اف یہ کیسی عید؟۔۔بربادیوں کے ملبے میں خوشیوں کی تلاش

وادئ کشمیر نے ابھی ایک قیامت کا سامنا کیا ہے اور اب اس سے باہر نکلنے کی کوشش میں ہے اور یہاں کے باشندے دوبارہ بکھری ہوئی زندگی کو سمیٹ رہے ہیں۔ دولاکھ لوگ پوری طرح سے بے گھر ہوچکے ہیں اور ان ۱۹ سرکاری ریلیف کیمپوں میں پناہ گزیں ہیں جو ایسے لوگوں کے لئے بنائے گئے ہیں۔ پندرہ ہزار گھر مکمل طور پر تباہ ہوچکے ہیں جن کی تعمیر کے لئے ہر مکان والے کو ۷۵ ہزار روپئے کے حساب سے سرکار دے رہی ہے جب کہ ریاست کی معیشت کا ایک لاکھ کروڑ کے نقصان کااندازہ ہے۔لال چوک سے گزرنے والے ایک راہ گیر جاوید میرمیڈیا کو بتاتے ہیں کہ وہ یہاں فٹ پاتھ پر سامان بیچا کرتے تھے مگر آج یہاں نہ تو خریدار نظر آرہے ہیں اور نہ ان کے پاس فروخت کے لئے سامان بچا ہے۔ سب کچھ سیلاب کی نذر ہوگیا۔ انھوں نے مشکل سے اپنی اور اپنے خاندان کی جان بچائی ہے۔ زینہ کدل کے رہنے والے جاوید اب لال چوک میں دوبارہ اپنا وہی کام شروع کرنے کی کوشش میں ہیں مگر ان کے پاس پیسے کی کمی ہے۔وہ اس بار عید الضحیٰ کی تیاری بھی نہیں کر پائے اور صرف نماز دوگانہ پر اکتفا کیا۔ یہ کہانی ایک جاوید کی ہی نہیں ہے یہاں ہزاروں جاوید قدم قدم پر مل جائیں گے جو اپنی زندگی بھر کی کمائی ہوئی پونجی گنواچکے ہیں اور اب زندگی دوبارہ شروع کرنے کی جدوجہد میں لگے ہیں۔ لوگوں کی دکانوں اور مکانوں میں پانی گھس گیا اور پوری پوری منزل ڈوب گئی جس میں تمام سامان خراب ہوگئے۔ گھر کے فرنیچر اور دکان کا مال ،کچھ بھی نہیں بچا اور اب ان کے سامنے مسئلہ ہے زندگی کی گاڑی کو آگے بڑھانے کا۔ لوگوں نے خود تو مکانوں کی چھت پر چڑھ کر اپنی جانیں بچا لیں مگر سامان کہاں لے جاتے؟ادھر حکومت اور اس کے اہل کار اب بھی غائب ہیں اور تعمیر و باز آباد کاری کے کام میں جو تیزی آنی چاہئے ،وہ نظر نہیں آتی۔ مشکل کی اس گھڑی میں یہاں کے باشندے اپنی مدد آپ کر رہے ہیں ۔ قابل تعریف ہیں وہ کشمیری نوجوان جو محلے محلے لوگوں کی مدد میں لگے ہیں اور عزم وحوصلے ساتھ امدای کاموں میں جٹے ہوئے ہیں ۔وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ مرکزی سرکار سے راحت پیکیج مانگ رہے ہیں اوروزیر اعظم نریندر مودی سے مل کر ریاست کی تعمیر نو میں مدد کی اپیل کر رہے ہیں مگر ان کی حکومت اب بھی غائب ہے اور سرکاری عملہ کام کی ذمہ داری سے بھاگ رہا ہے۔آج نہ یہاں اسپتال بچے ہیں اور نہ اسکول۔ سرکاری آفس ابھی بھی اس لائق نہیں ہیں کہ وہاں کام ہوسکے۔ پینے کے لئے صاف پانی کا حصول اب بھی ایک بڑا مسئلہ ہے جب کہ بجلی کی سپلائی معمول پر نہیں آسکی ہے۔ 
لال چوک پر تباہی کے نشانات
جموں و کشمیر کے سیلاب نے اس پسماندہ ریاست کو اور بھی پیچھے ڈھکیل دیا ہے۔ اندازہ ہے کہ ریاست کا ۲۲ ہزار کروڑ کا نقصان ہوا ہے جس کی بھرپائی میں ایک مدت لگے گی۔ ایک ایک دکاندار کا کروڑوں کا مال پانی میں سڑ گیا اور حالات ایسے نہیں تھے کہ وہ اسے نکال سکتا۔ لال چوک پر واقع وانی آرٹس کے مالک نثار احمد وانی کا کہنا ہے کہ میری دکان نچلی منزل پر ہے اور پانی داخل ہونے کے سبب پوری دکان کا سامان خراب ہوگیا۔ ہم سب کچھ دیکھتے رہے مگر کچھ کر نہیں سکتے تھے۔ اس علاقے میں آٹھ فت تک پانی بھر گیا تھا اورکسی کے بس میں نہیں تھا کہ وہ اپنے مال کو ضائع ہونے سے بچالے۔ ان کے بیٹے رضوان احمد کی بھی پاس ہی میں ریڈی میڈ گارمنٹس کی دکان تھی جو اب پوری طرح برباد ہوچکی ہے۔ تما م کپڑے اور فرنیچر پانی میں کئی دن تک رہنے کے سبب سڑ گل گئے۔رضوان بتاتے ہیں کہ ان کا جو نقصان ہوا ہے وہ بچاس لاکھ کا ہے۔ اس قدر کمائی میں وقت لگتا ہے اور اس کاروبار میں ان کی برسوں کی کمائی لگی ہوئی تھی۔ اب ان کے پاس کچھ بھی نہیں بچا ہے۔ زندگی دوبارہ کیسے شروع ہو ،اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ 
لال چوک میں بیشتر دکانیں بند ہیں اور ان کے فرنیچر دھوپ میں سوکھتے نظر آتے ہیں۔ یہاں عیدالاضحی کی رونق ان دنوں شباب پر ہوتی ہے ، دکانیں سجی نظر آتی ہیں اور خریداروں سے بازار گلزار رہتا ہے مگر اب کوئی رونق نہیں ہے۔ ایک دکان دار احمد ڈار کا کہنا ہے کہ عید تو خوشی کا نام ہے،جب دل ہی خوش نہیں تو عید کیسی ؟ جن لوگوں نے اپنی زندگی بھر کی کمائی سیلاب میں بہادی اور اپنی نگاہوں کے سامنے سب کچھ لٹتے ہوئے دیکھتے رہے،ان کے لئے عید کا مطلب ہی کیا رہ جاتا ہے؟ وہ مزید بتاتے ہیں کہ ان کے ایک عزیزسیلاب کے دوران لاپتہ ہوگئے تھے اور اب تک ان کی کوئی کھوج خبر نہیں ہے۔ تمام رشتہ دار اسی غم میں مبتلا ہیں۔ پتہ نہیں ان کا کیا ہوا؟ تلاش جاری ہے۔ ایسے حالات میں دل نہیں چاہتا کہ عید منائیں۔ لال چوک کے مشہور کلاک ٹاور کے پاس کے رہنے والے علی محمد کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا تھا کہ جھیلم لال چوک پر بہہ رہی ہے۔ یہاں ہر طرف پانی ہی پانی تھا ۔ تمام دکانیں زیر آب تھیں ۔اس نفسی نفسی کے عالم میں کوئی کسی کا پرسان حال نہ تھا سب کو اپنی اپنی پڑی تھی۔ دکانوں کا سامان کہاں لے جائیں اور کیا کریں کسی کو سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ 
کیسے پورا ہو نقصان؟
سری نگر کے بٹمالو علاقے میں مدثر خاندان کا قالین اور سجاوٹ کے سازوسامان کا گودام تھا۔ انھیں پچھلے سال بڑا نقصان تب اٹھانا پڑا تھا جب شدید برف باری کے سبب ان کا گودام زمیں بوس ہوگیا تھا مگر اس بار تو انھیں اور بھی زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔ یہ گودام ایک منزلہ ہے اور پانی کی زد میں آگیا ہے۔ اس میں جو کچھ ساز وسامان بھرا ہو اتھا وہ سب سڑ گیا۔ اس کے مالک مدثر کا کہنا ہے کہ ابھی ہم گزشتہسال کے نقصان سے ہی باہر نہیں نکل پائے تھے کہ اس بار ہمیں دوسرا نقصان اٹھانا پڑا۔ اصل میں ہمیں کیا کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وادی میں اس قدر بارش ہوگی کہ سیلاب آجائے گا۔ یہاں کبھی ایسا نہیں ہوتا تھا لہٰذا کوئی بھی اس ناگہانی آفت کے لئے تیار نہ تھا۔ حالانکہ اس قیامت خیز بارش میں ایک اکیلے میرا ہی نقصان نہیں ہوا بلکہ ہزاروں لوگوں کا نقصان ہوا۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ یہاں لوگوں کی تیاری برف باری سے نمٹنے کے لئے رہتی ہے کیوں کہ یہ یہاں عام ہے اور ہر سال ہمیں اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے مگر بارش اور سیلاب اس علاقے کے لئے ایک ناگہانی آفت کی طرح تھیں۔ انھوں نے کہا کہ برف باری سے ہمارا نقصان ہوا تھا تو ہم نے سرکار سے کسی امداد کی مانگ نہیں کی تھی مگر اب تو ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے کہ اس دوہرے نقصان کی بھرپائی ہوسکے۔ ہم نے اس کا انشورنس بھی نہیں کرایا تھا۔ حالانکہ وہ اس نقصان کے باوجود سکون بھی محسوس کرتے ہیں کہ ان کے گھر کوئی جانی نقصان نہیں ہوا اور وہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے سب کو خیریت سے رکھا۔
سری نگر ایر پورٹ پر امتیاز حسین کی دکان ہے۔ وہ بہار کے رہنے والے ہیں۔ بلند مقام پر ہونے کے سبب ان کی دکان محفوظ رہی مگر یہاں کے تباہ کن سیلاب نے ان کے ذہن ودل پر بھی اثر ڈالا۔ وہ تباہی کی تصویر ایک شعر میں بیان کرتے ہیں۔
ہیں آنکھوں میں گرتے مکانوں کے منظر
گھٹا دیکھتا ہوں تو دل کانپتا ہے

امداد کی آڑ میں کرپشن کا کھیل
جموں وکشمیرکے لوگوں کو حکومت سے شکایت ہے کہ ان کی بروقت مدد نہیں کی گئی اور وہ کسی طرح اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوئے۔ حالانکہ عمر عبداللہ سرکار پوری طرح فیل ہوچکی تھی اور کہیں کسی سرکار کا اتہ پتہ نہیں تھا۔ حالات ایسے تھے کہ کسی کے پاس سیلاب سے نمٹنے کے لئے کوئی تیاری نہ تھی اور سرکاری ملازمین تو دور خود ریاست کے وزراء بھی غائب تھے۔ عمر عبداللہ ہیلی کاپٹر سے خوراک گراتے دکھائی دیتے تھے مگر لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ سب صرف فوٹو کھنچوانے کے لئے تھا۔ کسی کو کوئی سامان نہیں ملا۔ فوج نے ان کی مدد ضرور کی مگر اصل مدد تو یہاں کے نوجوانوں نے کی جنھوں نے اپنی جانوں کو خطروں میں ڈال کر دوسروں کی جانیں بچائیں۔ خود بھوکے رہ کر دوسروں کو کھلایا۔ حال ہی میں وزیر اعلیٰ نے وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی اور ریاست کے حالات سے آگاہی دینے کے ساتھ ساتھ ان سے مدد کی درخواست بھی کی۔ مرکز پہلے بھی مدد کا اعلان کرچکا ہے اور دوسری ریاستوں سے بھی جموں و کشمیر کے سیلاب زدگان کی مدد کے لئے رقم کا اعلان کیا جارہا ہے مگر اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ مدد ضرورت مندوں تک پہنچے گی؟ جن لوگوں نے کروڑوں کا نقصان اٹھایا ہے، انھیں کیا لاکھوں کی مدد بھی مل پائے گی؟ یہ سوال اس لئے اٹھ رہے ہیں کہ جموں و کشمیر ملک کی سب سے بدعنوان ریاستوں میں سے ایک ہے۔ یہاں سرکاری اعلانات تو ہوتے ہیں مگر عوام تک نہیں پہنچتے ہیں۔ امداد کا اعلان تو فاروق عبداللہ کے دور حکومت میں بھی ہواکرتا تھا مگر کبھی عوام کو اس سے فائدہ نہیں ہوا۔ سرکاری افسران یوں تو پورے ملک میں کرپٹ ہیں مگر جموں و کشمیر میں تو وہ اور بھی زیادہ کرپٹ ہیں۔ وہ کام کرنے کے لئے نہیں کام چوری کے لئے تنخواہ لیتے ہیں۔ یہاں بیوروکریسی، نوکر شاہ ،نیتا اور علاحدگی پسندسب کے سب عوام کو بیوقوف بناتے رہے ہیں اور عوام کے بھولے پن سے فائدہ اٹھاتے رہے ہیں۔ خواندگی کی شرح بہت کم ہے لہٰذا انھیں اس کام میں کوئی رکاوٹ محسوس نہیں ہوتی اور وہ آسانی سے بیوقوف بن جاتے ہیں۔ آج بھی وہی کھیل کھیلا جارہا ہے اور سیلاب زدگان کی مدد کی آڑ میں کرپشن کادھندا چل رہا ہے۔
(مضمون نگار ٹی وی پروڈیوسر اور رائٹر ہیں) 

«
»

’’ننگا نگر ‘‘جہاں کپڑے پہننے والے بیوقوف سمجھے جاتے ہیں۔

مودی کچھ زیادہ ہی سچ بولنے لگے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے