اسمبلی انتخابات کے نتائج ،بدل سکتے ہیں ملک کاسیاسی منظر نامہ 2019سے قبل راہل اور مودی کی سیدھی ٹکر

تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی

پانچ ریاستوں کے اسمبلی الیکشن، ہندوستان کے سیاسی منظرنامے میں تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہونگے؟ کیا انتخابات کے نتائج، نریندرمودی کے سحر کے خاتمے کا اعلان ہونگے؟کیا ان نتیجوں سے کانگریس کو اِک نئی زندگی ملنے والی ہے؟اصل میں اب تک جو سروے ہوئے ہیں،ان کے رزلٹ کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ بی جے پی کی حکمرانی والی تین ریاستوں میں بھاجپا کا برا حال ہونے والا ہے۔ اس کے بعد یہ سوال اٹھنا لازمی ہے کہ کیا یہاں بھاجپا مخالف طوفان دستک دے رہا ہے جو سونامی بن کر 2019میں مرکز کی بھگوا حکومت کو بہالے جائے گا؟ کیا ان ریاستی اسمبلیوں کے چناؤ 2019 لوک سبھا انتخابات کی راہ طے کرینگے؟ مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان کے ساتھ ساتھ مرکز میں بھی، بی جے پی اقتدارمیں ہے مگر ماضی قریب میں یہاں جتنے بھی ضمنی الیکشن ہوئے ہیں، ان میں بی جے پی کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔علاوہ ازیں حالیہ تقریباًتمام سروے اشارہ کر رہے ہیں کہ مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان میں بی جے پی کے لئے حالات سازگار نہیں ہیں اور اسے شکست کاسامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ان انتخابات کو 2019 سے پہلے سیمی فائنل کے طور پردیکھا جارہا ہے۔حال ہی میں ان تینوں ریاستوں میں سی ووٹر اور ABP نیوزنے عوام کے مزاج کو بھانپنے کی کوشش کی۔ اس سروے کے نتائج، بھاجپا کے خلاف کسی زبردست سونامی کا اشارہ کرتے ہیں جبکہ کانگریس کے لئے مژدۂ جانفزا لے کر آئے ہیں۔ یہ سروے ایسے وقت میں آیا ہے جب بیشتر میڈیا گھرانوں پر حکومت کے ساتھ ملی بھگت کا الزام لگ رہا ہے اور بھاجپا مخالف خبروں کو دبانے کی بات اٹھ رہی ہے۔یہ بات بھی دھیان میں رہے کہ جب دہلی میں میڈیا نے سروے نتائج میں کہا تھا کہ بی جے پی اور عام آدمی پارٹی کے بیچ کانٹے کی ٹکر ہے تب بی جے پی کو محض تین اسمبلی سیٹیں ملی تھیں اور بہار اسمبلی الیکشن میں میڈیا نے کانٹے کی ٹکر بتایاتھا توبی جے پی کو شکست فاش ہوئی تھی۔ 
مدھیہ پردیش میں ختم ہوگاشیو کا راج؟
الیکشن کی تاریخوں کے اعلان سے قبل سی ووٹر اور اے بی پی نیوزکی طرف سے کئے گئے سروے کے مطابق، کانگریس تینوں ریاستوں میں اکثریت کے ساتھ واپسی کرنے والی ہے۔ سروے کے مطابق مدھیہ پردیش اسمبلی انتخابات، اگر آج ہوئے تو بی جے پی کو 40222،کانگریس کو 42222 فیصد ووٹ مل سکتے ہیں، جب کہ دیگرکو 18222ووٹ ملیں گے۔ سروے کے مطابق مدھیہ پردیش اسمبلی کی کل 230 سیٹوں میں سے بی جے پی کو 106 اور کانگریس کو117 جاسکتی ہیں، جب کہ دیگرکو 7سیٹیں ملنے کا امکان ہے۔ یعنی 2013 کے مقابلے بی جے پی کو 59 نشستوں کا نقصان ہوسکتاہے۔
کانگریس کے لئے مصیبت کانگریسی
مدھیہ پردیش اسمبلی الیکشن کے لئے کانگریس پورا زرور لگائے ہوئے ہے جب کہ بی جے پی کسی بھی حال میں یہاں جیت حاصل کر 2019 کے لوک سبھا انتخابات کے لئے خود کو جیت کی دعویدار ظاہر کرنا چاہتی ہے۔ ریاست میں کانگریس کبھی متحد نہیں ہوئی تھی اور اس کے لیڈران، کبھی بھی ایک پلیٹ فارم پر نہیں آئے تھے مگر اب الیکشن کے پیش نظر اور مرکزی قیادت کے دباؤ میں، ان میں سے بیشتر ظاہری طور پر ایک ساتھ آگئے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اب بھی ان کے دل ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ دوسری طرف ریاست کے وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان جن آشیرواد یاترا کے ذریعے عوام کے قریب جانے کی کوشش کی مگر عوام میں جو سرکار مخالف لہر دکھائی پڑ رہی ہے ،اس میں شیوراج حکومت کے لئے بھنور سے نکلنا مشکل لگتا ہے۔ 
بی جے پی کے لئے منفی اشارے 
ماضی قریب میں مدھیہ پردیش کی،بعض شہری اکائیوں کے انتخابات ہوئے ہیں جہاں ووٹروں نے بی جے پی کو ایک بڑاجھٹکا دیا ہے۔اس الیکشن میں کانگریس نے 9 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی، جبکہ بی جے پی کو صرف 4 سیٹوں پرجیت مل پائی۔ایک سیٹ آزاد امیدوارکے کھاتے میں گئی۔ ظاہر ہے کہ یہ کانگریس،کے لئے اسمبلی انتخابات سے پہلے ایک اچھا اشارہ۔اس سے، بی جے پی کی پیشانی پر تشویش کی سلوٹیں آگئی ہیں۔ الگ الگ اکائیوں کی کل 14 نشستوں کے لئے انتخاب ہواتھا۔دوسری طرف سیاحتی مقام پچمڑھی کے بلدیاتی انتخاب میں، کانگریس نے بی جے پی کو بری طرح دھو ڈالا۔یہاں 7 نشستوں میں سے چھ پرکانگریس کے حمایت یافتہ امیدوارون کو جیت ملی جبکہ بی جے پی نے صرف ایک نشست حاصل کی۔
چھتیس گڑھ میں کس کی بنے گی سرکار؟
سی ووٹر کے سروے کے مطابق چھتیس گڑھ میں بھی بھگوا گڑھ کے منہدم ہونے کے آثار ہیں۔ یہاں اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کو 39222فیصد اور کانگریس کو 40222فیصد ووٹ جاسکتے ہیں جب کہ دیگر کو 21222 فیصد ووٹ مل سکتے ہیں۔ سروے کے مطابق چھتیس گڑھ کی 90اسمبلی سیٹوں میں سے بی جے پی کو 33 اور کانگریس کو 54 ملنے کے آثار ہیں، جب کہ دیگر کے حصے میں 3 جاسکتی ہیں۔ یہاں سابق وزیراعلیٰ اجیت جوگی اب بھی خاصے مقبول ہیں اور 17فیصد لوگ انھیں وزیراعلیٰ کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔اس وقت چھتیس گڑھ کے سیاسی گلیارے میں یہ بحث بھی جاری ہے کہ کانگریس سے الگ ہوکر جنتا کانگریس بنانے والے، چھتیس گڑھ کے سابق وزیراعلیٰ اجیت جوگی ،آنے والے اسمبلی انتخابات میں کس پارٹی کو نقصان پہنچائیں گے؟ اصل میں وہ اب بھی جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں مگر نقصان پہنچانے کی حالت میں ہیں اور انھیں بی ایس پی کا ساتھ بھی مل رہا ہے۔
راجستھان میں بی جے پی کا صفایا؟
راجستھان میں بھی سروے ہوا ،جہاں اگر بی جے پی کو 37222ووٹ جارہے ہیں تو کانگریس کو 51222 جا رہے ہیں جب کہ دیگر کو 12222فیصد ووٹ ملنے کے آثار ہیں۔ یعنی یہاں بھاجپا کی شکست زیادہ بڑی ہوگی۔سروے کے مطابق اسمبلی کی کل 200 سیٹوں میں سے بی جے پی کومحض 57 ملیں گی، جب کہ کانگریس 130 پر جیت حاصل کرسکتی ہے۔ سروے کے مطابق ریاست کے لوگ کانگریس کو صوبے میں اقتدار سونپنا چاہتے ہیں۔ اس سروے سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ موجودہ وزیراعلیٰ کو ریاست میں صرف 24فیصد لوگ ہی پسند کرتے ہیں۔ کانگریس لیڈر اور سابق وزیراعلیٰ اشوک گہلوت کو 41 فیصد ووٹر پسند کر ہے ہیں۔راجستھان میں کانگریس نے جیت کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا ہے جب کہ بی جے پی کی طرف سے اپنے اس مضبوط قلعے کو بچانے کی کوشش بھی جاری ہے۔وزیراعلیٰ وسندھرا راجے سندھیا کسی بھی حال میں اپنی کرسی کو بچانا چاہتی ہیں۔ حالانکہ کانگریس کی طرف سے الزام لگایا گیا ہے کہ بھاجپا اپنی جیت کو پکی کرنے کے لئے ووٹرلسٹ میں فرضی ناموں کو شامل کرچکی ہے۔ اس کے باجود کانگریس جیت کے تئیں پرامید نظر آرہی ہے۔ اس بیچ گزشتہ دنوں راہل گاندھی راجستھان کے کئی دورے کرچکے ہیں اور ان کے پروگرام میں بھیڑ کو دیکھتے ہوئے کانگریس کی جیت کے تئیں کانگریسیوں کی امیدیں بڑھنے لگی ہیں۔ 
کانگریس نے راجستھان میں 45 لاکھ فرضی ووٹر ہونے کا دعوی کرتے ہوئے، الیکشن کمیشن سے فورا ووٹرلسٹ کی جانچ کرانے کی درخواست کی ہے۔پارٹی جنرل سکریٹری اشوک گہلوت اور ریاستی صدر سچن پائلٹ کی صدارت میں راجستھان ریاستی کانگریس کے لیڈروں نے گزشتہ دنوں چیف الیکشن کمشنر سے ملاقات کر ایک میمورنڈم سونپا اور سپریم کورٹ بھی گئی مگر اس کی درخواست مسترد کردی گئی۔
وزیراعلیٰ کا امیدوارکون؟
جہاں ایک طرف بی جے پی نے تین ریاستوں کے موجودہ وزیراعلیٰ کو ہی آئندہ وزیراعلیٰ کے عہدے کا امیدوار بنایا ہے ، وہیں کانگریس نے کسی بھی ریاست میں وزیراعلیٰ کا چہر طے نہیں کیا ہے۔بی جے پی کی طرف سے باربار مطالبہ کیا جارہا ہے کہ کانگریس وزیراعلیٰ کا امیدوار بتائے مگر کانگریس نے واضح کیا ہے کہ وہ راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں وزیر اعلی کے امیدوار پر ابھی فیصلہ نہیں کرے گی۔ کانگریس جنرل سکریٹری اور ریاستی انچارج اویناش پانڈے نے کہا ہے کہ آئندہ اسمبلی انتخاب، راہل گاندھی کی قیادت میں لڑا جائے گا اور وزیر اعلی کا فیصلہ انتخابات کے بعد ہوگا۔پانڈے نے سابق مرکزی وزیر لال چند کٹاریا کے ایک حالیہ بیان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ پارٹی کے نظم و ضبط کو توڑنے والوں کو مستقبل میں کوئی ذمہ داری نہیں دی جائے گی۔ انہوں نے بات چیت میں کہا، انتخابات سے پہلے وزیر اعلی کے عہدے کے لئے کوئی چہرہ پیش نہیں ہو گا۔
الیکشن رزلٹ کے دور رس اثرات
یوں تو ملک میں پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات ہورہے ہیں مگر تین ریاستوں کے الیکشن زیادہ اہمیت کے حامل ہیں اور ان تینوں ریاستوں میں بی جے پی کا اقتدار ہے۔ تلنگانہ میں ٹی آرایس کی سرکار ہے اور یہاں بی جے پی کی دال گلتی نظر نہیں آتی۔ رہ گیا میزورم، جہاں کانگریس کی حکومت ہے مگر نارتھ ایسٹ انڈیا کی یہ ریاست چند لاکھ کی آبادی والی ہونے کے سبب سیاسی لحاظ سے غیراہم ہے۔مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور راجستھان میں سیدھے طور پر ملک کی دوقومی جماعتوں کا وقار داؤ پر ہے اور یہاں جیتنے والی جماعت عام انتخابات پراثرانداز ہوگی۔ ویسے بھی ان ریاستوں میں کانگریس کے پاس کھونے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے اور پانے کے لئے بہت کچھ ہے۔ جب کہ بی جے پی کے اندر شدید سراسیمگی نظر آرہی ہے۔ اس کا ایک سبب وزیراعظم نریندر مودی اور پارٹی صدر امت شاہ کی ریلیوں میں بھیڑ کی کمی بھی ہے۔ 
(مضمون نگار کی رائے سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے 
29؍اکتوبر2018(ادارہ فکروخبر)

 

«
»

دہشت کا سناتن چہرہ

کچی سبزیاں اور ان کے کرشماتی اثرات

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے