وگر نہ آج سہی کل ضرور ٹوٹے گا

مگر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ۱۲بجے تک یہ طئے ہوگیا کہ بہار کی عوام نے پھر ایک بار نام نہاد سیکولرازم کا ساتھ دیا ہے۔وہ نہیں چاہتے تھے کہ اخلاق کو قتل کرنے والی ،فرقہ وارانہ فساد ات برپا کرنے والی تنظیم پھر ملک میں ہنگامہ کھڑا کرے ۔اپنے غرور کا سر پھر سے اونچا کرے۔معصوموں کا قتل ہو،بے جا کسی بھی چیز پر پابندی لگے ۔بہار عوام خصوصََا مسلمانوں نے ایک بار پھر سیکو لرازم کی حفاظت کا ذمہ اپنے سر لیتے ہوئے ۔بدمعاش کو نہ چنتے ہو کم بدمعاش کو ووٹ دینا گورا کیا اور سیکولرازم کے پرچم کو پھر بلند کیا۔اسطرح دہلی کے بعد بہار میں بھی غرور کا سر نیچا ہواہے۔دہلی اور پھر بہار کے ریاستی انتخابات میں واضح شکستوں کے بعد اس غبارے سے ہوا نکل گئی ہے کہ مودی جی اور ان کے معتمد خاص، یعنی بی جے پی کے صدر امت شاہ کو کوئی نہیں ہرا سکتا۔مودی نے اس انتخاب کو ہر قیمت پر جیتنے کا تہیہ کر رکھا تھا۔بہار میں نیتیش کمار، لالو پرساد اور کانگریس کے محاذ نے وزیر اعظم نریندر مودی کو زبردست سیاسی دھچکا دیا ہے۔ صوبائی انتخابات میں بی جے پی کو ایسی شکست فاش ہوئی ہے جو اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں رہا ہوگا۔بہار کے صوبائی انتخابات کے نتائج کو بی جے پی کے مخالفین غرور، منافرت اور عدم رواداری کے بی جے پی کے نظریے کی شکست سے تعبیر کر رہے ہیں۔بہار میں بی جے پی نے بالآخر شکست تسلیم کر لی۔بہار میں مودی اینڈ کمپنی نے جیت کے لئے کیا کچھ نہیں کیابہار میں نریندر مودی نے 40 سے زیادہ انتخابی ریلیوں سے خطاب کیا تھا۔ پوری انتخابی مہم مودی اور پارٹی کے صدر امت شاہ نے چلائی تھی۔ انتخابی سرگرمیوں کے جائزے کے لیے دلی میں ایک ’ٹکنولوجی روم‘ اور ایک ’وار روم‘ بنایا گیا تھا۔چھ لاکھ سے زیادہ بی جے پی اور آر ایس ایس کے کارکن پارٹی کے حامیوں کو پولنگ بوتھوں تک پہنچانے کے لیے مامور کیے گئے تھے۔مگر جب فیصلہ اوپر لکھا جاچکا ہو تو کون ہے جو اس فیصلے کو بدل سکے۔نتیش،لالومہاگٹھ بندھن نے مودی کی ایک نہ چلنے دی۔اس عظیم اتحاد میں بڑے بڑے علاقائی سیاسی ناموں کے علاوہ انڈین نیشنل کانگریس بھی شامل تھی۔بھارتی الیکشن کمیشن کے جاری کردہ اعدا ودشمار کے مطابق بی جے پی مخالف اتحاد نے 243 کے ریاستی ایوان میں 178 نشستیں جیت کر تقریباً تین تہائی کی اکثریت حاصل کر لی ہے۔ اگرچہ ووٹوں کے اعتبار سے نریندر مودی کی اپنی جماعت بے جے پی سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والی جماعت رہی، لیکن مودی اتحاد کو صرف 58 نشستیں حاصل ہو سکیں۔اگر قلیل مدتی حوالے سے دیکھا جائے تو مودی کو بہار کے نتائج سے تین لحاظ سے بڑا دھچکا پہنچا ہے۔بہار کی شکست خود وزیرِ اعظم کی اپنی شخصیت کے لیے خاصی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ ہمارے ملک میں مودی کی بے مثال مقبولیت کو دیکھتے ہوئے بی جے پی نے مودی کو اپنی جماعت کا انتخابی چہرہ تسلیم کر لیا ہے۔انتخابی نتائج آنے کے بعد سوشل میڈیا پر بہت سارے کارٹون ،اشعار اور ٹیکسٹ مسیجس وائرل ہوئے جن کے طنز میں گہرا سیاسی پیغام بھی تھا۔ ایک کارٹون میں ایک گائے کہہ رہی ہے کہ ’میں نہ کہتی تھی کہ مجھ سے دودھ، دہی، گوبر لے لو لیکن ووٹ کی امید مت کرنا!۔فروخت ہوئے ٹی وی چینل والوں کے چہروں پر ہوائیاں اڑ رہی تھی ان کے چہرے مسخ ہوچکے تھے۔مجبوراً مہا گٹھ بندھن کی تعریف میں قصیدے باندھنے پر مجبو رہورہے تھے۔‘اس الیکشن میں اور بھی کئی غیرمعمولی باتیں ہوئیں۔ مہاراشٹر کی فرقہ پرست جماعت شو سینا نے نتیش کمار کو ’ہیرو‘ کہا ہے۔ شو سینا بی جے پی کی اتحادی جماعت ہے اور دونوں پارٹیاں مل کر مہاراشٹر کی حکومت چلاتی ہیں، شو سینا ماضی میں بہاریوں کے ممبئی میں کام کرنے کی مخالفت کرتی رہی ہے۔اور ان کا اس طرح کا بیان بھی فکر انگیز تھا۔ٹی وی چینلوں کے لیے بھی یہ الیکشن مشکل ثابت ہوا۔ مہینوں کے کوریج کے بعد ایگزٹ پول یا نتائج کے تخمینے پیش کیے گئے، زیادہ تر میں کانٹے کی ٹکر دکھائی گئی اور کچھ میں بی جے پی کی یک طرفہ کامیابی۔ سب بالکل غلط ثابت ہوئے۔ صرف ایک سروے بالکل درست تھا لیکن اسے کرانے والے ٹی وی چینل کو یقین نہیں آیا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے اس لیے یہ ایگزٹ پول براڈکاسٹ ہیں نہیں کیا گیا۔نتائج کے بعد مگر یہ بات ثابت ہوگئی کہ ظلم وجبر اور تشدد سے اقتدار حاصل نہیں کیا جاسکتا۔یہ بات مودی اینڈ کمپنی کو سمجھ میں آگئی ہوگی کہ ہم کہاں کمزور پڑے۔مودی جی کے چیلے یوگی پراچی ساکشی گری راج اور کیلاش کا ہمیشہ مسلمانو ں کے خلاف زہر افشانی کرنا،اور مسلمانوں کو بے لگام کوسنے اور بھونکنے کے لئے حکومت کا کھلا چھوڑنا،شک کی بنیاد پر گائے کے گوشت کو بنیاد بناکر اخلاق ،زاہد اور انعام کا قتل کرنا،پسماندہ طبقات کا عدم تحفظ عدم رواداری کا شکار ہونا اور ان کے خلاف روز بروز تشدد اور نفرت کا بڑھنا،حکومت کی بڑھتے ہوئے تشدد کے خلاف ادیبوں دانشوروں مصنفوں اور فلمی ستاروں کا ایوارڈ واپس کرنا،گذشتہ میں صحافی کلبرگی ، پانسرے اور دابھولکر کا قتل ہونا،اور بے بڑھتی ہوئی مہنگائی کے ساتھ بی جے پی لیڈروں کے بے تکے بیانات مودی،شاہ کمپنی کو لے ڈوبی۔لیکن افسوس بی جے پی ترجمان ان حقائق کو تسلیم کرنے سے ہی انکار کر رہا ہے اور بے غیرتی سے صرف اپوزیشن کے ٹھوس اتحاد کو ہی شکست کا سبب بتا رہا ہے ، نیزہار کے مذکورہ اسباب اور ذمہ داری کسی پر بھی عائد کرنے سے گریز کر رہا ہے جبکہ عالمی میڈیا اور تجزیہ نگار شکست کے ذمہ دار وزیر اعظم مودی اور بی جے پی صدر امیت شاہ کی جوڑی کومان رہے ہیں ۔ خیر لگاتار دو الیکشن ہارنے کے بعد نریندر مودی کا سیاسی قد رے کم ہو گیا ہے، اس میں بھی کوئی شبہ نہیں۔ اور اس میں بھی بہار نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔برطانیہ میں ’’مودی ناٹ ویلکم‘‘MODI NOT WELCOMEکے پوسٹر بھی دیکھنے مل رہے ہیں۔اب مودی جی کی شان میں اس کمی کا نتیجہ یہ بھی نکلے گا کہ ان کی جماعت کے اندر ایسے لوگ جو زبردستی ان سے دب کر بات کرتے تھے اب وہ زیادہ کْھل کے بات کرنے لگیں گے جو کل تک مودی جی کے اندازِ حکومت سے متاثر نہیں تھے یا پارٹی کے معاملات پر مودی جی اورامت شاہ کی مضبوط گرفت سے تنگ ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ بہار میں بری شکست سے بی جے پی کے اندر موجود ان لوگوں کو تازہ ہوا ملے گی جو ان دونوں حضرات سے بیزار ہو رہے تھے۔شتروگھن سنہا کو نتیش کمار اور لالو یادو کو جس طرح سے مبارکباد پیش کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے اس یہ اندازہ ضرور لگایا جاسکتا ہے کہ بہت جلد بی جے پی سے ان کا پتہ صاف ہونے کو ہے۔بہار کے الیکشن میں بی جے پی کی شکست لال کرشن اڈوانی اور ان کے خیمے میں شامل دوسرے رہنماؤں کے لیے اگر اچھی خبر نہیں تو ایک موقع ضرور ہے کہ وہ مودی کے کام کاج کرنے کے انداز کے خلاف آواز اٹھا سکیں۔اوریہ بھی نہ بھولیے کہ بھارت میں ریاستی انتخابات بہت مدت کے بعد ہوتے ہیں، بلکہ سچ یہ ہے کہ جلد ہی ہم کسی اور ریاست میں انتخابات کی بات کر رہے ہوں گے۔بہر کیف بہار کے نتائج نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اگر آپس میں متحد ہو جائیں تو مودی مخالف جماعتیں ’مودی مودی کی لہر‘ کا مقابلہ کامیابی سے کر سکتی ہیں۔الیکشن آتے رہیں گے جاتے رہیں گے۔مگر مسلمانو ں کو یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ وہ جسکو منتخب کر کے لائے ہیں وہ انکے بہت ہمدرد اور خیر خواہ ہیں ۔کیو نکہ سیکولرازم کا بھرم بھرنے والی یہ تمام جماعتوں نے مسلمانوں کے خلاف بہت ساری اسکیمات اور پروپگنڈے تیار کر رکھے تھے ۔منافق کی چال چلنے میں یہ سیکولر جماعتیں بہت آگے ہیں۔مسلم مخالف قانون اور اسکیمات پر عمل آوری تو یہ فرقہ پرست اور تعصب پسند حکومت کررہی ہیں۔یہ ہر دور میں میں ہماری مجبوری رہی ہے کہ ہم ہارڈکمیونلزم پر سافٹ کمیونلزم کوترجیح دیتے ہیں کہ وہ ہمارے حقوق ہمیں دلوائے گا۔ ہم پر ہورہے ظلم وزیادتی کے خلاف آواز اٹھائے گا۔ایک طرف مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کی بات ہوتی ہے اوروہ صرف دلاسہ تک محدود ہوجاتی ہے۔اگر بہار الیکشن پر غور کیا جائے توپتہ چلتا ہے کہ مہاگٹھ بندھن نے مسلمانو ں کے بل بوتے پر ایک تہائی الیکشن فتح کیا ہے۔اور جہاں تک سیٹوں کے بٹوارے کی بات ہوتی ہے تو۵ سے ۱۰ فیصد ہی مسلمانوں کو نمائندگی ملتی ہے۔آٹے میں نمک کے برابر ہی مسلمانوں کو الیکشن میں کھڑا کیا جاتا ہے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ یادؤں کو۶۳ ٹکٹ پر کھڑا کیا گیا اور۳۳ مسلمان امیدوار بنائے گئے۔ جن میں سے ۲۵ مسلمان اسمبلی پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ یہ تعداد آبادی کے تناسب سے بہت زیادہ کم ہے۔ جب آپ ہمیں ٹکٹ دیں گے ہی نہیں تو مسلمان کہاں سے قانون اور حکومت کے اداروں تک پہنچے گا؟زیادتی تو یہاں سے شروع ہوتی ہے۔کیا ہم بس ہر بار کسی نام نہاد سیکولر پارٹی کے بہکاوے میں آکرپارٹی کو اقتدار کی منزل تک پہنچاتے رہیں گے۔آخر ہم کب تک بے یارومددگار مجبور وبے بس رہیں اور دشمنوں کو پہنچانے کے باوجود اقتدار سے نوازتے رہیں گے۔اور پھر آنے والے پانچ سالوں تک ہمار استحصال وہ جیسا مرضی چاہے کرتی رہے۔گذشتہ میں بھی شہد لگانے کا کام یہی سیکولر نام نہاد پارٹیاں جس میں کانگریس، این سی پی اور دیگر پارٹیاں کرتی ہیں۔بابری مسجدسانحہ کی شروعات یہی کانگریس کے دور سے شروع ہوئی اوراسے شہید بی جے پی اور اس کی ذیلی پارٹیوں نے کیا۔لیکن اس سے کوئی سرورکار نہیں کہ بہار کے مسلمانوں کو مہاگٹھ بندھن کے علاوہ کوئی اورمتبادل موجود تھا۔اسی لئے ہمیں کم بدمعاش کو زیادہ بدمعاشی والے پر ترجیح دینا پڑی۔مسلمانو ں کو یاد رکھنا چاہئے کہ کانگریس ،راجد، جدیو، ایس پی، بی ایس پی، او رین سی پی کوئی بھی مسلمانو ں کی ہمدرد پارٹی نہیں ہے۔ مہاگٹھ بندھن کو زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ مسلمانوں نے ملک کے مفاد میں ان کا دل کھول کر ساتھ دیا ہے ۔بہر کیف بہار ہی نہیں پورے ہندوستان کے مسلمانوں کومسلم لیڈران کو سوچ کر غوروخوص کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم آخر کب اپنا مہاگٹھ بندھن بنائیں گے کب متحد ہوں گے کب ان فرقہ پرستوں کو منہ توڑ جواب دیں گے۔ اب کی بار بہار کے مسلمانوں نے اپنی ذمہ داری بخوبی ادا کردی ہے اب مہا گٹھ بندھن کا کام یہ ہے کہ مسلمانو ں کے تئیں ان کے مسائل کو سمجھے ان کی ہر ممکنہ مدد کرنے کی کوشش کریں۔ کیونکہ
بلندی دیر تک کس شخص کے حصہ میں رہتی ہے۔۔۔۔۔بلند عمارت ہر گھڑی خطرے میں رہتی ہے

«
»

فرانس پھرلہولہان!

غزل

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے