادارے اور یورپی اتحاد کے انانیت والے نمونے سے بالکل الگ ہے۔

اگر چین بیماری کی دوا حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو امریکہ کے مقابلے میں زیادہ تیزی اور کم خرچ میں دوائی بنانے میں کامیاب ہوجائے گا اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں قیادت حاصل کرلے گا۔

اسٹریٹیجک طور پر اہم یہ ہے کہ چین اپنے معاش کو جلد سے جلد سنبھالنے اور اپنی فیکٹریوں میں مصنوعات تیار کرنے کی صلاحیت دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے، اور یہ ہو بھی جائے گا، اور چین کو امید ہے کہ گذشتہ مہینوں میں اس کی جی ڈی پی میں جو کمی آئی ہے اس کی بھرپائی کرنے میں کامیاب ہوگا، غالباً چین اس میں کامیاب ہوجائے گا، خصوصا اس وقت جب یہ وبا امریکہ اور یورپ میں بڑی مدت تک رہے گی، جب کہ ان علاقوں میں یہ وفا اپنے ابتدائی مرحلے میں ہے، اس سے چین کو فائدہ ہوگا اور اسے غلبہ اور تسلط کا موقع ملے گا، چین اس کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے میں کسی طرح کی جھجھک سے کام نہیں لے گا۔

لیکن کیا امریکہ چین کے سامنے خود سپرد ہوجائے گا؟ اس کی ہم توقع ہی نہیں کرسکتے، کیوں کہ امریکہ اپنی پوری طاقت سے اپنی عالمی قیادت باقی رکھنے کی کوشش کرے گا، اس وقت وہ چین کے ساتھ کرو یا مرو کی لڑائی پر مجبور ہوجائے گا، اس مقابلے کی وجہ سے دو قیادت والا عالمی نظام وجود میں ا ٓئے گا، اور یہی جدید عالمی نظام کی تشکیل کا محرک بھی ہوگا۔

چین اس بات سے واقف ہے کہ امریکہ کے ساتھ یقینی طور پر مقابلہ ہوگا، اور اسے ادراک بھی ہے کہ اپنی معاشی ترقی کی حفاظت کے لیے فوجی طاقت کی بھی ضرورت پڑے گی۔

چین نے آخری دہائیوں میں عالمی بحرانوں سے دوری بنائے رکھنے کا راستہ اپنایا ہے، اور امریکہ وغیرہ ملکوں کے لیے جنگوں اور سیاسی بحرانوں میں دخل اندازی دینے کا میدان خالی چھوڑ دیا ہے، البتہ بلاواسطہ چین کی قومی سلامتی کا مسئلہ ہو تو الگ بات ہے، مثال کے طور پر تائیوان، تبت اور چین کا جنوبی سمندر۔ لیکن یہ سیاست بہت دنوں تک جاری نہیں رہے گی، چین نے عملی طور پر اپنی فوجی اداروں کو ترقی دینا شروع کردیا ہے، اور علاقائی معاہدوں میں شریک ھی ہوا ہے، اور وہ مستقبل میں عالمی نزاعات میں مداخلت کرنے پر مجبور ہوجائے گا، تاکہ افریقہ اور لاطینی امریکہ میں خام مواد کے مصادر کی حفاظت کرسکے اور ایشیا میں اپنے بازاروں کو محفوظ بنائے رکھے، اور اسے مواصلات کی آزادی کی بھی ضمانت حاصل ہو۔

چین امریکہ کے مقابلے میں فوجی میدان میں بہت پیچھے ہے، کیوں کہ امریکی فوجی صلاحیتوں کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا، اور چین فوجی میدان میں امریکہ کا مقابلہ کرنے کی جرات بھی نہیں کرے گا، لیکن ایسی پالیسی اپنائے گا کہ زخمی شیر کو تھکادیا جائے، اس دوران چین اپنی بین الاقوامی حاضری اور معاشی وسعت کو مضبوط کرے گا۔

امریکہ کی بتدریج زوال کی صورت میں پیدا ہونے والے خلا کو چین پُر کرسکے گا؟
چین معاشی ترقی تو کرلے گا، لیکن عالمی سطح پر امریکہ جس مقام پر ہے اس مقام کو حاصل نہیں کرسکے گا، اور چینی گلوبلائزیشن قائم نہیں کرپائے گا، کیوں کہ چین ثقافتی طور پر گوشہ نشین ہے اور معاشی ترقی اور عوام کی فقیری کے درمیان بہت بڑا خلا ہے، ایک ہی پارٹی کی ڈکٹیٹرشپ ہے، ذرائع ابلاغ پر پابندی ہے، یہ وہ اسباب ہیں جو کسی بھی عالمی نظام کی تشکیل میں مفید نہیں ہوتے ہیں، اس لیے چین نئے عالمی نظام کا مرکز نہیں بن پائے گا۔

امریکہ کو عالمی مرکز بنانے کے بہت سے اسباب ہیں، صرف امریکی ہتھیار اور وول اسٹریٹ نے اسے مرکز نہیں بنایا ہے، بلکہ دوسری مصنوعات بھی ہیں جن کی وجہ سے وہ مرکز بنا ہے، مثال کے طور پر ہولی ھوڈ، ذرائع ابلاغ اور فن کے مراکز، انگریزی زبان، علمی صلاحیتیں رکھنے والے مہاجرین کے لیے اپنا دروازہ کھولنا اور ان کو امریکی شہریت دینا، عظیم صلاحیتوں کی مالک مضبوط یونیورسٹیاں، اس کے علاوہ وہاں جمہوریت اور ذرائع ابلاغ کی آزادی ہے، یہ سب اسباب وعوامل چین کے پاس نہیں ہیں۔

امریکی سیاست نے بہت سی قوموں کے خلاف سخت ترین جرائم کیے ہیں، خصوصاً عالم عرب میں، لیکن چین کی ترقی جمہوریت اور حقوقِ انسان کے لیے، اسی طرح اقلیات کے حقوق کے لیے نیک فال نہیں ہوگی، کیوں کہ ہم نے اپنے مخالفین کے ساتھ چین کے برتاؤ کو دیکھا ہے، اسی طرح ذرائع ابلاغ پر پابندیوں اور ایغور مسلمانوں پر کیے جانے والے ظلم وستم سے واقف ہیں، جو بھی صحیح بات کہتا ہے اس کے ساتھ چین کا سلوک بھی ہمارے سامنے ہے، ان میں وہ ڈاکٹر بھی ہے جس نے وائرس کا انکشاف کیا تھا اور اس کے پھیلنے سے چوکنا کیا تھا۔

کیا کورونا زوال پذیر براعظم کو ترقی دے گا؟
سویت یونین پر مغربی فتح کے بعد یورپی یونین کا قیام عمل میں آیا، جس طرح بیسویں صدی کی نویں دہائی امریکہ کے لیے خوش حالی کا زمانہ تھا، اسی طرح یورپی یونین کے لیے بھی سنہری دور تھا، اس دور نے یورپ کو آرام دہ ریٹائڑمنٹ کا موقع فراہم کیا، یورپی یونین نے اپنے باشندوں سے اجتماعی امن وامان اور معاشی خوش حالی کا وعدہ کیا، اور سرد جنگ کے دوران براعظم یورپ پر چھائے ہوئے خوف اور رعب کے بعد امن وامان قائم بھی ہوا، اور ناٹو تھکے ہوئے روس کے خلاف اس براعظم کو امان فراہم کرنے میں کامیاب بھی ہوا، اور سویت یونین سے الگ ہونے والے ملکوں کی مدد بھی کی، اس کے نتیجے میں روس کی اکثر سیاسی شخصیات مغرب کے ساتھ بے تکلف ہوگئیں، جس کے نتیجے میں روس پوتین کی قیادت میں آخری سانسیں لینے لگا اور اپنے اسٹریٹیجک علاقوں کا دفاع کرنے میں مصروف ہوگیا، روس کی فوجوں نے ۸۰۰۲ء کو شمالی جورجیا پر حملہ کیا، لیکن ناٹو کچھ نہیں کرسکا، پھر روسی فوجوں نے مشرقی یوکرین پر حملہ کیا اور2014میں قرم جزیرہ کو اپنے حدود میں شامل کرلیا، لیکن یورپی یونین کچھ بھی نہیں کرسکا، بس اس کارروائی کی مذمت کی اور یوکرین کی برائے نام مدد کی، اس موقع پر یورپی یونین کا پہلا وعدہ ڈگمگانے لگا یعنی اجتماعی امن وامان کا وعدہ۔

معاشی خوش حالی بیسویں صدی کی نویں دھائی میں اور اکیسویں صدی کے اوائل میں اپنی انتہا کو پہنچی، لیکن ۹۰۰۲ء میں یورو کا بحران پیدا ہوا، اس وقت یورپی معاشی نظام کی خامیاں سامنے آئیں، اور شمال کی حکومتوں کے درمیان اختلاف میں شدت آئی، خصوصاً جرمنی جو یورپی سنٹرل بینک میں سب سے زیادہ اثر انداز ہے، اور نسبتاً جنوبی یورپ کے غریب ممالک کی مثال دی جاسکتی ہے، پھر یونان کے قرضوں کا بحران آیا جس کی کاری ضرب یورپی تعاون کے نظریہ اور اصول پر پڑی، اس کے بعد پناہ گزینوں کا بحران آیا، جس کے نتیجے میں سب حکومتوں نے اپنی اپنی الگ پالیسیاں ترتیب دینا شروع کیا، اور یورپی یونین کے ادارے متحدہ سیاست اور پالیسی اپنانے سے عاجز ہوگئے، لیکن سب سے تکلیف دہ مار کورونا کا بحران ہے، اس نے یورپی فکر اور نظریہ کی جڑ پر وار کیا ہے؛سرحدیں سیل ہوگئی ہیں، مشترکہ تعاون کو دھچکا لگا ہے، ضروری سازوسامان کی تجارتی درآمدات اور برآمدات محدود ہوگئی ہیں، اس کے ساتھ قومی انانیت شروع ہوگئی ہے اور ایک دوسرے پر الزامات میں اضافہ ہوا ہے۔

یورپی یونین کو دوہرا مسئلہ درپیش ہے جو فی الوقت یورپی یونین کے لیے کسی آندھی سے کم نہیں ہے، ایک صحت کا مسئلہ ہے، اس کے نتیجے میں یہاں کے ممالک اپنی انفرادی صلاحیتوں کو صرف اپنے لیے محدود رکھیں گے، اس سے بھی بڑھ کر طبی لوازمات پر قبضہ کرنے کے لیے ڈاکہ زنی شروع ہوجائے گی، جب اس کی ضرورت پڑے گی، کیوں کہ یورپ کے چند ملکوں میں صحتی نظام خاتمے کا شکارہونے کے قریب ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ کورونا بڑے پیمانے پر بوڑھوں پر اثرانداز ہوتا ہے، اور یورپ میں آخری سالوں میں بوڑھوں کی تعداد نسبتاً دوسرے افراد کے مقابلے میں زیادہ ہے۔

دوسرا مسئلہ جس سے یورپی یونین کو واسطہ ہے وہ معاشی بحران ہے، ان حالات میں یورپی یونین کی حکومتیں انفرادی پالیسیاں اپنا نہیں سکتی ہیں، اس لیے مشترکہ تعاون کی ضرورت ہے، اس سے یورپی یونین کی کامیابی محدود ہوجائے گی یا ناکامی کا منھ دیکھنا پڑے گا، ظاہر ہے کہ علامتیں اچھی نہیں ہیں۔

یورپی یونین جلد ختم نہیں ہوگا، کیوں کہ علاقائی اور عالمی تنظیمیں مرنے والی نہیں، لیکن یا تو ان میں ترقی ہوگی یا زوال کا شکار ہوں گی، گذشتہ سالوں کے مقابلے میں یورپی یونین کو اب سب سے زیادہ خود کو از سر نو تیار کرنے کی ضرورت ہے، اور ایسا ہونے کے اثرات نظر نہیں آرہے ہیں، اگر ہم یورپی نظریہ کی مخالف بائیں بازو کے انتہا پسندانہ نظریہ کی ترقی کو فرض کرلیں تو اس بات کی توقع کی جاسکتی ہے کہ معاشی مفادات یا سیاسی رجحانات میں یکسانیت رکھنے والی یا قریبی حکومتوں کے درمیان یورپی یونین کے اندرالگ الگ گروپ بنیں گے، اس میں بڑی مدت لگ سکتی ہے، ان کو یورپی یونین کی ایسی قیادت کا انتظار رہے گا جو اسے ترقی دے کر یورپ کے مفادات کو بہتر انداز میں قائم کرنے میں کامیاب ہوجائے، یہ کام کرنے کی صلاحیت صرف ایک ہی ملک کے پاس ہے اور وہ ہے جرمنی، لیکن یہ ملک سیاسی بحرانوں کا شکار ہے، جن کا سبب انتہا پسند بائیں بازو کی جماعتیں ہیں۔

حکومت کی درندگی میں اضافہ ہوتا جائے گا
کورونا کے بعد کا زمانہ جو طویل بھی ہوسکتا ہے اپنی حد تک محدود رہنے کا زمانہ ہوگا، فقیری کا خوف چھا جائے گا، قومی اور نسلی تعصب کے رجحانات بڑھ جائیں گے، جس کی وجہ سے خانہ جنگیاں شروع ہوجائیں گی، اور کبھی یہ خانہ جنگیاں دوسرے ملکوں کی سرحدیں بھی پار کرلیں گی، ہم یہاں آنے والے دنوں میں حکومت اور امن وامان قائم رکھنے والے اداروں کی کارکردگی پر ہونے والے اثرات بیان کرنا چاہتے ہیں۔

خوف اور کشیدگی کی فضا کے نتیجے میں لوگ رضاکارانہ طور پر امن وامان کی خاطر اپنی آزادیوں سے دست بردار ہوجائیں گے، ہم نے اس کو گذشتہ دنوں میں دیکھا ہے، یہ بات صحیح ہے کہ غیر معمولی کارروائیاں اکثر ملکوں نے کی ہے،اور غیر معمولی صلاحیتوں کا استعمال کیا ہے، کیوں کہ یہ وبا عمومی مصیبت کے دائرے میں آتی ہے، لیکن اس کے دور رس نتائج ہرگز اچھے نہیں ہوں گے، کیوں کہ حکومتیں عام طور پر اپنی واجبی ضرورت کے ختم ہونے کے بعد ہی غیر معمولی صلاحیتوں کو اپناتی ہیں، کورونا کے مقابلے کی ضرورت صحت عامہ کو برقرار رکھنے اور وائرس کو پھیلنے سے روکنے سے بڑھ کر معاشی زوال کو روکنے کی ضرورت تک پہنچ جائے گی، اس کے نتیجے میں جرائم بڑھ جائیں گے، پھر حکومت کو تمام معاملات کو اپنے ہاتھوں میں مکمل طور پر لینے کے بہت سے جواز حاصل ہوں گے۔

اس سے بھی خطرناک پہلو یہ ہے کہ لوگوں کی باقی ماندہ پرائیویسی(ذاتیات اور خصوصیات) سے واقف ہونے کے لیے اسمارٹ ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے گا، آج ہم ایسے مرحلے میں پہنچ چکے ہیں کہ پرائیویسی پر زیادتی مذموم خانے سے محمود خانے میں آجائے گی، کورونا کی مصیبت میں اتھارٹیوں کا اس وجہ سے شکر ادا کیا جارہا ہے کہ وہ لوگوں کو جاننے اور جگہوں کی تعین کرنے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کررہے ہیں، یہ سب وائرس کو گھیرنے کے لیے کیا جارہا ہے، اس بیماری کو گھیرنے میں چین کے کامیاب تجربے کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی ہے، اور دنیا کی دوسری حکومتیں بھی چین کی اس معاملے میں پیروی کرسکتی ہیں، اور لوگوں کی حیاتیاتی تفصیلات سے واقف ہونے کے لیے نئے زیادہ طاقت ور سوفٹ ویر تیار کی جائیں گی، مثال کے طور پر ڈی این اے نقشہ، درجہئ حرارت اور بی پی وغیرہ، یہ معلومات ایسی ہیں کہ ان سے صرف انسان کی صحت سے واقفیت نہیں ہوتی ہے، بلکہ ان سے نفسیاتی مزاج کی بھی تعین کی جاسکتی ہے۔

دوسرا خطرہ غیر جمہوری طاقتوں کا حکومت تک پہنچنا ہے، اگر ہم فرض کرلیں کہ انتہا پسند بائیں بازو کی جماعتیں دنیا کے بہت سے ملکوں میں حکومت اپنے ہاتھوں لینے میں کامیاب ہوجاتی ہیں تو ہمارے سامنے ایک دوسری ہی خوف ناک تصویر سامنے آئے گی، انتہا پسند حکومت پر قبضہ کرنے کے تمام وسائل پر قبضہ کرلیں گے اور لوگوں کی پرائیویسی اور افکار ونظریات پر مکمل حاوی ہونے کی طرف چل پڑیں گے، بلکہ یہ خطرہ بڑھ کر ملک کی سرحدوں سے بھی آگے بڑھ جائے گا، اور دنیا کو قومی اور نسلی تعصب کی علم بردار حکومتوں کی وجہ سے سخت ترین خطرہ لاحق ہوجائے گا۔

مستقبل میں خیر کی امید
ہماری دنیا کو اور اس پر بسنے والے ہر انسان، جانور اور نباتات کو عالمی نظام کی وجہ سے دشواریوں کا واسطہ پڑا ہے، اس نظام نے ایسے معاشی حرص ولالچ اور فوجی جنگل راج کو پیدا کیا ہے جس کی مثالیں تاریخ میں نہیں ملتی، حکومتوں نے موت کے ہتھیار بنانے کے لیے کھربوں ڈالر خرچ کیے اور زمین کی پیداوار کی صلاحیت کو چوسنے میں آخری حد تک پہنچ گئے، جس کی وجہ سے فطرت کا مستحکم توازن بگڑ گیا، یہ سلسلہ جاری رہا، یہاں تک کہ زمین کو بیماریاں لگ گئیں اور یہ بیماریاں سیلاب، آندھیوں اور آگ کے بگولوں کی شکل میں انسانوں پر آئیں، پھر کورونا آیا تاکہ فطرت کے مقابلے میں انسانیت کا غرور کی حقیقت کو سامنے لائے، اس کے باوجود انسانیت کو کچھ بھی عبرت نہیں ہے اور وہ اپنے مستقبل کے بارے میں سوچ بھی نہیں رہی ہے۔

انسانیت کو ان حالات میں کون سے نظام کی ضرورت ہے؟
عالمی نظام جو اب لڑکھڑا رہا ہے، یہ نظام نہ زمین پر رحم کررہا ہے اور نہ مخلوقات پر، اس لیے اس نظام کا زوال انسانیت کے لیے ایک موقع ہے کہ اس کے مقابلے میں ایک عادلانہ اور منصفانہ نظام کا تجربہ کیا جائے۔

جس عالمی نظام کی امید ہے وہ ایک نیا اصولوں پر مشتمل  نظام ہے، کیوں کہ مغربی لیبرل نظام نے لوگوں کو آزادی، مساوات اور قانون کی حکومت کا وعدہ تو کیا تھا، لیکن وہ اپنا وعدہ نبھا نہیں سکا،اور اب وہ اپنی از سو نو تعمیر سے خود کو عاجز پارہا ہے، کیوں کہ ایک زمانے سے وہ زوال کی حالت میں ہے، کیوں کہ یہ نظام اپنے اصولوں اور انسانیت اور عام لوگوں کے حقوق ادا کرنے میں ناکام ہوچکا ہے، اور زمانہ گزرنے کے ساتھ طاقت ور اداروں کے ہاتھوں تسلط کا ذریعہ بن گیا ہے، اس لیے اس کا انجام بھی وہی ہوگیا ہے جو سبھی اصولوں کا ہوتا ہے جو طاقت کے مراکز کے ہاتھوں وسائل کی شکل اختیار کرجاتے ہیں۔

اصولوں کے نئے نظام کا عالمی انسانی بنیادوں پر قائم رہنا ضروری ہے، جو اچھائی کی مدد کرے چاہے جہاں بھی ہو، فطرت کا اعتبار اور انسان کا احترام واپس لے آئے، اگر ہم انتہا پسند بائیں بازو کے رجحان کی ترقی کی پیشن گوئی کرتے ہیں تو اس سے امن وامان کو استقرار حاصل نہیں ہوگا اور نہ کوئی معاشی ترقی ہوگی، اور زمانے کے بحرانوں کا کوئی حل پیش نہیں کیا جائے گا، بلکہ خوف اور ناامیدی کا ماحول ہوگا، اس وجہ سے یہ رجحان بڑی مدت تک باقی نہیں رہے گا، بلکہ وقتی ہوگا، اور تھوڑی مدت گزرنے کے بعد دنیا کے سامنے اس کی ناکامی ظاہر ہوجائے گی اور اس وقت لوگ یسے نظام کی تلاش میں نکلیں گے جو انسانی اور منصفانہ ہو۔

اس دوران مومنوں کی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ وہ انصاف کے اصولوں کو سامنے لانے کے لیے کوشاں ہوجائیں اور سرگرم و متحرک عالمی اتحاد قائم کریں، ایسا اتحاد جس میں تمام قوموں اور ادیان کے لیے امید کی کرن ہو، جس میں تنوع اور تعددیت کا یقین ہو، اس میں کسی بھی ایک تہذیب کو مرکزی حیثیت حاصل نہ ہو، اور یہ نظام اپنا تسلط قائم کرنے والی عالمی قوتوں کے ہاتھ میں ہتھیار اور کھلونہ نہ بنے۔

کورونا کے بعد والی دنیا نہ منصفانہ اور عادلانہ ہوگی اور نہ امن وامان والی، لیکن جلد ہی یقینی طور پر ایسے متبادل کی طرف لے جائے گی جومتبادل زیادہ عادلانہ اور منصفانہ ہوگا، ہوسکتا ہے کہ اس کے لیے وقت لگے، کیوں کہ ہمیں تاریخ سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ بھلائی کبھی مرتی نہیں ہے، کبھی تھوڑے وقت کے لیے پیچھے ہٹ جاتی ہے، لیکن برائی کی طغیانی بھلائی کے بیدار ہونے کے لیے سب سے بہترین اور بڑا محرک ہے۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا  ضروری نہیں۔ 
10/  اپریل 2020

«
»

گودی میڈیااورصحافت کے عصری تقاضے

اے صاحب ایمان ! تیری سادگی پہ رونا آیا !!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے