ہندوستان میں سیکولر حکومت کا مسلمانوں کے ساتھ دستور مخالف رویہ ،

پسماندہ طبقات کے طلبہ کوتعلیمی اداروں میں داخلہ کیلئے آسانیاں ملتی ہیں۔نیزسرکارکے اعلیٰ عہدوں جیسے کلکٹر،پولس کمشنربننے میں،آسانیاں ہوتی ہیں۔اس کے علاوہ دیگرسرکاری مراعات ملتی ہیں۔ہمارے ملک میں انگریزوں کے زمانہ سے ۱۹۵۰؍تک بناء امتیازمذہب تمام مذاہب کے طبقات کوشیڈول کاسٹ کاریزرویشن،آئینی ودستوری سطح پرملتارہا۔دستوروآئین کی دفعہ۳۴۱؍کی روسے سے ہمارے ملک میں تمام مذاہب کے افراد کوبلاامتیازمذہب،شیڈول ریزرویشن ملنے کی بات ہے۔بدقسمتی سے ۱۰؍اگست ۱۹۵۰؍کوکانگریسی وزیراعظم جواہرلال نہروکے دورحکومت میں صدرجمہوریہ راجندرپرسادکے ایک صدارتی فرمان کی بناء پر صرف ملک میں ہندؤں کوشیڈول کاسٹ کاریزرویشن دیاجانے لگا۔ملک کے آئین اوردستورسے یہ سراسرغلط ہے۔دستورآئین کامذاق ہے۔اسی صدارتی فرمان کی بناء پر ہندؤں کوچھوڑکر تمام مذہبی اقلیتوں بشمول مسلمان،شیڈول کاسٹ ریزرویشن سے محروم ہوناپڑا۔
اس کے خلاف سکھوں نے زبردست تحریک چلائی۔نوبدھشٹوں نے اوران کی قیادت نے پرزورتحریک چلائی۔یوں سکھوں کو۱۹۵۶؍اورنوبودھشٹوں کو۱۹۸۹؍میں سرکاری سطح پرشیڈول کاسٹ کاریزرویشن ایک قانون کے ذریعہ ملنے لگا۔مسلمانوں کے لئے بھی شیڈول کاسٹ کاسرکاری قانون بنے۔مہاراشٹرکی مسلم کھاٹک برادری نے سپریم کورٹ میں اپیل دائرکیں۔نمایاں سماجی خدمت گارکپل پاٹل(ایم ایل سی)بھی اپیل گزاروں میں ہیں۔۱۹۵۰؍میں مسلمانوں کوشیڈول کاسٹ ریزرویشن سے صدارتی فرمان کے ذریعہ محروم نہ کیاجاتا۔توکس قدرگذشتہ ۶۳؍سالوں میں مسلمانوں کی ترقی ہوتی۔کس قدرکلکٹر،پولس کمشنر،ڈاکٹر،انجنیئر،سرکاری نوکریاں اوردیگرکاروباری معاشی فوائدہوتے ۔پھرشایدسچرکمیٹی کی رپورٹ یہ نہ کہتی کہ مسلمانوں کی سماجی زندگی دلتوں سے بدترہے۔مسلمانوں کو دلت سے بد تر کس نے بنایا؟
احتجاج جمہوری حق ہے۔دستورسے جائزہے۔بہت سے مطالبات،جمہوری تحریکوں سے بھی پورے ہوئے ہیں۔حکومت عوامی احتجاجات کی بناء پر غفلت سے جاگتی ہے۔فلاح وبہبودکے قانون بناتی ہے۔سنجیدگی،عقل وفہم،مستقل مزاجی،صبرکا،احتجاج کی کامیابی کیلئے ضروری ہے۔مسلمانوں کے لئے شیڈول کاسٹ کے ریزرویشن کیلئے پرامن احتجاج ضروری ہے۔ریزرویشن پرگذشتہ ۶۳؍سالوں سے ناانصافی ہورہی ہے۔حکومت کوجگانے کیلئے احتجاج وتحریک کی ضرورت ہے۔آخریہ کون کرے گا؟ افسوسناک پہلوہے کہ مسلم لیڈران ،علماء کرام،دانشوران قوم نے اس جانب سنجیدگی سے سوچاہی نہیں!
؂ پہلے قوت فکروعمل فناہوتی ہے ۔پھرکسی قوم کی شوکت پرزوال آتاہے
ہم میں ان کی کمی نہ تھی جوریزرویشن کوحقیرسمجھتے آئے۔کیاہم دلت ہوجائیں گے۔اسلام مساوات کومانتاہے۔ریزرویشن کے نام پرتفرقہ بندی ہوگی وغیرہ وغیرہ۔حقیقت حال یہ ہے کہ ریزرویشن مذہب کی بنیاد پرنہیں ہے بلکہ سماجی،معاشی پسماندگی کی بنیادپر،آئینی طورپردیاگیاہے۔گذشتہ ۶۳؍سالوں سے اس سے مسلمان محروم ہیں۔جس کیلئے مسلمان سپریم کورٹ میں اپیل بھی دائرکرچکے ہیں،آٹھ سال ہوگئے۔ آج تک کانگریس کی مرکزی سربراہی والی حکومت نے نوٹس ملنے
کے باوجودسپریم کورٹ کے سامنے اپناموقف تک نہیں رکھا۔مسلمانوں کے شڈیول کاسٹ ریزرویشن کیلئے گذشتہ چنددنوں سے پرامن تحریک جاری ہے متعددمسلک کے علماء کرام ،متعددسیاسی پارٹیوں کے مسلم لیڈران،سماجی ورکر،سماجی ادارے ،مدارس کے مہتمم حضرات کی حمایت حاصل ہے۔’’مومنٹ فورریسٹوریشن آف ریزرویشن فورمسلم شیڈول کاسٹ‘‘کی جانب سے مسلمانوں کوریزرویشن ملے۔اسی کی خاطر۲۷؍نومبر۲۰۱۳؍دوبجے دوپہر آزادمیدان،وی ٹی اسٹیشن ممبئی۱؍جلسہ کیاجارہاہے۔اگرمرکزی حکومت۱۹۵۰؍کے صدارتی فرمان میں ترمیم کرنے یاجمہوری دستوری طریقہ سے مسلمانوں کوشیڈول کاسٹ کاریزرویشن دے کر،ہندوستان کے آئین ودستورکی پاکیزگی کوبرقراررکھے۔لگتاہے جوایک منظم جن سنگھی ذہنیت کی بناء پرریزرویشن کے معاملہ میں،لگتاہے مذاق بن گیاہے۔ہمارے مسلم اداروں،انجمنوں اوربالخصوص نوجوانوں مسلم وکلاء،دانشوران سے خصوصی درخواست ہے کہ ۲۷؍نومبرکے جلسہ کوکامیاب بنائیں۔اتحاد واتفاق میں اللہ کی رحمت ہے۔اتحادواتفاق کے ساتھ تحریکی مسائل حل ہوتے ہیں۔حصول ریزرویشن کے لئے ضروری ہے علماء دین،دانشوران قوم،سماجی خدمت گزار،سرکردہ افرادسر جوڑ کر بیٹھیں اور میدان عمل میں آئیں ائمہ کامسلم سماج میں ایک اہم مقام ہوتاہے۔ایک عالم اگرکہہ دے چاندہوگیاتوپھرشک وشبہ کی گنجائش نہیں رہتی۔یہی بات بڑے سے بڑاسرمایہ دار،حکومت میں چاہے وزیراعظم کیوں نہ ہو۔کہہ دے،توکوئی مسلمان اس پرعمل نہیں کرتا۔علماء کرام،آئمہ مساجدکومسلم شیڈول کاسٹ ریزرویشن کے لئے،آوازاٹھاناہے۔انشاء اللہ لوگ لبیک کہیں گے۔آوازصدابہ صحراثابت نہ ہوگی۔پورے مہاراشٹر مٰں شیڈول کاسٹ ریزرویشن کیلئے مسلمانوں میں تحریک عروج پر ہے۔مسلم پسماندہ طبقات و برادری کے ساتھ ساتھ دیگر مسلم سرکردہ افراد پیش پیش ہیں۔مفتی ہارون شیخ ندوی ،محمود نواز تھانہ والا ،پروفیسر جاوید پاشا ،حاجی حسن الدین ،عبد الکریم سالار ،شمشیر خان پٹھان،شبیر انصاری،محمود پرویز،اشفاق پنجاری ،عبدالخالد داروگر ،بشیر قریشی،امتیاز مسولکر،کپل پاٹل ،وغیرہ وغیرہ اورنگ آباد ،عثمان آباد ،بیڑ ،جلگاؤں ،دھولیہ ،ممبئی اور مہاراشٹر کے دیگر شہروں میں اور قصبوں میں ممبئی میں 27؍نومبر کو مسلمانوں کو شیڈول کاسٹ ریزویشن کیلئے حکومت پر دباؤ بنانے کیلئے ،آزاد میدان ممبئی میں اجلاس کو کامیاب کرنے کیلئے جلسے اور میٹنگیں کر رہے ہیں ۔تاکہ یہ اجلاس ایک تاریخی رقم کرے۔ 

«
»

کم عمر نظر آنے والی خواتین کا بلڈ پریشر کم ہوتا ہے:تحقیق

یورپ میں لوگ زندگی سے کس قدر مطمئن ؟ جائزہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے