زندگی کے طوفانوں کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟

ترتیب:عبدالعزیز

    زندگی کی کامیابی و کامرانی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ زندگی کے ضابطوں کو سمجھا جائے، انہیں ذہن نشین کیا جائے اور موقع بہ موقع انہیں استعمال میں لایا جائے۔ زندگی کے قوانین بے شمار ہیں جن کا مکمل احاطہ ناممکن ہے۔ اگر ان کو لوحِ ذہن پر نقش کر لیا جائے اورروز مرہ زندگی میں ملحوظِ خاطر رکھا جائے تو زندگی میں آنے والے مصائب اور مشکلات کے طوفانوں کا مقابلہ بڑی آسانی سے کیا جاسکتا ہے، جس کے نتیجے میں زندگی کا سفر آسان ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت خوشگوار بھی ہو سکتا ہے۔ 
    اپنے آپ کو مضبوط بنائیں:زندگی کی مشکلات اور طوفانوں کا مقابلہ کرنے کیلئے چھٹا اصول یہ ہے کہ ہمیں اپنے آپ کو مضبوط بنانا ہوگا۔ اس دنیا کا اصول یہ ہے کہ جہاں بھی دو افراد کے درمیان ٹکراؤ (Clash) یا مقابلہ (Competition) ہوتو ہمیشہ وہ غالب آتا ہے جو زیادہ طاقتور،  توانا اور مضبوط ہو۔’ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات‘
    کسی مردِ دانا سے پوچھا گیا کہ ”بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو کب تک کھاتی رہے گی؟“ اس نے جواب دیا کہ ”جب تک چھوٹی مچھلی اپنے آپ کو اتنا بڑا نہیں کرلیتی کہ وہ بڑی مچھلی کے منہ میں نہ آسکے“۔انگریزی زبان کا ایک نہایت ہی بامعنی جملہ ہے:
A man cannot ride your back unless it is bent.
”کوئی آدمی آپ کی کمر پر اس وقت تک سوار نہیں ہوسکتا جب تک یہ جھکی ہوئی نہ ہو“۔
    حقیقت بھی یہی ہے کہ جب بھی کوئی شخص کسی حوالے سے ہمارے اوپر غالب آرہا ہوتا ہے تو یہ صورت حال ہماری کسی نہ کسی کمزوری کا ہی نتیجہ ہوتی ہے۔ اگر وہ کمزوری ہمارے اندر نہ ہوتی تو اسے یہ موقع کبھی نہ مل سکتا۔ اس کی مثال یوں ہے کہ آندھیاں اور طوفان جب آتے ہیں تو گھاس پھونس اور تنکے ادھر ادھر اڑتے پھرتے ہیں لیکن پہاڑ اپنی جگہ پر جمے رہتے ہیں۔ شدید بارشیں کچے مکانات کو گر ادیتی ہیں لیکن مضبوط قلعے اور پختہ عمارتیں اپنی جگہ پر قائم رہتی ہیں۔یہی اصول یہاں بھی رائج ہے جتنے زیادہ ہم طاقت ور ہوں گے اتنے ہی زیادہ احسن طریقے سے زندگی کے طوفانوں کا مقابلہ کرسکیں گے اور ان پر غالب آسکیں گے۔ اس کے برعکس جتنے ہم کمزور ہوں گے اتنے ہی طوفانوں کے مقابلے میں شکست کھائیں گے۔ بقول حضرت واصف علی واصف: ”غم کمزور انسانوں کا راکب (سوار) ہوتا ہے اور طاقتور انسانوں کا مرکب (سواری)“۔
    سوال یہ ہے کہ اپنے آپ کو مضبوط بنانے سے مراد کیا ہے؟ اس سلسلہ میں پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ ہم خود کیا ہیں؟ ہم تین چیزوں کا مجموعہ ہیں:
    جسم-ذہن- روح: یہ تین اکائیاں ملتی ہیں تو وہ وحدت وجود میں آتی ہے جسے انسان کہا جاتا ہے۔ انسانی شخصیت خالی جسم، ذہن یا روح میں سے کسی ایک کا نام نہیں ہے بلکہ ان تینوں کے مجموعے کا نام ہے۔ سب سے نیچے جسم ہے، اس سے اوپر ذہن اور اس سے اوپر روح کا درجہ ہے۔ یہ تینوں چیزیں ایک ہی شخصیت کا حصہ ہونے کی بنا پر ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح جڑی ہوئی ہیں کہ ایک دوسری کو متاثر کرتی بھی ہیں اور ہوتی بھی ہیں۔ ایک کی کمزوری دوسری دونوں کو بھی کمزور کرتی ہے اور ایک کی طاقت دوسری دونوں کی بھی تقویت کا باعث بنتی ہے۔ اپنے آپ کو مضبوط بنانے کا مطلب یہ ہے کہ یہ تینوں حصے مناسب حد تک طاقتور اور صحت مند ہوں اور قوت و طاقت کا ذخیرہ اپنے اندر لئے ہوں۔ ہر ایک کے پاس اتنی توانائی (Energy) ہو جو زندگی کی گاڑی کو آسانی کے ساتھ رواں دواں رکھ سکے اور مسائل کے مقابلے میں جم کر ٹھہر سکے۔ آیئے ان تینوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
    سب سے پہلے جسم کا صحت مند ہونا ہے۔ صحت مندی سے مراد یہ نہیں کہ انسان بہت زیادہ موٹا تازہ اور پہلوان ہو بلکہ اس سے مراد جسم کے تمام اعضاء کا مناسب تندرستی کی حالت میں ہونا اور اپنے اپنے فرائض کو بطریق احسن سرانجام دینے کے قابل ہونا ہے۔ اگر جسم ہی بیمار ہے تو پھر ذہن بھی بیمار ہے کیونکہ”ایک صحت مند جسم میں ہی صحت مند دماغ ہوتا ہے“۔
    ایسے ہی پژمردہ جسم کے اندر روح بھی مرجھائی رہتی ہے۔ اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:”اللہ کے نزدیک طاقت ور مومن، کمزور مومن کی نسبت زیادہ زیادہ محبوب ہے“۔(صحیح مسلم، 4: 2052، الرقم: 2664)
    جسم کی صحت کیلئے متوازن غذا، مناسب ورزش، معتدل نیند، کام اور آرام میں توازن اور حفظان صحت کے دیگر اصولوں کا خیال رکھنا چاہئے۔ یہ کوئی ایک دن کا کام نہیں ہے۔ جسم ایک دن میں نہ بن سکتا ہے اور نہ بگڑ سکتا ہے۔ یہ آہستہ آہستہ ہی بنتا اور آہستہ آہستہ ہی بگڑتا ہے۔ جتنا آپ گڑ ڈالتے چلے جائیں گے اتنا میٹھا ہوتا جائے گا۔
    جسم کے بعد ذہن ہے جس کے ساتھ عقل کا تعلق ہے۔ مسائل کی گتھیاں براہ راست ذہن نے ہی سلجھانی ہوتی ہیں۔ لہٰذا ذہن جتنا صحت مند، توانا اور تروتازہ ہوگا، اتنا ہی مسائل آسانی سے حل کرسکے گا اور جتنا کمزور اور لاغر ہوگا اتنا ہی مسائل کے حل میں بے بس اور لاچار ہوگا۔ ذہن اور عقل کو مضبوط بنانے کیلئے متواتر مطالعہ، علم میں پختگی، غورو فکر، ذہین اور عقل مندوں کی صحبت میں بیٹھنا اور بے وقوفوں کی صحبت سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔ نیز ذہن کو مضبوط کرنے والی دیگر متفرق تدابیر کو اپنانا اور ذہن کو کمزور کرنے والی چیزوں سے اجتناب ناگزیر ہے۔
    ذہن کے بعد روح ہے جو دکھائی تو نہیں دیتی ہے مگر سارے کمالات اسی کے دم قدم سے ہیں۔ جہاں روح ساتھ چھوڑ جاتی ہے وہیں جسم اور ذہن کی ساری صلاحیتیں منجمد ہوجاتی ہیں۔ جسم اگر صحت مند بھی ہو، ذہن بھی اچھی حالت میں ہو لیکن روح کمزور اور لاغر ہو تو انسان کیلئے نازک حالات میں اپنے آپ کو سنبھالنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ کے بڑے بڑے سورماؤں کا جب آخری وقت آیا تو انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے اور بڑی بے بسی کی حالت میں دنیا سے گئے لیکن دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ اولیاء کرام اور نیک لوگ جنہوں نے اپنی روح کو طاقتور بنالیا ہوتا ہے وہ موت کو بھی بڑے بہادرانہ انداز سے خوش آمدید کہتے ہیں۔
    روح کو طاقتور بنانے والی چیز تعلق باللہ ہے اور اس کی غذا عبادات نماز، روزہ، تلاوت قرآن، ذکرو فکر، صدقہ و خیرات اور نیکی و بھلائی کے دوسرے کام ہیں۔
    یوں تو ہر ایک کی مضبوطی اور کمزوری میں کئی چیزوں کا کردار ہے۔ تاہم دو چیزیں ایسی ہیں جو ان تینوں کی کمزوری اور طاقت میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں:
    کھانا – جنسی اختلاط: جتنا ہم ضرورت سے زیادہ کھائیں گے اور مضر صحت اشیاء کھائیں گے اتنا ہی یہ تینوں حصے کمزور ہوں گے اور جتنا اعتدال اور توازن سے کھائیں گے اور مفید غذائیں کھائیں گے اتنا ہی یہ مضبوط ہوں گے۔ اسی طرح مردانہ قوت کی صورت میں جو مادہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر رکھ دیا ہے وہ جوہر حیات ہے۔ جتنا زیادہ اسے بے اعتدالی سے خرچ کیا جائے گا اتنا ہی انسان تینوں حوالوں سے کمزور ہوگا اور جتنا اس کی حفاظت کی جائے گی اتنا ہی انسان مضبوط ہوگا۔
    مندرجہ بالا دو چیزوں کے ساتھ اگر ایک چیز اور شامل کرلی جائے تو سونے پر سہاگہ ہے اور وہ ہے ”گفتگو پر کنٹرول“۔ سائنس کی رو سے گفتگو توانائی کی ایک شکل ہے۔ جتنا زیادہ فضول اور بے مقصد گفتگو کریں گے اتنا ہی توانائی خرچ ہوگی اور عمل کی صلاحیت کمزور ہوتی چلی جائے گی۔ جبکہ گفتگو میں احتیاط انسان کی صلاحیتوں کو منضبط رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے جس سے مسائل کو احسن طریقے سے حل کرنے میں مدد ملتی ہے۔
    پرسکون رہیں:زندگی کے طوفانوں کا مقابلہ کرنے کیلئے ساتواں اصول یہ ہے کہ کیسی ہی مصیبت و مشکل کا سامنا ہو اور مایوس کن صورت حال ہو لیکن اپنے ذہنی اور قلبی سکون کو برقرار رکھیں اور بالکل نہ گھبرائیں۔ گھبرانے کا فائدہ تو بالکل کوئی نہیں ہے نقصان البتہ بہت زیادہ ہے۔ بقول حضرت واصف علی واصف:”مسائل کو حل کرنے کیلئے جب انسان پریشان ہوتا ہے تو مسائل کوحل کرنے کی طاقت سلب کرلی جاتی ہے“۔
    اگر ہم غور کریں کہ آج تک کیا ہم نے پریشانی اور گھبراہٹ کی حالت میں کوئی کام سنوار لیا ہے؟ جب بھی کوئی معاملہ سلجھا ہے تو ایسا صرف پرسکون ذہنی کیفیت ہی سے ممکن ہوا۔ یہی بات یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ پریشان ہونا کسی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ جب ہم مسائل کے پیش آنے پر گھبرا جاتے ہیں تو ان کا سائز بڑا ہونے لگتا ہے، وہ پہاڑ بن جاتے ہیں اور ہم رائی۔ نتیجہ ان کی فتح اور ہماری شکست کی صورت میں نکلتا ہے، لیکن جب ہم مسائل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتے ہیں تو پھر وہ چھوٹے ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور ہم بڑے۔ جس کے نتیجے میں ہم ان پر غالب آجاتے ہیں۔ ؎
    قرآن مجید کہتا ہے:”اور تم ہمت نہ ہارو اور نہ غم کرو اور تم ہی غالب آؤ گے اگر تم (کامل) ایمان رکھتے ہو“۔(آل عمران: 139)
    جب ہم کسی بھی ناگہانی صورت حال کا شکار ہوتے ہیں تو اچانک پریشانی کی ایک لہر خودبخود اندر سے اٹھتی ہے جو سارے جسم میں سرایت کرجاتی ہے اور ہماری طاقتوں اور صلاحیتوں کو منجمد کردیتی ہے۔ اس لہر کو کنٹرول کرنا ہے تاکہ ہم قائم رہ سکیں۔ تاریخ کے اندر جتنی بھی نامور شخصیات دکھائی دیتی ہیں ان سب میں یہ بات مشترک ہے کہ وہ ہر قسم کے حالات میں اپنے اندرونی حوصلے کو برقرار رکھنا جانتے تھے۔
    سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ جب کوئی مصیبت آتی ہے تو اس کے نتیجے میں آنے والی پریشانی غیر اختیاری ہوتی ہے، اسے کیسے کنٹرول کیا جاسکتا ہے؟ جواب یہ ہے کہ اگر اس حوالے سے مذکورہ اور آئندہ آنے والی باتوں کو اچھی طرح ذہن نشین کرلیا جائے تو یہ کام نہایت ہی آسان ہے۔ علاوہ ازیں حضرت واصف علی واصفؔ کے مندرجہ ذیل جملے کو چند مرتبہ غورو فکر کرکے ذہن کا جز بنالیا جائے تو بوقت ضرورت اسے صرف یاد کرلینا پریشانی کی غیر اختیاری لہر کو کنٹرول کرنے کا آزمودہ نسخہ ہے:”پریشانی حالات سے نہیں، خیالات سے پیدا ہوتی ہے“۔ (جاری)

«
»

دہلی فسادات میں کجریوال حکومت کا مایوس کن رول اور رویہ

پھر سے اْجڑی دِلّی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے