طلبہ وطالبات کاتابناک مستقبل

مفتی صدیق احمد جوگواڑ نوساری گجرات
 

اس رنگ برنگی دنیا میں قدرت خداوندی کاعجیب کرشمہ ہےکہ لاتعدادمخلوق کُھلی فضامیں سانس لے رہی ہیں،نظام کائنات بھی بڑامنظّم چل رہاہے،چاند اپنےروشنی کےساتھ نکلتاہے،سورج بھی اپنی شعائیں پھیلاتاہے،غرض دنیا کی تمام مخلوق اپنے اپنےمفوّضہ کام میں لگی ہوئ ہے،یہ نظام کائنات اس بات کی طرف مشیر ہے کہ کوئ نہ کوئ ایسی ہستی ہے جواس نظام کوچلا رہی ہے،ذراساغورکرنےسےیہ بات عیاں ہوجاتی ہےکہ وہ ایک اللہ ہے جواس نظام کوچلانےوالااورتمام مخلوق کوپالنےوالاہے،وہ وہی اللہ ہے جس نے انسان کواشرف المخلوقات کےلقب سےنوازا،اورانسان کی پیدائش کامقصد عبادت قراردیا،اوراُنھیں دستورِحیات کی شکل میں قرآن مجید عطاکیا،تاکہ وہ اسکی روشنی میں زندگی گزارے،اوردستورِحیات کوعلمی جامہ پہنانے کے لیےخاتم الانبیاءحضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کومبعوث فرمایا،جوکہ رہتی دنیاتک کی تمام انسانیت کے لیےنمونہ ہے،قرآن مجید کی جامع تشریح کےلیے ہمیں احادیث مبارکہ کاتحفہ عطاکیا،اب انسان کوچاہیے کہ اپنےخالق کوپہچانے،اسکاکہنامانے،اورمنزّل من السماء شریعت کے عین مطابق زندگی گزارے،لیکن جب معلوم ہی نہیں ہوگا کہ شریعت کیاہے؟اللہ کےاحکام کیاہیں؟نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاطریقہ کیاہے؟توانسان کیسےاسکے مطابق زندگی گزارےگا؟
یادرکھیے!  جوقوم اپناتعارف بھول جائے اپنےمقصد کوکھوبیٹھے اوراپنےوقت کی قدرنہ کرے،وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتی ـ
اوراپنا تعارف معلوم کرنے کےلیے دینی تعلیم ازحدضروری ہے،کیونکہ قوموں کی تعمیر میں تعلیم کاایک بڑاکردار ہے،تعلیم کےذریعے ہی کسی بھی قوم کادل ودماغ بنایاجاتاہے،تعلیم انسان کو دیگر تمام مخلوق سے ممتاز کرتاہے،انسان کومہذّب زندگی گزارنے کاطریقہ سکھلاتاہے،انسانی زندگی کوسنوارنے میں تعلیم کابہت ہی اہم کردار ہے،تمام کامیابی وسربلندی کاابتدائ زینہ تعلیم ہے،نیز قوموں کےعروج وزوال کی داستان تعلیم میں مضمر ہے ـ
چنانچہ حدیث پاک میں بھی ہے کہ دینی تعلیم کاحاصل کرناہرمسلمان پر فرض ہے ـ
اس سے مراداتنی تعلیم جس سےحلال حرام کی تمیز ہوجائے ـ
یہ دنیادارالامتحان ہے،ہمیں مختصرساوقت دےکریہاں بھیجاگیاہے،اورامتحان میں کامیابی کےلیے جہاں دینی تعلیم کاحصول ضروری ہے،وہیں دنیامیں کچھ وقت گزارنےکےلیے دنیوی تعلیم بھی ضروری ہے،دراصل قرآن مجید دنیابھر کےتمام علوم کامرجع ہے،دنیاوآخرت کی تمام چیزیں اس میں موجود ہیں،یہ الگ سی بات ہے کہ اصل علمِ دین ہی نافع مطلق ہے،لیکن دنیوی علوم بھی زمانے کےاعتبار سے بہت ضروری ہے،جس وقت جس علم کی ضرورت ہواس علم کاحصول امت کےلیے ضروری ہوجایاکرتاہے،آج اگر مسلمانوں کوسائنس کی ضرورت ہوتواسےحاصل کرناواجبات میں سے ہوجائےگا،افسوس! موجودہ دور میں دینی اوردنیوی تعلیم میں فرق کیاجارہاہے،حالاں کہ دونوں میں حصول کااصل مدارصحّت نیّت پر ہے،جیسی نیت ہوگی اسی کےمطابق فیصلے ہوں گے،چونکہ اگر ہم دنیوی تعلیم کوالگ شمارکریں توپھرسوال یہ پیداہوگاکہ دنیوی تعلیم قرآن مجید میں نہیں ہے،حالاں کہ قرآن مجید نے ہی تمام علوم کوبنیادفراہم کیا، خواہ وہ دنیوی علوم ہویادینی ،اورموجودہ دورمیں دنیوی تعلیم کی بھی ضرورت پڑتی ہے،تعلیم یافتہ دانشوران طبقےمیں بات کرتے وقت،سرکاری نوکری کےلیے،اسکول وکالج میں پڑھانے کےلیے،بزنس اورکاروبارکےلیے، اب توتمام جگہوں پردنیوی تعلیم کی ضرورت پڑنےلگی ہے،لہٰذادنیوی تعلیم کاحصول بھی وقت کی ضرورت بن گیاہے،اسلیے اس سے بھی واقفیت ضروری ہے ـ
جیسا کہ ہم میں سےہرکس وناکس اس بات سے بخوبی واقف ہے کہ ہماری زندگی بہت ہی مختصر ہے،۵۰ /۶۰ سالہ زندگی لیکر ہم اس دنیامیں آئے ہیں، اب اس مختصر سے وقفے کوکارآمد بنانے کےلیے ہمیں اپنےوقت کوکام میں لاناہوگا،اورمحنت کرنی ہوگی،ورنہ تووقت پانی کی طرح گزرجائےگا،حالاں کہ وقت ایک قیمتی دولت ہے، وقت کی بہت اہمیت ہے،وقت ہی اصل زندگی ہے،اگرزندگی سےوقت کونکال دیاجائےتوکچھ بھی نہیں بچےگا،اسی لیے تووقت کوسونے سے بھی زیادہ قیمتی قراردیاگیاہے،چونکہ سونااگرکھوجائےتوبہت سارے پیسےجمع کرکےانھیں دوبارہ حاصل کیاجاسکتاہے،لیکن جب وقت نکل جائے تواسے دنیابھر کی دولت لگاکر بھی واپس نہیں لایاجاسکتاہے،آج کل لوگ وقت اورصحت ان دونوں چیزوں میں غفلت برت رہے ہیں،حالاں کہ وقت کی قدر کرنی چاہیےاسےکام میں لاناچاہیے،اوروقت کی حفاظت کے لیےہروقت کےلیےایک کام اورہرکام کےلیے ایک وقت متعین کرناہوگا،ہمیشہ اپنےآپ کومصروف رکھناہوگا،کیونکہ مشغول لوگ ہی کاموں کوانجام دیتے ہیں ـ
لہٰذاہمیں اپنے وقت کوکارآمدبنانےکےلیےذہنی طورپرمندرجہ ذیل تیاری کرنی ہوگی تب ہہ جاکر ہم مکمل طور پر کامیابی کے خواب کوشرمندئہ تعبیر کرسکیں گےـ
انسان کواپنےمستقبل کی فکر کرتے ہوئےایک مقصد متعین کرلیناچاہیے،کیونکہ بغیر مقصد کے ہم منزل مقصودتک کبھی نہیں پہنچ سکتے،مقصد ہی انسان کوکام پراُبھارتاہے،بغیرمقصد کےتوانسان گاڑی چلاکرکہیں جابھی نہیں سکتا،جب دنیا کاہرکام کسی نہ کسی مقصد کےحصول کےلیے ہوتاہے،توآخر ہماری ۵۰/۶۰ سالہ زندگی بھلاکیسےبےمقصد ہوسکتی ہے؟ ـ
اورمقصدکی تعیین کےلیےاپنی صلاحیتوں کوپرکھناہوگا،چونکہ اللہ تبارک وتعالی نےہرایک انسان میں کوئ نہ کوئ ایسی فطری صلاحیت رکھی ہے،جس میں وہ دوسروں سےممتازہے،لیکن اس کاپتہ لگانےکےلیےتھوڑااپنےگریبان میں جھانک کردیکھناہوگا،اپنےبارےمیں سوچناہوگا،تب ہی جاکر پتہ چلے گا،ورنہ معلوم ہونامشکل ہے،اورجب تک فطری صلاحیت کاپتہ نہ چلےمحنت زیادہ کارگرثابت نہیں ہوگی ـ
اس کاطریقہ یہ ہے کہ سوچیں کہ ہمارادماغ کس فن کی طرف مائل ہے،کس طرح کی چیزوں کوقبول کرتاہے،کونسی چیز ایسی ہےجس میں دل ودماغ دلچسپی لیتاہے،اسکاپتہ لگاکراسی کےمطابق محنت کرنی ہوگی ـ
دنیاکی ہرچیزممکن اورآسان ہے،کوئ بھی چیز مشکل نہیں،بس ہماری سوچ اُسےمشکل بنادیتی ہے،جس وقت ہم نے سوچ لیاکہ یہ چیز آسان ہے،توسمجھ لیں کہ ۷۵ فیصد یہ معاملہ حل ہوگیا،اب بس ۲۵ فیصد محنت کرکےاُسےحاصل کرناہوگا ـ
نظم الاوقات ہو، یعنی ہرچیزکاایک وقت ہوناچاہیے،کوئ بھی وقت کام سےخالی نہ ہو،روزانہ کاٹائم ٹیبل بناہواہو،کہ فلاں وقت یہ کام کرناہے،کیونکہ نظام الاوقات کےمرتب نہ ہونے کی وجہ سےبہت سے کام یوں ہی رہ جاتے ہیں، اس میں مائنڈ سیٹ کابھی دخل ہوتاہے،کسی نےسوچ لیا کہ یہ چیزمجھےاتنےوقت میں یاد کرنے ہی،اوروہ ذہن بٹھالیتاہےکہ اگراس وقت میں یادکرلوں   توٹھیک ہے،ورنہ بعد میں کبھی موقع نہیں ملے گا،ایساشخص یکسوہوکر محنت کرتاہے،اورکامیاب ہوجاتاہے ـ
اگلاسبق خود دیکھ کرآنا،استاذکے سبق کوغور سےسننا،اورسبق اچھے سےیادکرنا،کلاس کی پابندی یہ تمام وہ بنیادی ضرورت ہے،جس کے بغیر کامیابی کاخیال بھی ناممکن ہے ـ
یکسوئ سب سےاہم اورضروری چیز ہے،بغیر یکسوئ کےپورادن یادکرنابھی ناکافی ہوگا،اوریکسوئ کےساتھ ذہن ودماغ کوحاضر رکھتےہوئےتمام کاموں کوچھوڑکرتھوڑاساوقت پڑھ لینا بھی کافی ہوجائےگا،عام طور سے یہی دیکھا جاتا ہےکہ طلبہ وطالبات کادھیان موبائل پر،یاکسی اورچیز پرلگارہتاہے،اورادھررسمی طورپرپڑھائ جاری رہتی ہے،مطالعہ چلتارہتاہے،جوکہ بالکل غلط ہے جس سے ذرہ برابر بھی فائدہ نہیں ہوتا ـ
مستقبل کی فکرکرتےہوئےاپنےآپ کوتیارکرناہوگا،اوراپنےاندراحساس ذمہ داری پیداکرنی ہوگی، بغیر احساس ذمہ داری کے بھی کچھ نہیں ہوسکتا،یعنی یہ خیال ہمیشہ ستائے کہ مستقبل میں ہمیں جید عالم،ڈاکٹروغیرہ بنناہے،اسکےلیےابھی سے محنت کرنی ہوگی  ـ
جہدِمسلسل کوجاری رکھناہوگا،بغیرکوشش ومحنت کےکچھ ہاتھ نہیں آسکتا،استقامت کےساتھ چھوٹاساکام بھی بڑابن کراہم سبق دے جاتاہے،جب کہ استقامت کےبغیربڑے بڑے سے بڑے کام کی بھی کوئ وقعت نہیں رہتی ـ
یاد رکھیے! کامیابی دراصل نام ہے،ایک مقصدکوحاصل کرکےدوسرے مقاصدکےلیے ہمیشہ کوشاں رہنےکا،اورناکامی درحقیقت ناکامی نہیں ہوتی ہے،بلکہ کوئ سبق ملتاہے،یا کامیابی کی راہیں ہموارہوتی ہے ـ
کامیابی کےلیے یہ چارچیزیں بہت ضروری ہیں؛
خود اعتمادی:اپنےاندر یہ احساس پیداکرلیں کہ ہم کچھ بن سکتےہیں،اوربہت کچھ کرسکتےہیں،کوئ بھی چیزہمارے لیےناممکن نہیں، یہ خوداعتمادی ہم سے احساس کمتری،مرعوبیت،ذہنی الجھن،خوف،مایوسی،اورجھجھک کونکال پھینکےگی ـ
تخلیقی کردار:خدادادصلاحیت،جسکی بدولت انسان بہت ترقی کرتاہے،جسےفطری صلاحیت بھی کہاجاتاہے،کیونکہ اس صلاحیت میں وہ منفردہوتاہے،خدانےہرایک میں الگ الگ صلاحیت ودیعت رکھی ہے،جس کاپتہ صرف غوروفکرکرنےوالے ہی لگاسکتےہیں ـ
اچھے اخلاق:اچھےاخلاق انسان کےلیےافہام وتفہیم کی راہ ہموار کرتےہیں،نیز اسکی  وجہ سے انسان ہردلعزیز رہتاہے،ہرایک اس سےفائدہ اٹھاتے ہیں،لوگ اس سے قریب ہوتےہیں،اوراسےاپنےقریب رکھتےہیں،جس میں فریقین کافائدہ ہوتاہے،اوراخلاق کی وجہ سےغیرمسلم اسلام میں داخل ہوتےہیں ـ
بات دوسروں تک پہنچانے کی صلاحیت: انسان کےپاس علم بہت زیادہ ہو،لیکن اسےکسی کوتحریراً یاتقریراً پش نہ کرسکتاہو،اسے کسی کواس طرح سمجھانہ سکتاہو کہ سامنےوالامطمئن ہوجائے،توآخرایساعلم دوسروں کوکس طرح فائدہ پہنچائےگا،حالاں کہ علم کوسیکھنےکامقصد ہی ہے،دوسروں تک پہنچانااورعمل میں لانا،لہٰذا مقصدمیں کامیابی کےلیے،ہمیں دوسروں تک اپنی باتوں کوپہنچانے کاطریقہ سیکھناہوگا ـ
حصول علم میں حیاءاورکبر یہ دونوں سخت مانع ہیں، اسلیے احساس برتری اورخوش فہمی سے نکل کر ہمیں متواضع رہناہوگا،اپنے قول وفعل پراخلاص کارنگ چڑھاناہوگا،محاسبہ بھی جاری رکھناہوگاـ
محاسبہ: جیساکہ ہم آج کل دیکھتے ہیں کہ ایک چھوٹا ساتاجر بھی روزانہ ہرہفتہ یاہرمہینہ اپنی تجارت کاحساب کرتارہتاہے،اگر اسے نقصان محسوس ہوتاہے،توطریقئہ کاربدل دیتاہے،یادوسری دوکان سےسامان خریدتاہے،لیکن ہم طلبہ وطالبات اپنی زندگی کوداؤپرلگارہےہیں، اپنے مستقبل کی کامیابی کےلیے ہم محاسبہ کیوں نہیں کرتے؟
ہمیں ضرور کچھ وقت نکال کرمحاسبہ کرناچاہیے کہ کیاہم صحیح رُخ پرجارہے ہیں؟ یاہماری گاڑی غلط رُخ پرچل رہی ہے؟ہم ترقی کر ہےہیں یاتنزّلی؟ہم میں صفات محمودہ آرہےہیں یاصفات مذمومہ؟ ہم نےمطالعے سے رشتہ توڑدیا یااب بھی ہمارامطالعہ جاری ہے؟ہم اپنے مستقبل کوسنوارنےکےلیےکیاکیاکررہےہیں؟
یہ ساری سوالات ان شاءاللہ ہمیں کام پرابھاریں، محنت پرکھڑاکریں گےاورہم کامیابی کی راہ پرچل پڑیں گے ـ

کسی شاعر نے کیاہی خوب کہاہے؛
بـے کوشش وبے جہد ثمر کس کوملاہے ـ
بـےغوطہ زنی گنج گہر کس کوملاہے ـ
بـےخوں پیئے لقمئہ ترکس کوملاہے ـ
بـےجورکشی تاج ظفرکس کوملاہےـ
بـےخاک کےچھانےہوئے زرکس کوملاہے ـ
بـےکاوش جاں علم وہنرکس کوملاہے ـ
جورتبئہ بالاکےسزاوارہوئےہیں ـ
وہ پہلےمصیبت کےطلبگاہوئے ہیں ـ

نوٹ:  مذکورہ مضمون بندہ کی ایک کتاب کی کچھ جھلک ہے،جو ان شاءاللہ عنقریب آنے والی ہے،آپ حضرات سے خصوصی طورپردعاؤں کی درخواست ـ

18 فروری ۲۰۲۰

«
»

’قوم پرستی‘ اور ’بھارت ماتا‘کا نشہ پلایا جارہا ہے

ہندوستان میں جمہوریت کا استحکام کیونکر ممکن ہوا؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے