ابھی تک پاؤں سے چمٹی ہے زنجیریں غلامی کی

ذوالقرنین احمد

 

ہندوستان میں ۷۲ ویں یوم آزادی کی تیاریاں بڑے زور و شور سے جاری ہیں کہی اس ملک کی بیٹی اپنے ہاتھوں کو حنا سے رنگ رہی ہے کہی معصوم بچے ننھے ننھے ہاتھوں میں ترنگے لئے خوشی سے حب الوطنی کے گیت گاتے ہوئے جھوم رہے ہیں، سرکاری غیر سرکاری اداروں میں سجاوٹ کی جارہی ہے، کہی ثقافتی پروگرام منعقد کئے جارہے ہے پورہ ملک یوم آزادی کی خوشیوں میں شامل ہے، لیکن یہاں ایک بات کھٹکتی ہے کہ کیا ہم آزاد ہیں؟ یہاں آزادی سے کیا مراد ہے، آزادی کا مطلب ہر شخص کو کھولیں فضا میں سانس لینے کا حق ہے، اسکوں اپنے مذہب پر چلنے پر پوری آزادی ہونی چاہیے آزادی ہر انسان کا پیدائشی حق ہے کیونکہ انکی ماؤں نے انہیں آزاد جنا ہیں، اور کوئی غیرت مند شخص کسی کی غلامی میں رہنا پسند نہیں کرتا ہمارے ملک پر جب انگریزوں کا تسلط قائم تھا، تب اس ملک میں ہم غلام تھے لیکن یہ غلامی ہمارے رہنماؤں کو بلکل بھی گوارا نہیں تھی، کیوں ہم اس دین اسلام کے ماننے والے ہیں جو صرف ایک اللہ اور اسکی رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی غلامی کرنا سکھاتا ہے۔

 ہمارے مجاہدین نے اس ملک کو آزاد کرانے کیلئے انگریزوں سے ببانگ دھل جنگ کا اعلان کیا حالانکہ انہیں یہ کہاں گیا کہ تم انگریز کی غلامی میں آجاؤ ہم تمہیں اقتدار دیگے تمہیں حکومت میں حصے داری دے گے۔ لیکن ہمارے آبا و اجداد نے انکی غلامی کو قبول نہیں کیا، اور علماء دیوبند نے انگریزوں کے ساتھ جہاد کا فتویٰ جاری کیا، اسکے بعد ریشمی رومال کی تحریک چلائی گئی، ۱۹۵۷ سے لیکر آزادی ہند تک ہمارے مجاہدین نے قربانیاں دیں جس میں، مولانا محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ،سید احمد شہید رحمۃ اللہ علیہ،شاہ اسمعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ،حافظ ضامن شہید رحمۃ اللہ علیہ،حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ،مولانا محمد علی جوہر رحمۃ اللہ علیہ،مولانا عبیداللہ سندھی رحمۃ اللہ علیہ،مولانا ابوالکلام آزاد رحمۃ اللہ علیہ، وغیرہ کی قربانیوں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا، جن کی طویل جد وجہد کے بعد ہندوستان ۱۵اگست ۱۹۴۷کو انگریزوں کے غلامی سے آزاد ہوا، لیکن ہمارے اسلاف نے ہجرتوں کو دکھ بھلا دیا،شہدوں کا لہوں بھلا دیا،ماؤں کے آنسوں،بہنوں کے ننگے سر بھلا دئیے، اور بوڑھوں کے بے بس چہرے بھلا دئیے، جو خواب ہمارے بزرگوں نے دیکھا تھا آج خواب کی تعبیر بلکل الٹ نظر آتی ہے!

آج کا ہندوستان کیا وہ ہندوستان ہیں جو ایک دور میں گنگا جمنی تہذیب کی مثال ہوا کرتا تھا، جہاں قومی یکجہتی آپسی بھائی چارگی دیکھنے ملتی تھی جو پوری دنیا میں احترام کے نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا، لیکن آج میں اپنے ملک پر نظر دوڑاتا ہو تو میری آنکھیں عجیب منظر دیکھتی ہیں، کہ غریب غربت کی سولی پر لٹک رہے ہیں، مہنگائی اور بے روزگاری نے اخلاق قدروں کو پامال کر دیا ہے،کہیں جج کا قلم بیکتا ہے،کہیں صحافیوں کا قلم بیکتا ہیں، کہیں پولس کی وردی بکتی ہے، تعلیمی اداروں میں ڈگریاں بیکتی ہیں، سیاسی لیڈران اپنے مفاد کی خاطر قوم کا سودا کرتے ہیں، کہیں بیٹیوں کو تعلیمی میدان میں بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ کا نعرہ دیکر رات کی تاریکی میں اور دن کے اجالوں میں انکی عصمتیں تار تار کی جاتی، آزادی نسواں کے نام پر ملک کی بیٹیوں کا سودا کیا جاتا ہیں، ضمیر فروشی عام ہوچکی ہے،لک عزیز میں مرکزی حکومت میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اس جمہوری نظام کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہے، کہیں ترنگے کی توہین کی جاتی ہیں،کہیں بھارت کے آئین کو جلایا جاتا، لیکن حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔

 آخر ملک کس طرف جارہا ہے، ہم اس وقت بڑی نازک موڑ پر کھڑے ہوئے ہیں، جہاں پر حق بولنا لکھنا جرم ہیں، جہاں پر عدالتوں سے انصاف کی امید رکھنا خام خیالی ہے، جہاں پر معصوم بچیوں کی حفاظت کرنا دشوار تر ہوتا جارہا ہے، جہاں پر ملک کے نوجوانوں کو مین اسٹریم میں آنے سے پہلے ایک مخصوص اقلیتی برادری کو تعصب کا نشانہ بنایا جاتا ہے، جہاں انصاف عدالتوں کی چوکھٹ پر دم توڑ دیتا ہیں،عوام کی محافظ کہی جانے والی واردیاں گھروں میں گھس کر نوجوانوں کو تشددکا نشانہ بناتی ہو، جہاں افلاس بڑھتا جارہا ہے،جہاں ظلم ستم عروج پر ہیں، یہاں پر یہ اشعار اسکی ترجمانی کرسکتے ہیں کہ

یہ   شاہراہیں  اسی   واسطے   بنی   تھیں  کیا؟

کہ ان پہ دیس کی جنتا سسک سسک کے مرے

۔

زمیں نے کیا  اسی کارن اناج  اگلا تھا؟

کہ نسل ِ آدم و حوا بلک بلک کے مرے

۔

ملیں اسی لئے ریشم کے ڈھیر بنتی  ہیں؟

کہ  دختران  وطن  تار  تار  کو   ترسیں

۔

چمن کو اس لئے مالی نے خون سے سینچا تھا؟

کہ  اس  کی  اپنی   نگاہیں  بہار   کو   ترسیں

میں اس بات پر نوحہ کنا ہو کے یہ درد دل کس کے سامنے رکھوں،سسکتی بلکتی انسانیت دور کھڑے تماشا دیکھتی ہیں، میرا قلم قاصر ہیں کہ میں اور کچھ لکھ سکوں، آج ہندوستان کے ان حالات کو دیکھتے ہوئے مسلمانان ہند کو اب کمر کسنا ضروری ہے، کیوں کہ جو قوم اپنے ماضی کو بھلا دیتی ہے تو تاریکی اسکا مقدر بن جاتی ہے، آج ہم عہد کریں کہ ہم اپنے ہم وطنوں کے ہاتھوں اپنے ہی بھائیوں کا لہوں بہنے نہیں دینگے ، ہم امن کے دشمنوں کے پر کاٹ دینگے  زمین کی گہرائیوں سے لیکر آسمان کی بلندیوں تک اہل علم کو سمیٹ لینگے، تاکہ میرا یہ پیارا ہندوستان ایک مضبوط و مستحکم نا قابل تسخیر وطن کہلائے۔

تو پکارے گا تو صحن حرم آئیں گے

پر اڑاتے ہوئے نصرت کے علم آئیں گے

اب ابابیلوں کی مانند ہم آئیں گے 

یہ الگ بات ہے کہ تعداد میں کم آئیں گے

 

«
»

قربانی کا مقصد، جسے مسلمانوں نے فراموش کردیا

دھرم رکشک سرکار کے دُلارے کانوڑیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے